گذشتہ دنوں سوات کی ایک مقامی ویب سائٹ ’’سوات انسائیکلو پیڈیا‘‘ پر ریاستی دور کی سڑکوں کے متعلق عملہ کی ایک تصویر شیئر کی گئی تھی جس پر مختلف مزاج کے لوگوں نے اپنے ظرف، معلومات اور مزاج کے مطابق تبصرہ کیا تھا۔ وہاں پر مجھ سے جو بھی ممکن ہو سکا،جواب دیا تھا…… مگر مجھے محسوس ہوا کہ وہ تشنہ اور نامکمل تھا۔ اس لیے مَیں نے مناسب سمجھا کہ حتی المقدور کچھ معلومات آپ سے شیئر کرلوں۔ یہ حتمی ہرگز حتمی بات نہیں ہوگی اور اس میں بھی خامیاں ہوں گی…… مگر میں اپنے حصے کی معلومات قلم بند کرنا چاہتا ہوں۔
فضل رازق شہاب کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fazal-raziq-shahaab/
ابتدا میں جو پہلی سڑک ریاست کی سرحد ’’گٹ کوٹو‘‘ سے ’’سیدو شریف‘‘ تک بنائی گئی تھی، وہ عوام کے ذریعے بطورِ ’’بیگار‘‘ بنائی گئی تھی (بیگار اس کام کو کہتے ہیں جس کے پیسے ادا نہیں کیے جاتے) اور ہر خیل نے ’’دوتر‘‘ کے حساب سے اس کی تعمیر میں اپنے حصے کا کام کیا تھا۔
ابتدا میں اس کی دیکھ بھال صرف ہنگامی بنیادوں پر کی جاتی تھی۔ بعد میں جب ریاست کو استحکام ملا، تو فوج ہی کے ذریعے نہ صرف نئی سڑکوں کی تعمیر ہوتی رہی، بلکہ مرمت اور دیکھ بھال (Maintenance) بھی ان کا فریضہ رہی۔ بعد میں یہ ضروری سمجھا گیا کہ سڑکوں کی دیکھ بھال کے لیے ایک مستقل فورس تشکیل دی جائے، جو صرف ہفتہ وار چھٹی اور دیگر سرکاری تعطیلات کے علاوہ مستقل طور پر مصروفِ کار ہو۔
فوج تو سال بھر میں مختلف اوقات میں محدود دنوں کے واسطے گروپوں میں بلائی جاتی تھی، جو مجموعی طور پر سال بھر میں 3 مہینے بنتے تھے…… مگر سڑکوں کی دیکھ بھال کے جو نیم مسلح دستے تشکیل دیے گئے، ان کا سیٹ اپ فوجی خطوط پر کیا گیا……اور وہی رینکس برقرار رکھے گئے۔ اس میں بھرتی شدہ افراد زیادہ تر غریب طبقے کے لوگ تھے، جن کے لیے سال بھر میں بہ طورِ ملازم سڑک سولہ من غلہ بھی غنیمت تھا جو بہ طورِ سپاہی ملتا تھا۔ اوپر کے رینکس بھی فوج کی طرز پر جنس کی صورت میں معاوضہ وصول کرتے تھے۔ عام فوج سے ان کی شناخت کے لیے ان کی بیری کیپ کا رنگ سرخ رکھا گیا۔ ان کو سرکاری گودام سے اوزار کی وافر فراہمی بھی یقینی بنائی جاتی تھی، جن سے یہ اپنا کام بھی کرتے تھے۔ یہ فورس براہِ راست نائب سالار کی نگرانی میں مصروفِ عمل رہتی، جیسے دیگر محکموں میں حالات کے مطابق اصلاحات ہوتی رہیں۔ اس شعبے میں بھی وقتاً فوقتاً تبدیلیاں ہوتی رہیں۔
آخری دس بارہ سال میں اس کی ہیئتِ ترکیبی میں کوئی خاص تبدیلی نہیں کی گئی۔ ادغام کے وقت اس فورس کی تعداد دوہزار کی قریب تھی، جس کا ڈھانچا یوں تھا: کمانڈر، صوبیدارمیجر، صوبیدار، جمعدار، حوالدار اور سپاہی۔
ریاست کے خاتمے کے بعد اس فورس کے ارکان کو (علاوہ کمانڈر کے) آپشن دیا گیا کہ وہ نئے سٹ اَپ میں رہنا چاہتے ہیں، یا دوسرے فوجیوں کی طرح مراعات لے کر ریٹائر ہونا چاہتے ہیں۔ ان سے ریاستی سرکار کی دی ہوئی کئی سو سائیکلیں اور اوزار وصول کرکے سب کچھ گودام میں داخل کیا گیا، جو موسم کے رحم وکرم پر کھلے آسمان تلے پڑا رہا اور بعد میں اونے پونے داموں نیلام کریا گیا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔