دنیا کی تمام زبانوں میں جو ضرب الامثال، مہاورات وغیرہ رائج ہیں، ان کے پس منظر میں کوئی نہ کوئی واقعہ یا حادثہ ہوا ہوتا ہے۔ ہمارے کالم کا عنوان بھی ایک مخصوص کہاوت ہے جو قارئین کی دلچسپی اور معلومات میں اضافے کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔
کہتے ہیں کہ کسی شہر کے نزدیکی گاؤں میں ایک دھوبی رہتا تھا جو قریبی نالے کے کنارے کپڑے دھوتا تھا۔ اس کے پاس اچھی نسل کا ایک کتا کہیں سے ہاتھ آگیا۔ دھوبی صبح سویرے گھاٹ کا رُخ کرتا اور کام ختم کرکے گھر لوٹتا۔ یہ اس کا برسوں سے معمول چلا آرہا تھا۔ وہ کتا بڑا وفادار تھا اور دن رات گھر کی رکھوالی کرتا تھا۔ جب صبح سویرے دھوبی، گھاٹ کو چلا جاتا، تو کتا اپنے مالک کی دہلیز پر بیٹھتا اور اس کی واپسی کی راہ تکتا۔ دھوبی کی بیوی روز گھر کے کاموں سے فارغ ہوکر کھانا کھالیتی اور پھر اپنے خاوند کے لیے دوپہر کا کھانا لے جاتی۔ تب کتا بھی اس کے ساتھ ہوتا۔ بیوی کھانا دے کر گھر واپس لوٹتی، مگر کتا وہیں گھاٹ پر رُک جاتا اور شام کو اپنے مالک کے ساتھ گھر لوٹتا۔ دھوبی کی بیوی جب کھانا باندھتی، تو ایک روٹی کتے کے لیے بھی باندھ کر لے جاتی، تاکہ گھاٹ پر اس کا شوہر اسے کھلائے۔ دھوبی کی بیوی کھانا چھوڑ کر گھر لوٹ جاتی۔ اُدھر یہ بے زبان جانور اس انتظار میں رہتا کہ کب مالک روٹی نکال کر اس کے سامنے ڈالے گا۔ اُدھر دھوبی کام سے فارغ ہوکر کھانا کھانے لگتا اور یہ سوچ کر کتے کو کھانا نہ دیتا کہ گھر میں کھالیا ہوگا۔ بدقسمتی سے دھوبی کتے کی بھوک اور بے چینی سمجھ نہ پایا، یہی وجہ تھی کہ کتا دن بہ دن کم زور ہوتا چلا گیا اور مرگیا۔
ایک روز چند گاؤں والے جمع تھے کہ کتے کا ذکر چل پڑا۔ مختلف قسم کی باتیں ہورہی تھیں۔ ایک سیانے نے سوال کیا کہ کتے کو کتنی روٹی ڈالی جاتی تھی؟ اس پر دھوبی نے بیوی کو بلا کر پوچھا کہ وہ کتے کے آگے کتنی روٹی ڈالتی تھی؟ اس بات پر یہ راز کھلا کہ دھوبی انجانے میں یہ سمجھتا تھا کہ گھر میں بیوی کتے کو روٹی دیتی رہی ہوگی جب کہ اس کی بیوی سمجھتی رہی کہ گھاٹ پر کتے کو اس کے حصے کی روٹی مل رہی ہے، لیکن ماجرا اس کے برعکس تھا۔ یوں سب لوگ اس نتیجے پر پہنچے کہ کتے کی موت کا اصل سبب ’’بھوک اور فاقہ‘‘ ہے، تب کسی سیانے نے کہا کہ ’’یک درگیر و محکم درگیر‘‘ یعنی ’’ایک در پکڑو اور مضبوط پکڑو‘‘ اور یوں یہ کہاوت مشہور ہوئی کہ ’’دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا‘‘۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔