اگست 2017ء میں اخبارات نے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے مشہور سیاسی لیڈر محمود خان اچکزیٔ کا مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے وہ تجویز ظاہر کر دی جو مجھ سمیت کئی شہریوں کو درست معلوم ہوتی ہے۔ بے شمار باتیں بہت کڑوی ہوتی ہیں، بہت سارے لوگوں کو پسند نہیں ہوتیں۔ اُن میں ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کی رہنمائی کے دو بڑے ذرائع یعنی قرآن و سنت اور چودہ صدیوں کے اعلیٰ لٹریچر کی موجودگی کے باوجود دنیا کی یہ عظیم آبادی جدید تعلیم اور جدید نظریات سے محروم ہے۔ یہ حقیقت اپنی جگہ کہ قرآن کے بتایا ہوا عادلانہ نظامِ حکومت مسلمانوں کے پاس موجود ہے لیکن وہ اس کو پہلی صدی ہجری کے درمیان سے لے کر آج تک دنیا کے کسی بھی اپنے ملک میں قائم نہ کرسکے، نہ یہ سچے سوشلزم، نہ سچی کیپٹل ازم اور نہ عادلانہ شخصی حکومت کو اپنے کسی ملک میں نافذ کرسکے۔ لیکن نظامِ حکومت اس کالم کا موضوع نہیں۔ البتہ ہم آسانی کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ پُرسکون اور عوام دوست حکومتوں میں عوام اور خواص دونوں کے دل و دماغ کھل جاتے ہیں اور وہ مشکل معاملات کو خوش اسلوبی کے ساتھ نمٹا دیتے ہیں۔ دوسری کئی وجوہات کے ساتھ مسلمانوں کے معاشروں میں ذہنی بے سکونی نے ان کو اپنے مسائل حل کرنے کے قابل نہیں چھوڑا ہے۔ تیسری دنیا کے ممالک میں اکثریت کی بھی یہی حالت ہے کہ وہ مسائل کو حل نہیں کرسکتے۔ بھارت جو اپنے آپ کو بڑا بھائی کہلانا پسند کرے گا، کی بھی یہی حالت ہے ۔وہ بھی مسائل کو سلجھا نہیں سکتا بلکہ سازشوں پر یقین رکھتا ہے۔
کشمیر کا مسئلہ آزادی کے وقت ہی سے پیدا ہوگیا ہے۔ پاکستان کا مطالبہ ہے کہ کشمیر کے عوام سے ریفرنڈم کے ذریعے (رائے معلوم کرنے) معلوم کیا جائے کہ وہ پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا بھارت میں؟ اقوامِ متحدہ نے بھی تقریباً 70 سال پہلے یہی مؤقف قبول کرلیا ہے لیکن بھارت اس پر راضی نہیں۔ وہ پورے گلگت بلتستان، ہنزہ وغیرہ آزاد کشمیر اور جموں کشمیر (بھارت کا زیرِ تسلط کشمیر) کو اپنا اٹوٹ انگ (ناقابل جدائی حصہ) قرار دیتا ہے۔ بھارت اور پاکستان دونوں میں کشیدگی کی بڑی وجہ یہی کشمیر کا مسئلہ ہے۔ چوں کہ کشمیر میں مسلمان زیادہ ہیں، اس لیے شریعتِ اسلامی کی رُو سے اُن کا دکھ درد پاکستانی مسلمانوں کا دکھ درد ہے۔
آزادی اور تقسیمِ ہند کے وقت ہندوستان میں 535 چھوٹی بڑی اندرونی طور پر خود مختار ریاستیں تھیں۔ تقسیم کے فارمولے میں ان کے بارے میں یہ شق تھی کہ ان کے نواب یا راجے زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے بھارت یا پاکستان میں شامل ہونے یا آزاد رہنے کا فیصلہ کریں گے۔ کشمیر، حیدر آباد، دکن اور بہاولپور بڑی ریاستیں تھیں۔ تقسیمِ ہند سے قبل کشمیر کا کل رقبہ69 ہزار پانچ سو سینتالیس مربع میل تھا۔ اس میں سے 39 ہزار 102 مربع میل آج کل بھارت کے قبضے میں ہے۔ کشمیر کی کل آبادی اندازاً سوا کروڑ ہے جس میں پچیس لاکھ آزاد کشمیر کی ہے۔ آزاد کشمیر کی اپنی الگ حکومت، اپنا الگ صدر اور الگ وزیراعظم ہے۔ البتہ وہ بیرونی تعلقات اور کرنسی کے لیے پاکستان پر انحصار کرتا ہے۔
دوسری ہندوستانی ریاستوں کشمیر کی صورتحال بالکل مختلف ہے۔ دوسری ریاستیں عموماً اُن کے حکمرانوں کی موروثی تھیں جبکہ مسلمانوں کی کمزوری اور نالائقی کی وجہ سے انگریزوں نے یہ علاقہ مع اس کے زندہ انسانوں، جانوروں اور وحشی جانوروں کے سن 1846ء میں 75 لاکھ روپے کے عوض مقامی ڈوگرہ راجہ گلاب سنگھ کو فروخت کیا تھا۔ دوسرے الفاظ میں کشمیر اس کے راجہ کے زر خرید تھا اور وراثت میں آخری راجہ تک پہنچ گیا تھا۔ جو کتابیں مجھے پڑھنے کو ملیں اُن کے مطابق کشمیر کے آخری راجہ ہری سنگھ نے تقسیم ہند پر بھارت کے ساتھ الحاق کیا تھا (اگر یہ بات درست ہو، تو راجہ زمینی حقائق کو نظر انداز کر گیا کہ اس ریاست میں 80 فی صد سے زیادہ آبادی مسلمانوں کی تھی اور یہ کہ بھارت کی نسبت اس کی زیادہ سرحدات پاکستان سے ملی تھیں) لیکن جولائی 2017ء میں ایک کافی بوڑھے راجکمار (جو ہری سنگھ کا بیٹا یا پوتا) نے کسی نجی ٹی وی چینل پر بتایا کہ راجہ ہری سنگھ نے بھارت کے ساتھ الحاق نہیں کیا تھا بلکہ پاکستان کی طرف سے مجاہدین کے حملے سے بچنے کے لیے بھارت سے فوجی مدد مانگی تھی۔ اگر راج کمار کی یہ بات درست ہو، تو پھر مشہورِ عام خیال غلط ہوجاتا ہے کہ بھارت میں اس کا ادغام ہوا تھا۔ بہرحال کشمیر بھارت اور پاکستان میں بڑی خرابیوں کی جڑ ہے۔
محمود خان اچکزیٔ صاحب نے کسی بیرونی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے اس نئے خیال کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان اور بھارت دونوں اپنے اپنے مقبوضہ حصوں سے دست بردار ہوجائیں اور سابقہ (ڈوگرہ) ریاست کو بحال کریں جو غالباً مکمل طور پر آزاد اور خود مختار ہو۔ یہ خیال برا نہیں۔ اگر اربابانِ اختیار اس نئے خیال پر سوچیں، تو اچھا ہوگا۔ یہ مسئلے کا ایک حل ہے۔ البتہ اس میں کئی ایک مشکل باتیں موجود ہیں۔ سب سے اہم ترین یہ کہ یہ ہری سنگھ کے اجداد نے قیمتاً خریدی زمین ہے جو اُس وقت کے تسلیم شدہ حکمرانوں نے اُسے فروخت کی تھی۔ انگریزوں کے ریکارڈ میں گلاب سنگھ کو کشمیر کی فروختگی کی تفصیل ضرور موجود ہوگی۔ اس طرح انڈیا میں ہری سنگھ کی طرف سے الحاق یا مدد کی درخواست بھی ریکارڈ پر ہوگی۔ علاوہ ازیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ گلاب سنگھ کا اپنا علاقہ کون سا اور کتنا تھا اور خریدا ہوا کون سا اور کتنا ہے؟
حیدر آباد دکن کا نواب مسلمان لیکن عوام کی اکثریت غیر مسلموں کی تھی۔ پھر وہ بھارت کے وسط میں تھی اور اُس پر 1948ء میں بھارت نے فوج کے ذریعے قبضہ کیا تھا۔ اب کشمیر کے معاملے میں بھارت کا مؤقف غلط پڑتا ہے۔ کیوں کہ یہاں مسلمان زیادہ ہیں اور یہ بھارت کے اندر بھی نہیں۔ اگر حیدر آباد دکن میں عوام کی اکثریت کا جواز لیا جائے، تو کشمیر میں بھی مسلمان ہی زیادہ ہیں۔ لہٰذا یہ بھارت میں جاہی نہیں سکتا۔ اب محترم محمود خان اچکزیٔ صاحب کے خیال اور بوڑھے کشمیری راج کمار کے دعوے (کہ راجہ ہری سنگھ نے الحاق کیا ہی نہیں تھا، لیکن اپنی حفاظت کے لیے بھارت سے درخواست کی تھی) نے کچھ نئے نِکات کی نشان دہی کی ہے۔ بہترین بات ہوگی کہ اس خیال پر سب سے پہلے پاکستان اور بھارت کے جامعات تحقیق کریں۔ اگر مشترکہ تحقیق ہو، تو اور بھی بہتر ہوگا اور اپنے تحقیقی مقالوں کو بھارت اور پاکستان کی حکومتوں کو غور کے لیے پیش کریں، لیکن زر خرید ملکیت کا مسئلہ ضرور ہوگا۔ اس کی روشنی میں تو بھارت کا قبضہ اور بھی ناجائز ہے۔
………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔