بابو جان گاؤں دہم میں پیدا ہوتا ہے۔ پانچ سال کی عمر میں اُس کے والد اُس کو انگلی سے پکڑ کر گاؤں میں واحد پرائمری سکول میں داخل کراتے ہیں۔ وہ روزانہ سکول جاتا ہے۔ وہاں اُس کا سامنا لکھے ہوئے الفاظ سے ہوتا ہے، جن کو وہ نہیں سمجھتا۔
زبیر توروالی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/zubair-torwali/
بابو جان جب سکول جاتا ہے، تو اس کا سامنا سیمنٹ کی ایک بد صورت سی، بد مزہ، بے برکت اور یخ بستہ کمرے کی ٹوٹی ہوئی فرش پر پڑے ٹاٹ سے بھی ہوتا ہے، جس پر اُسے بیٹھنا ہوتا ہے۔ ایک شخص روزانہ سکول میں اُسی لمبوترے کمرے کے سامنے والی دیوار کے قریب کھڑے ہوکر کتابوں سے بابو جان اور ساتھیوں کو کچھ سناتا ہے اور پھر بورڈ پر لکھ کر اُن کو کہتا ہے کہ اس کو اپنی کاپیوں میں لکھو۔ بابو جان اس شخص سے بات نہیں کرسکتا کہ یہ شخص ایسی زبان بولتا ہے جو بابو جان نے گھر کے اندر یا گھر کی چھت پر کھیلتے ہوئے کبھی نہیں سنی۔
بابو جان ماں روزانہ صبح اُٹھاتی ہے اور ایک کپڑے میں بندھی کچھ کتابیں اُس کو دے کر سکول کی طرف بھیجتی ہے۔ اُس کو کچھ اندازہ نہیں کہ یہ سب کیا ہورہا ہے؟ البتہ وہ خوش رہتا ہے کہ دوپہر کو وہ گھر جاکر پھر اپنے دوستوں کے ساتھ، اپنے کتے اور مرغیوں کے ساتھ کھیل سکتا ہے یا پھر وہ پہاڑی پہ جاکر بکری اور گائے کے لیے گھاس لاسکتا ہے۔ ماں باپ اُس سے خوش ہیں کہ بچہ تعلیم حاصل کررہا ہے۔
سکول جانے کے علاوہ بابو جان مسجد بھی باقاعدگی سے جاتا ہے۔ نماز پڑھنا اور قرآنِ پاک کی تلاوت کرنا سیکھتا ہے۔ مولوی کی ہر بات کو مانتا ہے، تاہم مسجد میں ساتھیوں کے ساتھ مل کر شیطانی( کھیل کود) بھی کرتا رہتا ہے، جس پر مولوی صاحب غصہ ہوکر اس کو سزا بھی دیتے ہیں۔ ایسے میں چار پانچ سال گزر جاتے ہیں اور بابو جان کو قرآن پڑھنا آجاتا ہے۔
بابو جان چوتھی جماعت تک یہ سلسلہ جاری رکھتا ہے اور اُس کے بعد اُس کے والد کو خیال آتا ہے کہ بیٹا اب جوان ہوگیا اور اُس کے ساتھ کھیت میں ہل چلا سکتا ہے اور فصل بو سکتا ہے۔ اُس کے والد مطمئن ہیں کہ بیٹے نے تعلیم حاصل کرلی۔ بابو جان باپ کے ساتھ کھیت میں کام کرنے لگ جاتا ہے۔ وہ اَب باپ کی جگہ اُس چھوٹی سی کھیت کو سنبھال لیتا ہے۔ دو تین سال گزرنے کے بعد بابو جان کے ماں باپ اُس کے لیے پڑوس میں رشتہ داروں کے ہاں لڑکی ڈھونڈ کر منگنی کرواتے ہیں۔ بابو جان اُس پر خوش ہے۔ وہ والد کے کھیت میں کام کرنے پر بھی خوش ہے۔ اپنے گاؤں میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ محفلیں جماتا ہے اور فصل کی بوائی اور کٹائی کے وقت یہ سب ساتھی مل کر باری باری ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ وہ رات کو کبھی کسی دیرے/بیٹھک میں بیٹھ کر ستار اور مٹکا وغیرہ بجاتے ہیں اور اپنی زبان کے گیت گاتے ہیں۔
بابو جان کو کبھی خود سے یہ پوچھنا نہیں پڑتا کہ وہ کون ہے؟ کیوں کہ اس بارے میں اُس سوال کا جواب اُس کا پڑوس دے چکا ہے اور یہ جواب طے شدہ ہے۔ بابو جان کو اُسے پوچھنے کی نوبت نہیں آتی اور اُس سے پہلے سکول میں جب ایسا کوئی خیال آتا، تو وہ شخص کچھ مذاق اڑاتا ہے، تاہم بابو جان کو کچھ فرق نہیں پڑتا کہ وہ شخص کیا کَہ رہا ہے کہ بابو جان اس صاحب کی باتوں کے مطلب کو کبھی نہیں سمجھا پایا تھا۔
کسی رات کو محفل کے دوران میں اُس کے دوست اچانک پوچھتے ہیں کہ شادی کب کرنی ہے؟ بابو جان سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ شادی کے لیے تو اضافی رقم کی ضرورت ہوتی ہے، جب کہ وہ روزانہ اتنا بہ مشکل کماتا ہے جس سے گھر میں روٹی اور سالن پکے اور ماں باپ کے لیے نیل اور چنو کاغذ (نیلے اور پیلے کاغذ ) کی گولیاں خرید سکے۔
بابو جان کو بتایا جاتا ہے کہ کراچی ایک شہر ہے اور وہاں لوگ بڑا پیسا کماتے ہیں۔ دوسرے دن بابو جان بس میں چڑھ کر کراچی جاتا ہے۔ وہاں ایک فیکٹری میں مزدوری پہ لگ جاتا ہے۔ وہ اَب گھر میں نہیں بلکہ فیکٹری کے ایک ہاسٹل میں رہتا ہے، جہاں سیکڑوں اور جوان بھی رہتے ہیں۔ یہ جوان اس کے گاؤں کے لوگوں کی طرح نہیں۔ وہ مختلف زبانیں بولتے ہیں اور مختلف مذاہب و مسالک سے تعلق رکھتے ہیں۔
بابو جان کے اِردگرد لڑکیاں بھی رہتی ہیں۔ وہ اَب ماں باپ اور گاؤں کے مولوی سے آزاد ہے۔ وہ اب بھی گاؤں میں منتظر اپنی منگیتر سے شادی کرنا چاہتا ہے، لیکن شہر میں اُس کے ارد گرد موجود لڑکیاں بھی اُسے پسند ہیں۔ وہ ایک دو کے ساتھ تعلق بھی بناتا ہے۔
بابو جان کو اب کافی آزادی حاصل ہے لیکن وہ بے یقینی کا شکار ہے کہ اس کے یہ نئے ساتھی اُس کا اُسی طرح ساتھ نہیں دے سکتے جس طرح گاؤں کے ساتھی دیتے تھے۔ وہ بیماری اور دوسری آفات میں بابو جان کے لیے وہ درد محسوس نہیں کریں گے، جو گاؤں کے دوست کرتے تھے۔ اُسے ایک غیرسلامتی کا احساس ہورہا ہوتا ہے۔ اُسے کہا جاتا ہے کہ یہ فیکٹری والے زیادتی کرتے ہیں اور ملک کے حالات بہتر نہیں، جس کی وجہ سے ہوسکتا ہے کہ فیکٹری بند ہوجائے۔
بابو جان کو ہاسٹل کے مشترک کمرے میں ٹی وی دیکھنے کو مل جاتا ہے، جس کے ذریعے وہ ملک میں سیاسی خبروں سے باخبر ہوجاتا ہے۔ اُسے روزانہ پارلیمنٹ میں اور شہروں میں سیاست دان ایک دوسرے سے لڑتے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ یہ لوگ ایک دوسرے کو گالیاں دیتے رہتے ہیں۔ وہ فیصلہ نہیں کرپاتا کہ کس سیاست دان اور پارٹی کا ساتھ دے۔ اُسے یہ سب خود غرض اور کرپٹ لگتے ہیں، جہاں یہ لوگ ایک دوسرے کو کرپٹ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہوتے ہیں۔
دوسری طرف وہ ہر روز دیکھتا ہے کہ سنیوں نے شیعوں کو مارا، دیو بندی اور بریلوی آپس میں لڑ پڑے، مذہبی گرہوں کے بیچ مذہب ہی کی خاطر لڑائیاں ہوتی رہتی ہیں اور ایک دوسرے کے گلے کاٹتے رہتے ہیں۔ ہاسٹل میں اُس کے ساتھی بھی ایک دوسرے کو مذہب سے خارج کرنے کی بحث کرتے رہتے ہیں۔
بابو جان خود کو اجنبی اور تنہا محسوس کرنے لگتا ہے۔ اُسے گاؤں کی یاد ستانے لگتی ہے، مگر واپس نہیں جاسکتا کہ اُس نے ابھی وہ رقم نہیں کمائی جس سے شادی رچا سکے اور پھر اس کے بعد گاؤں میں زندگی بسرسکے ۔ اُس کو اب اپنے فیصلے کی آزادی ہوتی ہے، مگر اس کو یہ فکر ستانے لگ جاتی ہے کہ وہ کون ہے اور اُس کی اِن انسانوں کے بیچ، اپنے گاؤں میں اور اپنے دوستوں میں کیا حیثیت ہے؟
یہی اہم نکتہ ہے جوبابو جان کے آگے کے سفر کا تعین کرتا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔