گذشتہ دنوں سوشل میڈیا پر احتجاج کی تصاویر دیکھیں جس میں فٹ بال کے کھلاڑی گراسی گراؤنڈ میں سیاسی جلسوں کے خلاف احتجاج ریکارڈ کرا رہے تھے۔ مگر عجیب بات یہ ہے کہ مذکورہ احتجاج کسی طور میڈیا میں جگہ نہ پاسکا۔ دوسری طرف اتنا ہوا کہ یہ ہمیں سوچنے اور کچھ لکھنے پر مجبور کر ہی گیا۔ میں نہ لکھتا اگر کل ہی ایک ویڈیو نہ دیکھتا جس میں سوات کے مایہ ناز فٹ بالر محمد ایاز اور دیگر محو گفتگو تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنی مدد آپ کے تحت گراؤنڈ کو سنبھال رہے ہیں۔ اس کو کھیلنے کے قابل بناتے ہیں، مگر افسوس کہ سیاسی جماعتوں کے قائدین اس گراؤنڈ میں جلسے منعقد کراکے اس کا بیڑا غرق کر دیتے ہیں۔ ان کے بقول اس سلسلے میں کئی بار ضلعی انتظامیہ سے بات بھی کی جاچکی ہے، تحریری درخواستیں بھی دی جاچکی ہیں، مگر کوئی عملی اقدامات نہیں ہوئے۔
حکومت کی طرف سے کھیلوں کے میدانوں میں سیاسی اجتماعات پر مکمل طور پر پابندی ہے، مگر یہاں تو ویسے بھی الٹی گنگا بہتی ہے۔ کون سا کام سیدھا ہے جو یہ قاعدہ کے مطابق ہو؟ یہ تحریر لکھتے وقت ایک پرانا واقعہ یاد آیا۔ گذشتہ عام انتخابات سے دو ماہ قبل پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کا ایک جلسہ گراسی گراؤنڈ میں منعقد ہوا تھا جس کے خلاف ’’متحدہ طلبہ محاذ‘‘ نے احتجاج شروع کیا اور ڈی سی صاحب کو یاد دہانی کرائی کہ صوبائی حکومت نے کھیلوں کے میدانوں میں سیاسی اجتماعات پر پابندی لگا ئی ہے، لہٰذا آپ اپنے اختیارات کو استعمال کرکے جلسے کی اجازت نہ دیں۔ دوسری طرف کمشنر صاحب پر بھی دوسری اطراف سے دباؤ بڑھنے لگا اور ’’متحدہ طلبہ محاذ‘‘ کے رہنماؤں جس میں شیراز ننگیال، غلام علی، گوہر علی پختونیار سمیت دیگر شامل تھے، کو مذاکرات کیلئے بلایا گیا۔ مذاکرات میں ان کو قائل کیا جانے لگا کہ جلسہ بہرصورت ہوگا۔ اسلئے آپ رضا مندی سے اپنا احتجاج ختم کریں۔ اب طلبہ پر زور کیوں ڈالا گیا؟ اس کا مطلب قارئین خود سمجھ جائیں۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ضلعی انتظامیہ کو اس سلسلے میں مکمل طور پر قصور وارنہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ ملک عظیم میں ایسی قوتیں موجود ہیں جو ضلعی انتظامیہ کو آزادانہ کام کرنے نہیں دیتیں۔ چاہے وہ سیاسی ہوں یا پھر…… گراسی گراؤنڈ میں گذشتہ کئی ماہ کے دوران میں کئی بڑے جلسے ہوئے۔ ریکارڈ تعداد میں لوگ آئے، انہوں نے زندہ باد و مردہ باد کے نعرے لگائے، اس طرح عوام کو سبز باغ دکھائے گئے، مگر کسی بھی لیڈر کو گراؤنڈ کا بیڑا غرق کرنے کے بعد یہ توفیق نصیب نہیں ہوئی کہ اس کی خوبصورتی اور بحالی کیلئے اپنی جماعت کی طرف سے کسی فنڈ کا اعلان کرتے۔ ایک ’’موصوف‘‘ تو جلسہ کرنے کے بعد وہ کنٹینرز بھی وہاں چھوڑ چکا ہے، جس پر کھڑے ہو کر اپنی سیاسی دکان چمکائی تھی۔
اب جبکہ سوشل میڈیا کا دور ہے، ہر سیاسی جماعت کے مختلف سوشل میڈیائی صفحات بنے ہوئے ہیں جس کے ذریعے لاکھوں لوگوں ایک کلک پر پیغام مل جاتا ہے، مگر پھر بھی پاکستان میں جلسے جلوسوں کا رواج ہے کہ مزید پروان چڑھ رہا ہے۔ میری تو اولاً تمام سیاسی قائدین سے اپیل ہے کہ خدارا، گراسی گراؤنڈ میں جلسہ کرنے سے پرہیز کریں۔ کیوں کہ یہ پورے مینگورہ شہر میں فٹ بال کھیلنے والے بچوں کا واحد کھیلنے کا میدان ہے۔ اگر آپ انہیں یہاں بھی کھیلنے نہیں دیں گے، تو یہ منفی سرگرمیوں یعنی نشہ، چوری چکاری وغیرہ کی طرف راغب ہوجائیں گے، جس کی تمام تر ذمہ داری آپ پر عائد ہوگی۔ اور جن جن جماعتوں نے اس گراؤنڈ میں حالیہ جلسے کئے ہیں، وہ اپنی طرف سے گراؤنڈ میں تعمیراتی کام، گراؤنڈ کی لیولنگ اور نئی گھاس اگانے کیلئے کم از کم دو دو لاکھ روپیہ عطیہ فرمائیں۔ اس طرح کھیل اور کھلاڑیوں سے محبت کا ثبوت دیں۔ یہ جان لیں کہ اب نوجوان نسل کسی بھی پارٹی کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ انہیں بددل کریں گے، تو خمیازہ بھی آپ خود بھگتیں گے۔
جاتے جاتے یہ بھی رقم کرتا چلوں کہ مجھ ناچیز سمیت تمام اہلِ قلم اور سوات کی سول سوسائٹی اپنے نوجوان کھلاڑیوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ امید ہے کہ حضرتِ ڈی سی صاحب مزید جلسوں کی اجازت دے کر اپنے دفتر کے سامنے لوگوں کا ہجوم اکھٹا کرتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہیں گے۔
………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری اور نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔