دامنِ کوہ کا باسی، گود براند (ناروے کی لوک کہانی)

ترجمہ: شگفتہ شاہ
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک گاؤں میں ’’گود براند‘‘ نامی ایک کسان رہتا تھا۔ اس کا کھیت ایک پہاڑی کے دامن میں واقع تھا۔ اس لیے سب اسے پہاڑی کے دامن والا گود براند کَہ کر پکارتے تھے۔
گود برانداور اس کی بیوی ایک دوسرے کی سنگت میں ہنسی خوشی اپنی زندگی بسر کر رہے تھے۔ دونوں بہت صلح جو انسان تھے۔ شوہر جو کام بھی کرتا، بیوی سمجھتی کہ اس نے اتنی خوش اسلوبی سے کام کیاہے کہ اتنے اچھے طریقے سے کبھی کوئی انجام دے ہی نہیں سکتا۔ وہ ہمیشہ اس کے ہر کام سے خوش ہوتی تھی۔ وہ ایک کھیت کے مالک تھے۔ ان کے صندوق کی تَہ میں ایک سو دالر (اسکینڈے نیویا کا متروک سکّہ) محفوظ پڑے تھے اور ان کے باڑے میں دو گائیں بندھی تھیں۔
ایک روز گود براند کی بیوی نے اس سے کہا: ’’میرا خیال ہے کہ ہمیں ایک گائے کو شہرلے جا کر فروخت کر دینا چاہیے، تاکہ کچھ نقد رقم ہاتھ آ جائے۔ہم عزت دار لوگ ہیں، اس لیے دوسروں کی طرح ہمارے پاس بھی کچھ نقدی ہونی چاہیے۔ اورجو ایک سو دالر ہمارے صندوق میں پڑے ہیں، ان کو تو ہمیں ہرگزخرچ نہیں کرنا چاہیے۔ پھر میرے خیال میں ہمیں ایک سے زیادہ گائیں رکھنے کا کوئی فائدہ بھی نہیں۔ البتہ اگر ہم اپنی ایک گائے فروخت کر دیں گے، تو ہمیں اتنا فائدہ ضرور ہوگا کہ مجھے دو کی بجائے صرف ایک گائے کی دیکھ بھال کرنا اور چارا پانی کا خیال رکھنا ہو گا۔‘‘
جی ہاں، گود براندکے خیال میں وہ بالکل صحیح کَہ رہی تھی۔چناں چہ اس نے ایک گائے اپنے ساتھ لی اوراسے فروخت کرنے کے لیے شہر کی جانب روانہ ہوگیا۔ مگرجب وہ شہر پہنچا، تو اس کی گائے کا کوئی بھی خریدار نہیں تھا۔ اچھا ٹھیک ہے، اس نے سوچا، مَیں گائے کو واپس گھر لے جاؤں گا۔ ہمارے پاس تھان اور رسادونوں ہی ہیں اور گھر واپس جانے کا راستہ بھی اتنا ہی لمباہے، جتنا شہر آنے کا تھا۔ چناں چہ وہ گھر کی جانب چل دیا۔
مگر ابھی اُس نے تھوڑا سا فاصلہ طے کیا تھا کہ اس کی ملاقات ایک ایسے شخص سے ہوئی جو اپنا گھوڑا فروخت کرنا چاہتا تھا۔گود براند نے سوچا کہ گائے کی بجائے گھوڑا پالنا زیادہ بہتر ہے۔ چناں چہ اس نے اپنی گائے اس کے گھوڑے سے بدل لی۔ تھوڑی دور اور آگے جانے کے بعد اس کی ملاقات ایک ایسے شخص سے ہوئی جو ایک موٹے تازے سؤر کو اپنے ساتھ لیے ٹہل رہا تھا۔ گود براند نے سوچا کہ ایک گھوڑے کی نسبت ایک صحت مند سؤر کا مالک ہونا زیادہ بہتر ہے۔ چناں چہ اس نے گھوڑے کو سؤر سے بدل لیا۔
پھرتھوڑی دور جانے کے بعد اس کی ملاقات ایک ایسے شخص سے ہوئی جواپنی بکری فروخت کرنا چاہتا تھا۔ پس اس نے سوچا کہ ایک بکری رکھنا بہرحال ایک سؤر سے زیادہ بہتر ہوگا اور اس نے بکری کے مالک کو سؤر دے کر اس سے بکری لے لی۔
تھوڑی دور اور آگے جانے کے بعد اس کی ملاقات ایک ایسے شخص سے ہوئی، جس کے پاس ایک بھیڑ تھی۔ اب اس نے بکری کو بھیڑ سے بدل لیا۔ اس نے سوچا کہ ایک بھیڑ ہمیشہ بکری سے زیادہ فائدہ مند ہوتی ہے۔
تھوڑی دور مزید آگے جانے کے بعد اس کی ملاقات ایک ایسے شخص سے ہوئی، جس کے پاس ایک ہنس تھا۔ چناں چہ اس نے اپنی بھیڑ کو ہنس سے بدل لیا۔
پھر ایک لمبی مسافت طے کرنے کے بعداسے ایک اور آدمی نظر آیا، جس کے پاس ایک مرغ تھا۔ اس نے یہ سوچ کر اپنا ہنس اس کے مرغ سے بدل لیاکہ ایک مرغ بہرحال ایک ہنس سے زیادہ فائدہ مند ہوتا ہے۔ وہ اپنے گھر کی جانب رواں دواں تھا، مگر جب دن ڈھلنے لگا، تو اسے بھوک محسوس ہونے لگی، اب اس نے اپنا مرغ بارہ شیلنگ میں فروخت کیا اور ان پیسوں سے اپنے لیے کھانا خرید لیا۔
’’اپنی جان بچانا بہرحال ایک مرغ پالنے سے زیادہ ضروری ہے۔‘‘ دامنِ کوہ کے باسی، گودبراند نے سوچا۔
کھانا کھانے کے بعد وہ پھر گھر کی جانب چل دیا اور تھوڑی ہی دیر میں وہ اپنے ہمسائے کے کھیتوں کے قریب پہنچ گیا۔ ’’شہر میں تم پر کیا بیتی؟‘‘ اس کے ہمسائے نے پوچھا۔ ’’بس سب ٹھیک ہی رہا۔ مَیں اپنی قسمت کو کوس سکتا ہوں،اورنہ اپنی خوش قسمتی کے گن ہی گاسکتا ہوں!‘‘ اس نے جواب دیا اورپھر شروع سے آخر تک اپنی ساری کہانی کَہ سنائی۔
’’اوہ، پھر تو گھر پہنچنے پر تمھاری بیوی تمھاری خوب خبر لے گی۔‘‘ ہمسائے نے کہا۔ ’’خدا تمھارا حامی و ناصر ہو۔ مَیں تمھاری جگہ بالکل نہیں لینی چاہوں گا۔‘‘
’’مَیں سمجھتا ہوں کہ شہر میں مجھے اس سے زیادہ برے حالات کا سامنا ہو سکتا تھا۔ بہرحال اچھا یا برا جو بھی ہوا۔ میری بیوی اتنی اچھی ہے کہ وہ کبھی نہیں کہے گی کہ یہ تم نے کیا کر دیا!‘‘
’’ہاں، وہ تو مَیں جانتا ہوں، مگر میرے خیال میں اس دفعہ ایسا نہیں ہو گا۔‘‘ ہمسائے نے کہا۔
’’کیا ہم شرط لگائیں؟‘‘ گود براندنے کہا۔ ’’میرے صندوق میں ایک سو دالر پڑے ہیں،کیا تم بھی اتنی ہی رقم داوو پر لگانا چاہوں گے ؟ ‘‘ اور پھر انھوں نے شرط باندھی۔گود براند شام تک اپنے ہمسائے کے ساتھ رہا؛ اورجب اندھیرا پھیلنے لگا، تو وہ دونوں اس کے گھر کی جانب چل دیے۔ وہاں پہنچ کر گود براند تو اپنے گھر کے اندر چلا گیا، مگر ہمسائے نے دروازے پر رُک کر ان کی باتوں پر کان لگا دیے۔
’’شام بخیر،‘‘گودبراندنے کہا۔
’’شام بخیر!‘‘بیوی نے کہا: ’’خدا کا شکر ہے کہ تم واپس آ گئے!‘‘
جی ہاں، اب وہ گھر پہنچ چکا تھا۔ اور بیوی نے اس سے شہر کی رودادپوچھی۔
’’بس سب ٹھیک ہی رہا!‘‘گود براندنے جواب دیا۔’’ کوئی بھی قابلِ تعریف واقعہ رونما نہیں ہوا۔ جب مَیں شہر پہنچا، تو کوئی بھی میری گائے خریدنے پر تیار نہ تھا۔ تب میں نے گائے دے کر اس کے بدلے میں ایک گھوڑا خرید لیا۔‘‘
’’بہت اچھا کیا۔ اس کے لیے تو مجھے تمھارا شکر گزار ہونا چاہیے۔‘‘ اس کی بیوی نے کہا: ’’ہم معزز لوگ ہیں، اور اب ہم بھی دوسرے لوگوں کی طرح گھوڑے پر بیٹھ کر گرجا گھر جایا کریں گے۔ جب ہم گھوڑا رکھنے کی استطاعت رکھتے ہیں، تو پھر گھوڑا کیوں نہ رکھیں۔ بچو! جاؤ اور گھوڑا اندر لے آؤ۔‘‘
’’ہاں،مگر اب گھوڑا میرے پاس نہیں ہے۔ تھوڑی دور جا کر مَیں نے گھوڑا دے کر اس کے بدلے میں ایک سؤر لے لیا تھا۔‘‘ گود براند نے کہا۔
’’بہت خوب!‘‘ بیوی پکار اٹھی۔ ’’تمھاری جگہ مَیں ہوتی، تو مَیں بھی یہی کرتی۔ مجھے تو تمھارا شکر گزار ہونا چاہیے! اب ہمارے ہاں بھی گوشت ہو گا اور مہمانوں کی آمد پر ہم ان کی خاطر داری کرسکیں گے۔گھوڑے کا ہمیں کیا فائدہ تھا؟ ویسے بھی لوگ یہی کہتے کہ ہم اتنے مغرور ہوگئے ہیں کہ پہلے کی طرح گرجا گھر تک بھی پیدل نہیں جاسکتے۔ بچو!جاؤ اور سؤر کو اندر لے آؤ۔ ‘‘
’’مگراب سؤر بھی میرے پاس نہیں ہے!‘‘ گود براند نے کہا۔ ’’تھوڑی دور اور آگے جا کر مَیں نے سؤر کے بدلے میں ایک دودھ دینے والی بکری لے لی تھی۔ ‘‘
’’بہت خوب، تم ہمیشہ اچھے فیصلے کرتے ہو!‘‘ بیوی نے خوش ہوکر بلند آواز میں کہا۔ ’’اس بات پر مَیں نے اب غور کیا ہے کہ ہمیں سؤر کا کیا فائدہ تھا! لوگوں نے یہی کہنا تھا کہ ان کے پاس جو کچھ ہے، اسے کھاتے جا رہے ہیں۔ اب مَیں بکری پالوں گی، پھرہمارے گھر دودھ بھی ہوگا اور پنیر بھی۔ بچو! جاؤ اور بکری کو اندر لے آؤ۔‘‘
’’نہیں، اب بکری بھی میرے پاس نہیں!‘‘ گود براند نے کہا۔’’تھوڑی دور اور آگے جا کر مَیں نے بکری کے بدلے میں ایک اعلا نسل کی بھیڑ لے لی تھی۔‘‘
’’ارے واہ!‘‘ بیوی نے خوش ہوکربلند آواز میں کہا۔ ’’تم نے بالکل وہی کیا، جو میری خواہش تھی۔ مَیں بھی بالکل ایسا ہی کرتی۔ بکری کا ہمیں کیا کرنا تھا؟ مجھے روز اسے اونچی نیچی جگہوں پر چرنے کے لیے چھوڑ کر آنااور پھر شام کو واپس لانا پڑتا۔ اب ہم بھیڑ پالیں گے اور پہلے تو مَیں اس کی اون سے کپڑے تیار کروں گی اور پھر اس سے خوراک حاصل کریں گے۔ بچو! جاؤ اور بھیڑ کو اندر لے آؤ۔‘‘
’’مگراب بھیڑبھی میرے پاس نہیں ہے!‘‘ گود براند نے کہا۔ ’’تھوڑی دور اور آگے جا کر مَیں نے بھیڑ کے بدلے میں ایک ہنس لے لیا تھا۔ ‘‘
’’تمھارا بہت بہت شکریہ!‘‘ بیوی نے کہا۔ ’’بھیڑ کا مجھے کیا فائدہ تھا؟ میرے پاس چرخہ ہے نہ اٹیرن، اور پھرمجھے اون کاتنے اور کپڑے بنانے کی فکربھی نہیں کرنی ہوگی۔ ہم پہلے کی طرح اب بھی اپنے لیے کپڑے خرید لیا کریں گے۔ اب ہم ہنس کا گوشت کھائیں گے، جس کی مَیں ایک مدت سے خواہش مندتھی اور پھر مجھے اپنے چھوٹے تکیے کے لیے اس کے پَر بھی مل جائیں گے۔بچو! جاؤ اور ہنس کو اندر لے آؤ۔‘‘
’’مگراب ہنس بھی میرے پاس نہیں!‘‘ گودبراند نے کہا۔’’تھوڑی دور اور آگے جا نے کے بعد مَیں نے ہنس کے بدلے میں ایک مرغ لے لیا تھا۔‘‘
’’اوہ، میری تو سمجھ سے باہر ہے کہ تم یہ سب فیصلے کیسے کر تے رہے!‘‘بیوی نے خوش کن آواز میں کہا۔’’ ان حالات میں، مَیں بھی یہی سب کرتی۔ ایک مرغ! یہ توبالکل ایسے ہی ہے، جیسے انسان ایک گھڑی خرید لے۔ کیوں کہ ایک مرغ تو ہر صبح چار بجے بانگ دیتا ہے۔ یوں ہم بھی بروقت جاگ جایا کریں گے۔ہنس کا مجھے کیا فائدہ تھا؟ مجھے تو ہنس کا گوشت پکانا بھی نہیں آتا اور اپنا چھوٹاتکیہ، وہ تو میں روئی سے بھی بھر لوں گی۔ بچو! جاؤ اور مرغ کو اندر لے آؤ۔‘‘
’’مگراب مرغ بھی میرے پاس نہیں!‘‘ گود براند نے کہا۔’’تھوڑی دور اور آگے جا نے کے بعد مجھے سخت بھوک محسوس ہوئی اور تب مَیں نے اپنے لیے کھانا خریدنے کے لیے مرغ کو بارہ شیلنگ کے عوض فروخت کر دیا۔‘‘
’’خدا کا شکر ہے کہ تم نے یہ فیصلہ کیا تھا!‘‘ بیوی نے کہا۔’’تم جو بھی فیصلہ کرتے ہو، وہ عین میری خواہش کے مطابق ہوتا ہے۔ہم نے مرغ کا کیا کرنا تھا؟ ہم اپنی مرضی کے آپ مالک ہیں اور صبح ہوجانے کے بعد بھی جب تک چاہیں، بستر میں لیٹے رہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ تم میرے پاس آگئے ہو، تم ہر کام اتنی عقل مندی سے انجام دیتے ہو کہ مجھے مرغ، ہنس، سؤر یا گائے کی قطعاًکوئی ضرورت نہیں۔
اب گود براندنے گھر کا داخلی دروازہ کھولا اوربلند آواز میں کہا : ’’اب تو مَیں نے ایک سو ڈالر کی شرط جیت لی ہے ناں؟‘‘
اور اس کے ہمسائے کو اس بات کا اعتراف کرنا ہی پڑا۔
(ناورے کی لوک کہانی نمبر 2، بہ شکریہ ’’عالمی ادب کے اُردو تراجم‘‘ فیس بُک گروپ)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے