(زیرِ نظر تحریر 3 جولائی 2013ء کو سوات کی ایک مقامی ویب سائٹ پر شائع کی جاچکی ہے، لہٰذا تحریر پڑھتے وقت مذکورہ تاریخ کو مدِ نظر رکھا جائے، مدیر لفظونہ ڈاٹ کام)
11 مئی 2013ء کو منعقدہ عام انتخابات کے نتیجے میں ملک بھر میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے کے حوالے سے مختلف صوبوں اور علاقوں میں مختلف رجحان سامنے آیا۔ ان انتخابات کے نتائج چند ایک لوگوں کے اندازوں کے مطابق تھے۔ تاہم ذرائع ابلا غ پر اکثر تجزیہ نگاروں کے تجزیوں اورزیادہ تر پارٹیوں کے رہنماؤں کی توقعات کے برخلاف تھے۔ ان انتخابات میں تحریکِ انصاف خیبر پختون خوا میں اکثر یت تو حاصل نہ کرسکی جس کے بل پر وہ بلا شرکتِ غیرے حکومت بناتی، تاہم پارٹی حوالے سے سب سے زیادہ یعنی کُل 55 نشستیں جیت گئی۔
ان انتخابات کے نتائج کے تناظر میں خیبر پختون خوا اور پختونوں کے تئیں ایک اور حوالے سے دو متضاد رائے سامنے آئیں۔ ایک یہ کے ’’پختانہ پہ جر مست دی‘‘ لہٰذا اس وجہ سے اُنھوں نے ووٹ تحریکِ انصاف کے حق میں استعمال کیا، جب کہ دوسرا یہ کہ پختون سیاسی طور پر بالغ ہیں۔ لہٰذا انھوں نے حقِ رائے دہی میں بھی بلوغت سے کام لیا اور اس وجہ سے تحریک انصاف والے زیادہ سیٹیں جیت گئے۔
یہاں اس بات کا تذکرہ لازمی ہے کہ پچھلے کئی انتخابات کی طرح ان انتخابات میں بھی خفیہ ہاتھ اور ایجنسیوں کے کردار کا ذکر قریباً سب ہی پارٹیوں کی طرف سے سامنے آیا۔ عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کا دعوا تھا کہ وہ اپنی 5 سالہ حکومتی کارکردگی کی بنیا د پر ان انتخابات میں کامیابی حاصل کرے گی۔ تاہم انتخابات کے نتائج اپنی توقعات کے بر خلاف پاکر اے این پی کے لےڈر خفیہ اداروں کے کردار کا کھل کر اظہار کرتے ہیں اور یہ دعوا کرتے ہیں کہ ان کا مینڈیٹ چرایا گیا اور انھیں شکست دلوائی گئی، جب کہ اے این پی کے سابقہ دورِ حکومت میں اس پارٹی کے وزیرِ اعلا امیر حیدر خان ہوتی نے پشاور میں صحافیوں سے اپنی گفت گو میں فرمایا کہ ’’پختون کام پہلے کرتے ہیں اور سوچتے بعد میں ہیں۔‘‘
نہ تو اس کالم میں اس کی گنجایش ہے اور نہ یہاں اس تفصیل کی ضرورت کہ اے این پی کی اس بری شکست کے محرک اور اسباب و علل کیا تھے؟ تاہم اس کا ذکر لازمی ہے کہ ملکی و غیر ملکی ایجنسیوں اور خفیہ ہاتھوں کا پاکستانی انتخابات میں عمل دخل کوئی اجنبی، نئی اور خفیہ بات نہیں۔ اگر اے این پی اپنی مزعومہ پچھلی پانچ سالہ بہتر کارکردگی کے باوجود یہ انتخابات نہ جیت سکی، لہٰذا اس کی ساری ذمے داری کا بوجھ اور ملبہ اس وجہ سے دوسروں کے سر تھوپا جائے، تو سوال پیدا ہوتاہے کہ 2008ء کے انتخابات میں اے این پی کو اس کی کون سی کارکردگی کی بنیاد پر کامیابی حاصل ہوئی تھی؟ کیا اُس کامیابی میں ملکی اور غیر ملکی خفیہ ہاتھ کا ر فرمانہیں تھے؟
جہاں تک سابق وزیرِ اعلا امیر حیدر خان ہوتی کے اس ارشاد کا تعلق ہے کہ ’’پختون کام پہلے کرتے ہیں اور سوچتے بعد میں ہیں۔‘‘ تو اگر یہ درست ہے، تو پختونوں نے 2008ء میں وعدوں اور توقعات کی بنیاد پر اے این پی کو ووٹ دیے، لیکن اے این پی اپنی پانچ سالہ دورِ اقتدار میں وہ کچھ کر دکھانے کے بجائے کہ جس کاوہ وعدہ کرچکے تھے اور یا جن کی لوگوں کو توقع تھی، ملکی و بیرونی خفیہ قوتوں کے ہاتھوں یرغمال اور کٹ پتلی بن کر رہ گئی۔ شاید پختون ہوتے ہوئے امیر حیدرخان ہوتی کے مذکورہ بالا فرمودات کی روشنی میں وہ بذاتِ خود اور اس کی پارٹی سر جوڑ کر بیٹھیں اور سوچیں کہ وہ کس کس کے اور کیوں کٹ پتلی بنے، ان سے کیا کیا کروایا گیا اور کس قیمت پر کروایا گیا؟
اب موضوع زیرِ بحث کے بنیادی نکتے کی طرف آتے ہیں۔ ان انتخابات کے تناظر میں جو یہ بات کی جاتی ہے کہ’’پختانہ پہ جرمست دی‘‘ یعنی پختون واہ واہ، شاباش، بڑے بہادر ہو، جری ہو، اصلی مجاہد ہو، جاں باز ہو، وطن پر جان نچھاور کرنے والے ہو، کٹ مرتے ہو لیکن پسپا نہیں ہوتے ہو‘‘، وغیرہ جیسی باتوں پر’’دمادم مست قلندر‘‘ کا نعرہ لگاتے ہیں اور عقل اورسوجھ بوجھ سے کا م نہیں لیتے۔ لہٰذا انھوں نے اپنی سماج و شخصیت کے اس طرزِ عمل اور پہلو کی وجہ سے کارکردگی کو دیکھنے کے بجائے جذبات کی رو میں بہہ کر اے این پی کے خلاف یا دوسرے لفظوں میں تحریکِ انصاف کو ووٹ دیا۔
’’پہ جر مست‘‘ ہونا اگرچہ پختون سماج اور روایات کا حصہ ہے، لیکن یہ کچھ خاص مواقع اور مخصوص حالات میں کام کر جاتا ہے، جس کا تعلق بحیثیتِ مجموعی لڑائی جھگڑے، تشدد اور مسلح کارروایوں سے ہے۔ اگرچہ اس صورت میں پختون ’’پہ جر مست‘‘ ہوتے ہیں اور عقل اور سوجھ بوجھ سے کام لینے کے بجائے جذبات کی رو میں بہہ جاتے ہیں لیکن عام حالات اور زندگی کے دوسرے امور اور نشیب و فراز میں ایسا نہیں کرتے۔
جب سیاسی معاملات میں پختون بحیثیتِ مجموعی ’’پہ جرمست‘‘ نہیں، تو پھر وہ حقیقتاً پاکستان کے دوسرے لوگوں کے مقابلے میں سیاسی بالغ ہیں اور تاریخ بھی اس کا جواب مثبت میں دیتی ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ خیبر پختون خوا میں آباد پختون زیادہ تر بڑی بڑی سلطنتوں کے سخت اور جابرانہ کنٹرول سے بھی بحیثیتِ مجموعی آزاد یا نیم خود مختار رہے ہیں، حتیٰ کہ اس صوبے کے قریباً ایک تہائی علاقے یعنی پورے ملاکنڈ ڈویژن اور اضلاع کوہستان اور تور غر کے باشندے برطانوی ہند کا حصہ اور انگریزوں کے براہِ راست ماتحت نہیں رہے ہیں۔ ان کی سرشت اور خون میں آزادی اور خودداری رچ بسی ہوئی ہے۔ اس لیے یہ اگر پاکستان کے دوسرے علاقوں کے لوگوں کی طرح بیرونی طاقتوں کے ویسے ہی مطیع اور فرماں بردار نہیں رہے ہیں، تو اپنے سربراہوں، سرداروں، خان خوانین اور ملکوں وغیرہ کی بھی ایسی ہی اطاعت ان میں مفقود رہی ہے جیسا کہ پنجاب میں چودھریوں کی، سندھ میں وڈیروں کی اور بلوچستان کے بلو چ علاقوں میں بلوچ سرداروں کی کی جاتی رہی ہے۔
پختون سماج کے سربراہوں کے بارے میں یہ بات مشاہدہ اور تحریرکی گئی ہے کہ وہ پختون عوام پر اثر و رسوخ رکھتے ہیں، اختیار و حکم نہیں۔ پختون عوام اپنے بڑوں، خان خوانین اور ملکوں وغیرہ کی توقیر، عزت اور اَدب و احترام تو کرتے ہیں، بلا چوں و چرا اور ہر صورت اطاعت و فرماں برداری نہیں۔ دولت اور رُتبے میں فرق کے باوجود ان میں ایک قسم کا منفرد رشتہ اور تعلق رہتا چلا آرہا ہے۔ ان کی سماج کا بنیادی اصول ’’آزادانہ معاہدہ اور انتخاب‘‘ ہے جس کے تحت وہ کسی کی بھی ہر حال میں مستقل اِطاعت اور حمایت کرنے کے بجائے جب دل چاہے بلکہ جب بھی ناراض ہوئے ہیں، تو اپنا ڈلہ یا پارٹی تبدیل کرکے کسی نئے فرد کو اپنا سربراہ، خان، مَلک اور سردار وغیرہ بنالینے کے عادی اور خوگر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خیبر پختون خوا کو برطانوی سامراج کی طرف سے 1932ء میں مکمل صوبے کی حیثیت ملنے اور یہاں انتخابات کا عمل شروع ہونے کے وقت سے آج تک ایک بار کے علاوہ کسی بھی الیکشن میں یہاں پر کسی بھی واحد جماعت کو مکمل بالادستی یا بھرپور اکثریت حاصل نہیں ہوئی ہے اور یہاں پر اتحادی حکومتیں ہی بنتی آرہی ہیں۔
1937ء کے عام باقاعدہ انتخابات میں خدائی خدمت گار تحریک نے کانگریس کے اتحاد سے 50 میں سے صرف 19 نشستیں جیتیں اور بعد میں دوسرے گروپوں سے اتحاد کرکے صاحب زادہ عبدالقیوم کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب کرانے اور اپنی حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی۔
1946ء کے انتخابات میں اگرچہ خدائی خدمت گار تحریک اور کانگریس نے 50 میں سے 30 اکثریتی نشستیں جیت لیں، لیکن اس میں بھی ان دونوں پارٹیوں کا اتحاد ہی کار فرما تھا۔
پاکستان بننے کے بعد 1951ء کے عام انتخابات میں مسلم لیگ نے قیوم خان کی زیرِ قیادت بڑی اکثریت حاصل کی، لیکن ان انتخابات سے نہ صرف خدائی خدمت گاروں کو باہر رکھا گیا تھا بلکہ قیوم خان نے ہر قسم کے ناجائز حربے بھی استعمال کیے تھے۔ 1955ء سے 1970ء تک یہ صوبہ مغربی پاکستان کے ون یونٹ کا حصہ رہا اور جب 1970ء میں اس کو دوبارہ علاحدہ صوبے کی حیثیت سے نوازا گیا، تو 1970ء ہی کے عام انتخابات میں، جس کے بارے میں باور کیا جاتا ہے کہ یہ پاکستان کی تاریخ میں سب سے آز اد اور شفاف انتخابات تھے ، اس صوبے میں کسی بھی جماعت کو اکثریت حاصل نہیں ہوئی۔ لہٰذا نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت العلمائے اسلام کی مخلوط حکومت وجود میں آئی، اور جب یہ حکومت 1973ء میں بلوچستان کے مسئلہ پر مرکزی حکومت کے اقدام کے خلاف احتجاجاً مستعفی ہوئی، تو پھر بھی کسی ایک پارٹی کے بجائے متحدہ محاذ کی مخلوط حکومت بنی۔
1985ء میں ضیاء الحق کے دورِحکومت میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کرائے گئے جس کے نتیجے میں اس صوبے میں مسلم لیگ کی حکومت قائم ہوئی لیکن ایک تو یہ انتخابات غیر جماعتی بنیادں پر کرائے گئے تھے، اور بعد میں اسمبلی ہی میں مسلم لیگ کو زندہ کیا گیا اور دوسرا یہ کہ ’’ایم آر ڈی‘‘ یعنی تحریکِ بحالیِ جمہوریت میں شامل جماعتوں، جس میں زیادہ تر سرکردہ جماعتیں شامل تھیں، نے ان انتخابات کا بائیکاٹ بھی کیا تھا۔
1988ء کے انتخابات میں بھی کوئی ایک جماعت اکثریت حاصل نہ کرسکی جس کی وجہ سے مخلوط حکومت وجود میں آئی۔ 1990 ء کے عام انتخابات میں بھی کسی ایک پارٹی کو واضح برتری حاصل نہیں ہوئی، لہٰذا ایک مخلوط حکومت بنانا پڑی۔ 1993ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں کسی ایک پارٹی کو واضح اکثریت حاصل کرنے میں ناکامی کی وجہ سے پھر مخلوط حکومت قائم ہوئی اور 1997ء کے الیکشن میں بھی کوئی ایک جماعت اکثریت حاصل نہ کرسکی، لہٰذا ایک بار پھر مخلوط حکومت بنا دی گئی ۔
2002 ء کے انتخابات میں اگرچہ متحدہ مجلس عمل کواکثریت حاصل ہوئی، لیکن یہ سادہ اکثریت تھی۔ اس لیے کہ ایم ایم اے 124 میں صرف 65 نشستیں جیت گئی اور یہ بھی کسی ایک جماعت کی نہیں بلکہ کئی ایک مذہبی جماعتوں کی اتحاد کی کامیابی تھی۔ اس طرح 2008 ء کے انتخابات میں اے این پی 124 میں سے کل 48 نشستیں جیت کر سب سے زیادہ نشستیں جیتنے والی جماعت کے طور پر اُبھر کر سامنے آئی، لیکن پھر بھی حکومت بنانے کے لیے اسے اتحاد کی ضرورت تھی۔ ایک اہم بات یہ بھی کہ دوسرے عوامل کے علاوہ اے این پی کی اس کامیابی میں جماعتِ اسلامی اور تحریکِ انصاف کے الیکشن بائیکاٹ کا بھی ہاتھ تھا۔ اس طرح 2013ء کے انتخابات میں تحریکِ انصاف اگرچہ سب سے زیادہ یعنی 124 میں 55 نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئی لیکن مکمل اکثریت حاصل نہیں کرسکی۔ لہٰذا ایک بار پھر یہاں پر مخلوط حکومت قائم ہوئی۔
پس تاریخ بتاتی ہے کہ خیبر پختون خوا میں 1951ء کے انتخابات کے علاوہ کسی بھی انتخابات میں کسی بھی ایک پارٹی کو اکثریت نہیں ملی۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پختون یا یہاں کے عوام سیاسی طور پر دوسرے صوبوں کے عوام کے مقابلے میں بالغ ہیں اور بحیثیتِ مجموعی بلاکسی کے خوف اور پروا کیے اپنی رائے کا استعمال کرتے ہیں۔
اس سیاسی بلوغت میں پختونوں کی اپنی خصوصیات اورسماجی اقدار کے ساتھ ساتھ خدائی خدمت گار تحریک کا بھی وافر حصہ ہے، جس نے سیاسی شعور کو عام لوگوں یا کمی کمین اور عورتوں تک بلاتفریق بہت پہلے یعنی 1930ء کی دہائی میں پہنچا یا اور انھیں سیاست کے داو پیچ سے ایسا آشنا کیا جس کا دوسرے صوبوں میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتاتھا۔
پختونوں کی سیاسی بلوغت کا اگر کسی کو اندازہ لگانا ہو یا امتحان لینا ہو، تو وہ سیاست کاروں، سیاسی کارکنوں اور تعلیم یافتہ افراد کو چھوڑیں، دیہاتوں میں کھیت میں کام کرنے والے کسانوں، کارخانوں میں کام کرنے والوں یا روڈ پر کھدائی کرنے والے مزدوروں، ٹرک اور ٹیکسی ڈرائیوروں، دکان داروں اور ریڑھی بانوں وغیرہ سے کسی بھی سیاسی موضوع اور قومی و بین الاقوامی سیاست پر بات کرکے آزمالیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔