’’چولھا‘‘ (ہندی، اسمِ مذکر) کا اِملا عام طور پر ’’چولہا‘‘ لکھا جاتا ہے۔
’’نور اللغات‘‘، ’’جامع اُردو لغت‘‘، ’’فرہنگِ اثر‘‘، ’’فیروز اللغات (جدید)‘‘ اور ’’جہانگیر اُردو لغت (جدید)‘‘ کے مطابق صحیح اِملا ’’چولھا‘‘ ہے۔
اس طرح ’’فرہنگِ آصفیہ‘‘، ’’جدید اُردو لغت (طلبہ کے لیے)‘‘، ’’حسن اللغات‘‘ اور ’’اظہر اللغات (مفصل)‘‘ صحیح اِملا ’’چولہا‘‘ کو مانتے ہیں۔
آگے چل کر یہ گُتھی اُس وقت مزید اُلجھ جاتی ہے جب ’’علمی اُردو لغت (جامع)‘‘ جیسے مستند لغت میں بہ یک وقت اِملا کی دونوں صورتیں (چولھا، چولہا) پڑھنے کو ملتی ہیں۔ اس طرح محاورات میں بھی کبھی ’’چولھا‘‘ لکھا ملتا ہے اور کبھی ’’چولہا‘‘۔
طُرفہ تماشا یہ ہے کہ ’’آئینۂ اُردو لغت‘‘ نے ’’چولہا‘‘ لکھنے کو ترجیح دی ہے، مگر آگے چل کر لغت ترتیب دینے والے نے محاورے میں اس کا اِملا ’’چولھا‘‘ لکھا ہے۔ محاورہ ہے ’’چولھے میں پڑے/ جائے۔‘‘
اس گُتھی کو سلجھانے کے لیے بامرِ مجبوری رشید حسن خان سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ ان کی کتاب ’’اُردو اِملا‘‘ (مطبوعہ ’’زبیر بکس‘‘، اشاعت 2015ء) کے صفحہ نمبر 94 پر ’’چولھا‘‘ رقم ہے۔
’’چولھا‘‘ ہندی کا لفظ ہے، اس لیے اسے لکھتے وقت ہائے ہوز (ہ) کی جگہ دو چشمی ہا (ھ) لکھنے کو ترجیح دینی چاہیے۔
رشید حسن خان جیسے معتبر اور مستند حوالے کے بعد ’’نور اللغات‘‘ میں ’’چولھا‘‘ کے ذیل میں حضرتِ شوقؔ کا ایک مصرع ہاتھ آتا ہے، جس کے بعد شک کی گنجایش ہی ختم ہوجاتی ہے، مصرع ملاحظہ ہو:
وہ کم بخت غارت ہو، چولھے میں جائے
’’چولھا‘‘ کے معنی ’’دیگ دان‘‘، ’’آتش دان‘‘، ’’آگ رہنے کی جگہ‘‘ اور ’’ہنڈیا پکانے کی جگہ‘‘ کے ہیں۔