یہ ٹیکنو کریٹ حکومت کیا اُکھاڑ لے گی؟

آج کل ریاست سیاسی عدم استحکام سمیت معاشی بحران سے بھی دو چار ہے۔ اتحادی حکومت کے ذمے دار اور حزبِ اختلاف کی بڑی پارٹی ’’تحریکِ انصاف‘‘ کے کرتا دھرتا ملکی میں سیاسی اور معاشی استحکام کی خاطر کسی بھی صورت آپس میں بیٹھنے کو تیار نہیں۔
دوسری طرف معاشی بحران میں ہر گزرتے دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور اب یہ قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں کہ ملک کو معاشی عدم استحکام سے نکالنے کے لیے ٹیکنو کریٹ حکومت قایم کی جا رہی ہے۔ اگر دیکھا جائے، تو ماضی میں بھی پاکستان معاشی عدم استحکام کا شکار رہا ہے۔ اُس وقت کے حکم رانوں نے معاشی استحکام کے لیے معاشی ماہرین (ٹیکنو کریٹ) کو ریاست کی وزارتِ خزانہ دی۔
1956ء میں ایوب خان سید امجد علی کو امریکہ سے لائے اور 1966 ء کو واپس چلے گئے۔
1958ء میں عالمی بینک کے ملازم محمد شعیب کو لایا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ محمد شعیب عالمی بینک کا ملازم تھا مگر امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے سے اس کے تعلقات تھے۔ محمد شعیب عالمی بینک سمیت ریاستِ پاکستان سے بھی تنخواہ وصول کیا کرتا تھا۔
جنرل یحییٰ خان نے ایک نیوی افسر ایس ایم حسن کو وزیرِ خزانہ بنایا تھا۔
1977ء میں جنرل ضیاء الحق نے اپنے دورِ اقتدار میں ایک بیور کریٹ غلام اسحاق خان کو وزیرِ خزانہ بنایا تھا۔
آٹھ سال بعد عالمی بینک کے ملازم ڈاکٹر محبوب الحق کو وزیرِ خزانہ بنایا گیا جب کہ سرتاج عزیز بھی جنرل ضیاء الحق ہی کی دریافت تھا۔
1993ء میں معین قریشی کو امریکہ سے لاکر نگران وزیرِ اعظم بنایا گیا، جس کے پاس پاکستانی شناختی کارڈ تک نہیں تھا۔
1997ء میں ایک معاشی ماہر کو بھی نگران وزیرِ خزانہ بنایا گیا تھا۔
جنرل مشرف کے دور میں شوکت عزیز کو امریکہ سے لایا گیا تھا۔ اُسے پہلے وزیرِ خزانہ اور بعد میں وزیرِ اعظم بنایا گیا تھا۔ حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ شوکت عزیز کے ساتھ بھی قومی شناختی کارڈ نہیں تھا۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اس کا شناختی کارڈ تک بنوایا گیا۔
2008ء میں سٹی بینک کے ملازم شوکت ترین کو وزیرِ خزانہ بنایا گیا، جو آج تحریکِ انصاف کا حصہ ہے اور اس پارٹی کا وزیرِ خزانہ بھی رہ چکا ہے۔
2019ء میں عالمی بینک کے ملازم حفیظ شیخ کو وزیرِ خزانہ بنایا گیا جو کچھ عرصہ کے لیے تحریکِ انصاف کا بھی وزیرِ خزانہ رہا۔
قارئین! قدرت اللہ شہاب اپنی کتاب ’’ شہاب نامہ‘‘ صفحہ 582 پر لکھتے ہیں: ’’بین الاقوامی سطح پر پاکستانی روپے کی قیمت گِر کر نصف کے قریب رہ گئی تھی، لیکن اندرونِ ملک ہمارے اقتصادی ماہر ایوب خان کی مونچھ کو تاو دے کر اُن کے منھ سے یہی اعلان کرواتے رہے کہ ہم کسی دباو کے تحت اپنے روپے کی قیمت ہرگز نہیں گھٹائیں گے۔ سرکاری شرح سے تو ایک پونڈ کی قیمت گیارہ بارہ روپے بنتی تھی، لیکن کھلی مارکیٹ میں اس کا بھاو 16 سے 24 روپے ہوتا تھا۔ پاکستان کرنسی کی اصلی اور نقلی قیمت کا اتنا فرق اُس کے لیے انتہائی مضر تھا۔‘‘
سابق گورنر عشرت حسین اپنی کتاب "Pakistan the economy of an elitist state” میں ایوب خان دور کی پاکستانی معیشت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ 1958ء سے 1966ء تک جس میں فوجی حکم ران چھائے رہے، تضادات کا مجموعہ رہا۔ ایک طرف اقتصادی ترقی کے اعتبار سے ملکی تاریخ میں بد ترین شرحِ نمو دیکھنے کو ملی، تو دوسری طرف آمدن میں عدم مساوات، علاقائی اختلافات اور معاشی طاقت کے ارتکاز میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ اگرچہ تگڑی مائیکرو اکانومک مینجمنٹ دیکھنے کو ملی، مگر اُس دور میں بعض ایسے سلسلہ وار مسایل کی راہ ہم وار کی گئی، جو آنے والی حکومتوں میں بڑھتے چلے گئے۔‘‘
شاہد خان برکی اپنی تصنیف "Pakistan moving the economy forward” میں لکھتے ہیں کہ ’’1965ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد پاکستان کی اقتصادی ترقی کی شرحِ نمو مسلسل گھٹتی گئی اور پہلی والی پوزیشن پر نہ جاسکی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایوب خان دور میں معاشی ترقی کی بنیاد غیر ملکی امداد کے ناقابلِ یقین سہارے پر رکھی گئی تھی۔ یہ خوش حالی اس قدر مصنوعی تھی کہ چند روزہ جنگ نے اس کے چہرے سے نقاب اُتار پھینکا۔‘‘
معاشی استحکام کی خاطر رضا باقر، ڈاکٹر یعقوب، اشرف محمد، شمشاد اختر، ڈاکٹر عشرت حسین اور سید سلیم رضا کو پاکستان سٹیٹ بینک کا گورنر بنایا گیا جو کہ کسی نہ کسی بیرونی معاشیاتی اداروں کے ملازم تھے۔ باہر سے ماہرِ معاشیات کو لانے کے باوجود پاکستان کی معیشت بہتر نہ ہوسکی۔
اتنے تجربات کے باوجود ٹیکنو کریٹس ریاست کو کوئی فایدہ نہ دے سکے، تو اگر اب بھی ٹیکنو کریٹس کی حکومت قایم کی جائے، تو ریاست کو کیا فایدہ ہوگا؟
ملکی معاشی استحکام، سیاسی استحکام کے بغیر ممکن نہیں۔ اس کے لیے لازم ہے کہ ہمارے سیاسی رہنما ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے مل بیٹھ کر سیاسی استحکام پیدا کریں، مگر لگتا نہیں کہ ایسا ہوگا۔
ملکی حالات اس نہج پر پہنچنے کی وجہ تو میرے خیال میں یہ ہوسکتی ہے کہ جب کسی معاشرے میں حقیقی عوام دوست طاقتیں کم زور پڑجاتی ہیں، تو مذہب، خطے، زبان اور قومیت کے نام پر انتہا پسند افراد عوامی ہم دردیاں حاصل کرلیتے ہیں اور ووٹ کے ذریعے اقتدار میں آکر ایک ایسی آمریت قایم کر دیتے ہیں جو اپنی مخالف قوت کو ریاستی اختیار اور عوامی حمایت سے تباہ و برباد کر دیتے ہیں۔ یہ آہستہ آہستہ ریاست کے ہر ادارے کو سیاسی بنیادوں پر تقسیم کر دیتے ہیں جس سے معاشرہ، جمہوری اختلافِ رائے کی بجائے جھوٹ، منافقت اور ذاتی دشمنیوں کی بنیاد پر تقسیم ہوجاتا ہے۔
قارئین! مَیں تو یہی کچھ دیکھ رہا ہوں اور دعا کرسکتا ہوں کہ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو، آمین!
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے