چشم کشا حقائق پر مبنی عاصم سجاد اختر کی کتاب

عاصم سجاد اختر کی کتاب "The Struggle for Hegemony in Pakistan” پڑھتے ہوئے جابجا باقاعدہ رُکنا پڑا، تاکہ خود کو یقین دلا سکوں کہ یہ کتاب پاکستان ہی میں شائع ہوئی ہے اور مصنف اسلام آباد کی قائد اعظم یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں……!
یہ اس لیے کہ اس مختصر سی کتاب میں ’’سجیلے جوانوںـ‘‘ کے کارناموں پر جس قدر کڑی اور بغیر کسی ملمع کاری کے تنقید ہوئی ہے، ایسا کم کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ پختون خوا سے لے کر گلگت بلتستان تک، لاہور سے لے کر کراچی تک، جہاں بھی استحصالی ٹولے نے قوم کو یرغمال بنایا ہے، مصنف کے قلم نے چستی سے پیچھا کیا ہے۔ بحریہ ٹاؤن کراچی، ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی اور لاہور کے مافیاز کے طریقۂ واردات پر بھی سیر حاصل بحث ہوئی ہے۔
ظہیر الاسلام شہاب کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/zaheer/
2022ء میں شائع ہونے والی اس کتاب میں جہاں سوشل میڈیا کے استعمال کے سیاسی اور سماجی پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے، وہاں بہتر زندگی کے متلاشی نوجوانوں کی انقلابی اُمنگوں کا مناسب راستہ متعین کرنے کی بھی کوشش کی گئی ہے۔
اس کتاب میں ایسے موضوعات کو زیرِ بحث لایا گیا ہے، جنھیں مین اسٹریم میڈیا سے کوسوں دور رکھا جاتا ہے۔ اِس لیے اس کا مطالعہ اُن لوگوں کے لیے بہت مفید ثابت ہوسکتا ہے، جنھیں ظاہری پروپیگنڈے کے پیچھے حقائق کی کھوج لگانے میں دلچسپی ہے۔
یہ کتاب پنجاب اور سندھ کے نوجوانوں کو اس لیے پڑھنی چاہیے، تاکہ ان کو پتا چلے کہ بلوچستان، خیبر پختون خواہ اور گلگت بلتستان میں ’’ترقی‘‘ اور ردِ دہشت گردی (Counter Terrorism) کے خوش نما بیانیوں کے لبادے میں کس قدر گھناؤنا اور مہلک کھیل کھیلا جاتا رہا ہے۔ اس طرح نہ صرف بڑے شہروں، جیسے لاہور اور کراچی کو درپیش چیلنجوں اور وہاں موجود سرمایہ پرست ٹولے کے ہتھکنڈوں کا اندازہ ہوجائے گا…… بلکہ شہری اور دیہاتی/ کم ترقی یافتہ علاقوں، مثلاً: پنجاب میں شمالی اور جنوبی پنجاب اور سندھ میں کراچی اور اندرونِ سندھ کے درمیان موجود کثیر جہتی فاصلوں کا بھی پتا چل جائے گا۔
یہ کتاب پختون، بلوچ اور گلگت بلتستانی دوستوں کو اس لیے پڑھنی چاہیے کہ ماضی سے سبق سیکھ کر حالیہ اور آیندہ کی آزمایشوں سے بخوبی نمٹ سکیں۔
سی پیک (CPEC) کے تناظر میں گوادر میں لائی جانے والی تبدیلیوں کی وجہ سے مقامی آبادی کے حقوق کس طرح غصب ہو رہے ہیں…… تھر، جہاں پہلے سے 70 فی صد سے زیادہ آبادی کو پینے کے لیے صاف پانی تک میسر نہیں، میں کوئلہ کی کان کنی سے مقامی ماحول (Ecosystem) اور لوگ کیسے متاثر ہو رہے ہیں…… نیز کان کنی کا فائدہ کس کو پہنچ رہا ہے…… ہنزہ کی لینڈ سلائیڈنگ سے متاثرہ لوگوں کی امداد کے حق میں آواز اٹھانے والے بابا جان نامی شخص کے ساتھ کیا ہوا……! یہ اور اس طرح دیگر ڈھیر سارے اہم مسائل کتاب کا حصہ ہیں۔
کتاب میں امریکہ کے سو کالڈ "War on Terror” اور اس کے اندوہناک اثرات کا بھی تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔
چوں کہ اب پھر سے خیبر پختونخوا میں آپریشن کے نام پر کشت و خون کا بازار گرم کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں، اس لیے اس کتاب کا مطالعہ اس حوالے سے بھی مفید ہے کیوں کہ اس میں سابقہ آپریشنوں کے تباہ کن نتائج اور بے گھر ہونے والی پختون آبادی کی در در کی ٹھوکریں کھانے اور ساتھ اپنے اُوپر دہشت گرد ہونے کا ٹھپا لیے پھرنے (جب کہ حقیقت یہ ہے کہ مصنف کے نزدیک لاہور اور کراچی میں ہونے والے حملوں کا شکار بھی عموماً پختون بنتے آئے ہیں) کی داستان بھی شامل کر لی گئی ہے۔
جب امریکی ڈالروں اور سعودی ریالوں کے حصول کے لیے ہماری ریاست، افغانستان کی پراکسی جنگ میں شریک ہوئی، تو بارڈر پر موجود پختون آبادی شہروں کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئی۔ اسلام آباد کے سیکٹر I-11 میں کچی آبادیوں میں پناہ لینے والوں کی بستی کو میونسپل اتھارٹی کی طرف سے ’’افغان بستی‘‘ کا نام دیا گیا اور اُن کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھا گیا جیسے یہ پاکستان کے اپنے نہیں بلکہ افغانستان سے آئے لوگ ہوں۔
جب سوات 2009ء کے آپریشن کا تختۂ مشق بنا، تو 30 لاکھ افراد گھر چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔ یہ لوگ یا تو قریبی اضلاع میں انجان لوگوں کے ہاں ٹھہرنے لگے یا پھر کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں پناہ لے لی۔ مصنف کے مطابق کراچی میں پہلے مہاجر اور سندھی قوم پرست آپس میں باہم دست و گریباں تھے، لیکن جب پشتون مہاجرین وہاں پہنچے، تو انھوں نے اس بیانیے پر اتحاد قائم کرلیا اور پشتون مہاجرین کو تنگ کرنے لگے کہ ہم شہروں کی ’’طالبنائزیشن‘‘ نہیں ہونے دیں گے۔ گویا تمام پشتون ’’طالبان‘‘ ہیں اور ان کی وجہ سے شہر کی تہذیب خطرے میں ہے۔
اسلام آباد کی جن کچی آبادیوں کا تذکرہ ہوا، مصنف کے مطابق 2015ء میں شہری اتھارٹی اور رئیل اسٹیٹ ڈیلرز کے لیے مزید وہاں پشتون مہاجرین قابل قبول نہیں تھے۔ میڈیا کا سہارا لے کر پروپیگنڈا کیا گیا کہ یہ پشتون آبادی جو زبردستی یہاں آگھسی ہے، جس کے طالبان کے ساتھ روابط ہیں اور جو خود دہشت گرد ہے……’’ترقی‘‘کی راہ میں حائل ہے۔ ایک گرینڈ آپریشن لانچ ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے 25,000 پشتون مرد، عورتیں اور بچے وہاں سے بھی بے گھر ہوگئے۔ صرف یہی نہیں بلکہ ان کے خلاف پولیس کی جانب سے "Anti-Terrorist Legislation” کے تحت کیس بھی درج کیا گیا اور جب اُن کی آبادیاں منہدم کر دی گئیں، تو پشتونوں کے حوالے سے خوف پھیلاتے ہوئے گرد و نواح کی آبادیوں میں اعلان کیا گیا کہ پشتونوں کو پناہ دینا تو دور کی بات، یہ اگر کرائے پر جگہ مانگ لیں، تو بھی نہ دیا کریں۔
مقامی لوگ، جو اِس بات پر افسوس کر رہے تھے کہ ان کچی آبادیوں کی وجہ سے اُن کی زمینوں کی قیمتیں گرگئی ہیں، بہت خوشی سے سرکار کے احکام بجا لانے لگے۔
اگر پشتون چاہتے ہیں کہ آیندہ اس قسم کے حالات کا سامنا نہ کرنا پڑے، تو انھیں اپنی سرزمین پر "Counter Terrorism” اور ترقی کے نام پر ہونے والی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھنی ہوگی۔ ملک کے دیگر صوبوں میں رہایش پذیر ہم وطنوں کو بھی پشتونوں کا پورا پورا ساتھ دینا ہوگا۔ یہ خوں ریز کارروائیاں ہم میں سے کسی کے حق میں بھی نہیں۔ ہمیں بے وقوف بنانے کی ایک بار پھر کوشش کی جا رہی ہے، لیکن اب یہ بات سب پر عیاں ہے کہ کون کیا ہے، کس نے کس کی تخلیق کی، کس کو کن لوگوں نے کہاں آباد کیا ہے، کس نے کہاں سے کتنے ڈالر اور ریال لیے، فاٹا کے کن علاقوں میں بظاہر دشمن نظر آنے والے ایک ساتھ متحرک ہیں، کون لوگ تباہ ہوئے اور کون راتوں رات کروڑ پتی بن گئے……!
ہمیں یہ بھی پتا ہے کہ جب حق گوئی کے جرم میں ایک ارمان لونی، سنید داوڑ یا مشال خان قتل ہوتا ہے، تو دس اور پیدا ہو جاتے ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے