سپریم کورٹ آف پاکستان کے پنج رکنی بینچ نے دو تین کی اکثریت سے پنجاب اور کے پی میں 90 روز کے اندر صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن کروانے کا حکم دے دیا ۔ فیصلہ آنے سے پہلے ہی سنیئر وکلا اسی فیصلے کی توقع کر رہے تھے۔ ایک روز پہلے جب فیصلہ محفوظ ہوا تھا، تو سوشل میڈیا پر یہ خبریں گردش میں تھیں کہ اس کیس کا فیصلہ متفقہ نہیں بلکہ تین دو کی اکثریت سے ہوگا۔ یہ بھی عجیب موڑ آ گیا ہے کہ اب بینچ کے معزز اراکین کو دیکھتے ہوئے سپریم کورٹ کے فیصلوں کی درست پیش گوئیاں ہونے لگی ہیں۔ چیف جسٹس صاحب نے اصل میں تو 9 رکنی بینچ تشکیل دیا تھا، مگر پی ڈی ایم کی جماعتوں نے دو معزز جج صاحبان جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس اعجاز الاحسن کی شمولیت پر اعتراض اٹھا دیا اور ساتھ ہی فل کورٹ بینچ کی تشکیل کی استدعا بھی کر دی۔ 9 رکنی بینچ کے 2 ارکان جناب جسٹس یحییٰ آفریدی اور جناب جسٹس اطہر من اللہ نے چیف جسٹس صاحب کی طرف سے لیے گئے سوموٹو پر ہی اعتراض اٹھا دیا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے اسمبلیوں کی تحلیل پر بھی سوال اٹھایا۔ جناب چیف جسٹس نے جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے ساتھ ساتھ جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہرمن اللہ کو بھی ان کے کہے بغیر 9 رکنی بینچ سے فارغ کر دیا اور اس طرح سے بینچ 5 رکنی ہوگیا۔ اُدھر پی ڈی ایم نے اس پنج رکنی بینچ کو تسلیم کرتے ہوئے فل کورٹ بینچ کی تشکیل کی درخواست واپس لے لی اور پنج رکنی بینچ کے سامنے اپنے دلائل دیے۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
یہاں اس امر کا ذکر کرنا بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ پی ڈی ایم کی لیڈرشپ ٹی وی ٹاک شوز اور پریس کانفرنسوں میں یہ جواز پیش کرتی رہی ہے کہ ملکی خزانہ انتخابی اخراجات کا متحمل نہیں۔ وزارتِ خزانہ نے فنڈز دینے سے معذرت کرلی ہے۔ وزارتِ داخلہ نے ملکی حالات کے پیشِ نظر انتخابات کے لیے سیکورٹی فراہم کرنے سے معذوری ظاہر کی ہے، جب کہ جیوڈیشری نے آر اُوز (ریٹرننگ آفیسرز) دینے سے معذرت کی ہے، لہٰذا ان حالات میں الیکشن کا انعقاد ممکن نہیں۔ مگر حیرت انگیز طور پر ان میں سے کوئی ایک دلیل بھی سپریم کورٹ کے سامنے پیش نہیں کی گئی۔ پی ڈی ایم میں شامل مختلف سیاسی جماعتوں کے وکلا بھی ایک پیج پر نظر نہیں آئے۔
چیف جسٹس جناب عمر عطا بندیال، جسٹس منیب اختر اور جسٹس محمد علی مظہر نے 90 روز کے اندر الیکشن کروانے کے حق میں جب کہ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل نے ان سے اتفاق نہ کرتے ہوئے اختلافی نوٹ لکھا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد حکومتی وکیل اور وزیرِ قانون بیرسٹر اعظم نذیر تارڑ نے میڈیا سے گفت گو کرتے ہوئے ایک نیا موقف پیش کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بطورِ وکیل ان کا ذاتی خیال ہے کہ یہ فیصلہ چار تین کی اکثریت سے ان کے حق میں آیا ہے۔ ان کا اشارہ جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی کے دیے گئے اختلافی نوٹس کی طرف تھا، مگر ان کے اس نقطے کو سنیئر وکلا اہمیت نہیں دے رہے۔ پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ فیصلہ پنج رکنی بینچ نے دیا ہے۔ میرے مخالف وکلا نے پنج رکنی بینچ کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے سامنے دلائل دیے اور اسی ننج رکنی بینچ نے فیصلہ سنایا ہے، جو معزز جج صاحبان بینچ میں شامل ہی نہیں تھے۔ ان کے اختلافی نوٹ کو فیصلہ کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟
شیخ رشید نے اس فیصلے کو تاریخی قرار دیتے ہوئے اسے عمران خان کی جیت قرار دیا اور قوم کو الیکشن کی تیاری کے لیے کَہ دیا۔
سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ غیر متوقع نہیں۔ اس کی توقع کی جا رہی تھی۔ اگر آئین پر عمل کیا جاتا، تو سپریم کورٹ جانے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ آئین میں واضح طور پرلکھا ہے کہ اگر اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں گی، تو 60 روز کے اندر اور اگر قبل از وقت ختم ہوں گی، تو 90 روز کے اندر الیکشن کرانا ضروری ہے۔ اس میں اگر مگر اور چوں کہ چناں چہ کی گنجایش ہی نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ پی ڈی ایم الیکشن کروانا ہی نہیں چاہتی۔ کیوں کہ موجودہ وقت میں الیکشن کروانا ان کے مفاد میں نہیں۔ وہ تو چاہتی ہے کہ الیکشن کسی نہ کسی طور مزید 6 ماہ آگے لے جائیں۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں، مگر سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ گذشتہ دس ماہ کے دوران میں پی ڈی ایم کی حکومت نے خود تو بہت سے ریلیف لے لیے ہیں، مگر عوام کو کوئی بھی ریلیف دینے میں بری طرح ناکام رہی۔ عمران خان حکومت کی غیر مقبولیت کی وجہ بہت زیادہ مہنگائی بنی تھی۔ حالات یہاں تک پہنچ گئے تھے کہ پی ٹی آئی کے ورکرز اپنی حکومت کا دفاع کرنے کی بجائے اس کی کارکردگی پر سوال اٹھا رہے تھے۔ عمران خان غیر مقبول ہو چکے تھے۔ ایسے میں پی ڈی ایم کا انھیں اقتدار سے الگ کر کے خود حکومت سنبھالنا عمران خان کے لیے نعمت ثابت ہوا اور پی ڈی ایم کی لیڈرشپ نے اپنی خراب کارکردگی سے پی ٹی آئی کے مردہ گھوڑے میں جان ڈال دی۔ اگر عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے فوراً بعد الیکشن کروا دیے جاتے، تو پی ڈی ایم کے حق میں بہتر ہوتا، مگر ہر ایک نے سیاسی مفاد کو عزیز رکھا۔ اقدار پر اقتدار کو ترجیح دی۔ عوام مہنگائی سے مر رہے ہیں اور حکومت نے پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی 85 رکنی کابینہ کا ورلڈ ریکارڈ قائم کر دیا ہے۔ حکومت کے پاس عوام کو ریلیف دینے کا کوئی واضح پلان بھی نظر نہیں آ رہا۔ ایسے میں الیکشن کا نتیجہ اسے صاف نظر آ رہا ہے۔ سپریم کورٹ کے 90 روز کے اندر انتخابات کروانے کے فیصلے پر عمل ہونا چاہیے، مگر عمل ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ حکومت اب اس فیصلے کے خلاف اپیل میں جائے گی اور مختلف حیلوں بہانوں سے الیکشن کی تاریخ آگے بڑھوانے کی کوشش کرے گی۔
بحران حل ہونے کی بجائے مزید بڑھتا نظر آ رہا ہے۔ ملک تیزی سے ایسے حالات کی طرف بڑھتا نظر آ رہا ہے جس قسم کے حالات سے تین بار پہلے بھی گزر چکا ہے۔ مناسب یہی ہے کہ سیاست دان اقتدار کی خاطر تمام حدود پھلانگنے کی بجائے ہوش کے ناخن لیں۔ عوام ان سے پہلے ہی بہت مایوس ہیں۔ اگر کوئی ایڈونچر ہوگیا، تو عوام ان سیاست دانوں کے لیے باہر نہیں نکلیں گے، جنھوں نے ان کے جسم و جاں کے رشتے کو قائم رکھنا دشوار بنا دیا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔