اردو یا پشتو میں کسی کتاب کا مطالعہ کروں…… اور صرف کیے گئے وقت کو بامعنی پاؤں، تو دوہری خوشی ہوتی ہے۔
زیرِ تبصرہ کتاب کو پڑھنے کے بعد بھی کچھ ایسے ہی احساسات ہیں۔
مصنف جمشید اقبال نے صرف کسی کتاب پر اپنا نام کندہ کرنے اور مصنف کہلائے جانے کے چکر میں اُردو قارئین کو زحمت نہیں دی…… بلکہ بھرپور محنت اور تحقیق کے بعد ایک انتہائی اہم موضوع پر قلم اُٹھایا ہے۔
ظہیر الاسلام شہاب کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/zaheer/
قارئین……! یوں تو اس کتاب کے کئی پہلو ہیں، لیکن آج کی نشست میں، مَیں صرف اس کے ردِ استعماری (Decolonizing) والے پہلو پر بات کرلیتا ہوں۔
براہِ راست استعماریت کے خاتمے کے بعد تقریباً تمام سابقہ نوآبادیات میں پسِ نوآبادیاتی اور ردِ استعماری ادب لکھا جاتا رہا ہے۔ ہمارے ہاں پاک و ہند میں بھی اس حوالے سے کام ہوا ہے۔ پاکستانی پس منظر میں البتہ جو ادیب یا دانش ور دیکھنے کو ملتے ہیں…… اُن کا مسئلہ یہ ہے کہ فرنگی استعماریت اور اس کے اثرات پر تو لعن طعن کرتے رہتے ہیں…… لیکن عرب استعماریت کا تنقیدی جائزہ لینے کی بجائے اُلٹا اس کے قصیدے پڑھتے رہتے ہیں۔ ایسے میں اس دھرتی کا اپنا مقامی تہذیبی ورثہ، جو کہ پوری دنیا میں نسلِ انسانی کے قدیم ترین ورثوں میں سے ایک ہے، حاشیے پر دھکیلا جاتا رہا ہے۔
یہاں مقامیت کا ایک رومانوی خاکہ صرف اس وقت پیش کیا جاتا ہے، جب فرنگی سامراجیت کا تذکرہ ہو رہا ہو۔ پڑوس سے اگر کسی ڈاکو نے حملہ کرکے انسانی کھوپڑیوں کا ڈھیر کھڑا کیا ہے، تو اس کو بھی ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا رہا ہے۔
قارئین……! جمشید اقبال کی یہ کتاب اس حوالے سے منفرد ہے کہ یہ نہ صرف ہندوستان بلکہ دوسرے سابقہ نوآبادیات جیسے افریقہ، لاطینی و وسطی امریکہ اور امریکی انڈینز کی مقامی جڑوں کے ساتھ ساتھ چینی تہذیب اور فلسفے کا بھی نہ صرف سراغ لگاتی ہے…… بلکہ ان خطوں کے اجتماعیت پسند، فطرت دوست اور ہم موجودیت پسند فلسفے کا مغرب کے جدلیاتی، انسان مرکزی اور توسیع پسندانہ فلسفے سے موازنہ بھی کرتی ہے۔
یوں آپ کو پتا چلتا ہے کہ ایسا نہیں تھا کہ فلسفے کا چشمہ قدیم یونان کے شہر ایتھنز میں پھوٹا…… اور پوری دنیا کو سیراب کرتا رہا…… بلکہ اس کے برعکس یونان سے بھی قبل جہاں بھی انسانی تہذیب نے داغ بیل ڈالی تھی…… ساتھ ادب اور فلسفے کی بنیاد بھی رکھی تھی۔
قارئین……! اگر آپ مذہب، تاریخ اور فلسفے میں دلچسپی رکھتے ہیں…… اور اُردو میں کوئی اچھی کتاب پڑھنا چاہتے ہیں، تو یہ کتاب حاضر ہے۔ ان دقیق موضوعات کو جس قدر خوش اسلوبی، روانی اور عام فہمی سے جمشید صاحب زیرِ بحث لائے ہیں، ایسا کم ہی لوگ کر پاتے ہیں۔
اس دعا کے ساتھ اجازت چاہوں گا کہ
اللہ کرے حسنِ رقم اور زیادہ
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔