پرسوں ’’وٹس اَپ‘‘ پر ایک ویڈیو ملی جو غالباً سنہ 70ء کے افغانستان کی ہے۔
ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ لوگ بازاروں میں کاروبارمیں مصروف ہیں۔ پڑھی لکھی خواتین زرق برق ملبوسات کے ساتھ گھومتی پھرتی نظر آتی ہیں۔ تعلیمی اداروں میں بھری پری کلاسیں جہاں لوگ علم حاصل کرتے ہیں الگ سے دکھائی دیتے ہیں۔ فضائی جائزے میں کابل میں پُرشکوہ عمارات اور بہت کچھ نظر آتا ہے۔ کیا خوب صورت اور پیارا ملک تھا افغانستان اور اسے کیا بنا دیا گیا۔
اکرام اللہ عارف کی دیگر تحاریر کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/ikram-ullah-arif/
کئی لوگوں سے مَیں نے خود سنا ہے کہ اُس زمانے میں بھی پاکستان اور ہندوستان کے تعلقات چوں کہ خراب تھے، اس لیے پاکستان میں ہندوستانی فلموں کی نمایش پر پابندی ہوا کرتی تھی۔ آج کی طرح انٹرنیٹ کی حیرت میں ڈالنے دینے والی دنیا بھی ابھی آباد نہیں ہوئی تھی، اس لیے پاکستان سے لوگ بہت آسانی کے ساتھ جلال آباد اور کابل جاتے تھے۔ وہاں ہندوستانی فلم دیکھتے تھے اور واپس گھر آجاتے تھے۔ کابل، جلال آباد اور قندھار کے لیے پشاور اور کوئٹہ سے مسلسل گاڑیاں چلتی تھیں۔ وہاں کے لوگ یہاں اور یہاں کے وہاں باآسانی آتے جاتے تھے۔
پھر وقت نے پلٹا کھایا اور اس علاقے پر ’’امن دشمنوں‘‘ کی نظر پڑی۔ بیوپاریوں کو نیا میدانِ جنگ مل گیا۔ یوں ایک نئی جنگ شروع ہوگئی جو دو قطبی دنیا کو یک قطبی میں بدلنے کی جنگ تھی…… جو طاقت اور غلبہ حاصل کرنے کے لیے شروع ہونے والی جنگ تھی…… جس میں افغانوں کا خون بہایا گیا اور اتنی بے دردی سے بہایا گیا کہ مذہب فروشوں نے بھی ڈالروں کے عوض ’’فساد‘‘ کو ’’جہاد‘‘ کہا…… اور خوب حصہ ڈالا۔ نتیجتاً اس غلبے کی جنگ میں ایک فریق کو شکست ہوئی، اور دوسرے فریق نے ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ جاری کیا۔ یوں دنیا پر حکم رانی شروع کی جو تاحال کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔ دو بڑے فریقوں کی اس مفاد پرستانہ جنگ میں مگر ایندھن افغان بنا۔ افغانستان کی سرزمین افیون، بارود اور موت کے کاروبار کے لیے مشہور ہوگئی۔ وہ پُرامن، رو بہ ترقی اور تکثریت نظام والا افغانستان بدامنی، زوال اور یک مسلکی محدود نظریات کا شکار ہوگیا۔ اس کے اثرات پاکستان پر ضرور پڑنے تھے اور ایسے پڑے کہ اب شائد کچھ حوالوں میں افغانستان پاکستان سے بہتر ہوگا؟
70ء کی دہائی تک پاکستان بھی ایک پُرامن اور تکثریت کے اصول پر مبنی ملک تھا۔ دبئی اور خلیجی ممالک کے امرا کراچی میں تفریح کے لیے آتے تھے۔ فتوؤں کا کاروبار نہیں تھا، بلکہ امن و محبت کے گیت گائے جاتے تھے۔ مسالک تب بھی تھے۔ فرقوں کا وجود بھی موجود تھا…… مگر فتوا بازی کے یہ مناظر نہ تھے۔ ریاست بحیثیتِ مجموعی تنگ نظری کا شکار نہیں تھی۔
پاکستان کا پہلا وزیرِ خارجہ اور وزیرِ قانون اقلیت اور غیر مسلموں سے باالترتیب تعلق رکھتے تھے…… لیکن پاکستان میں اسلام کو کوئی خطرہ نہیں تھا۔ البتہ جب روس افغان جنگ ہوئی اور پاکستانی ریاست اور مذہب فروشوں نے اس میں کسی اور کے کہنے پر جان لڑا دی، تو یہاں بھی حالات خراب ہوئے۔ ایک فرقے کو ایران، دوسرے کو سعودی عرب کی کھلی حمایت حاصل رہی۔ نتیجتاً جو فرقہ واریت ہوتی رہی، وہ پھر دہشت گردی میں بدل گئی؟
یہ دہشت گردی ہی تو ہے کہ آپ کسی اقلیت کی عبادت گاہ کو مسمار کریں، کسی کو فرقے اور مسلک کی بنیاد پر قتل کریں؟ یوں وہ پاکستان جو کبھی ایشیا میں تیزی سے ترقی کرتا ملک تھا، اس حال پر پہنچایا گیا کہ اب ہمارے وزیرِ خزانہ اس پر بھی قوم کو مبارک باد دے رہے ہیں کہ عالمی ادارے (آئی ایم ایف) کی ساری شرائط مان لی گئی ہیں اور امید ہے کہ وہ قرضہ فراہم کریں گے…… یعنی اب ہم قرضے کے لیے ہر قسم کی شرائط مانیں گے اور اپنے عوام پر مزید بوجھ ڈالیں گے۔
ظاہری سی بات ہے کہ شکر گزار ہی رہیں گے۔ کیوں کہ علاوہ اس کے اور کچھ ہے کیا ہمارے پاس؟ افغانستان ہو یا پاکستان، ہر دونوں ملکوں میں سنہ 70ء کے بعد کے واقعات اور حکم رانوں نے ان خوب صورت ملکوں کا وہی حشر کیا ہے جو کوئی اپنے دشمن ہی کے ساتھ کیا کرتا ہے۔ اس رویے نے برین ڈرین کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع کیا ہے، جو رُکا اور نہ آگے ہی رُکے گا، بلکہ تمام ہنر مند مذکورہ ممالک سے دیارِ غیر میں جابسیں گے، جہاں آج بھی رنگ، نسل اور زبان کی اہمیت ہے، قابلیت اور انسانیت کی کچھ بھی اہمیت نہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔