’’گوگل‘‘ بحرین کی تباہی سے آگاہ اور حکومت بے خبر ہے

بحرین بازار کی تباہی کا ادراک گوگل کو ہے، اگر نہیں…… تو ہماری صوبائی اور وفاقی حکومت کو نہیں۔
سیلاب نے جب لامبٹ تا درال ایک کلومیٹر بحرین بازار سمیت تباہ کیا، تو گوگل نقشوں نے مینگورہ سے کالام تک کا راستہ مینگورہ، چکدرہ، تمیرگرہ، دیر بالا، شیرینگل، تھل، باڈگوئی اور اتروڑ بتانا شروع کیا۔ چار مہینے گزر گئے، اب بھی گوگل نے اپنا ’’آن لائن لائیو نقشہ‘‘ درست نہیں کیا۔ گذشتہ پانچ دنوں سے گوگل سے ٹوئٹر اور ای میل کے ذریعے رابطہ کیا کہ ان کا نقشہ ان سیاحوں کے لیے مصیبت کھڑا کر رہا ہے جو گوگل میپ کی مدد سے راستوں کا تعین کرکے کالام اور بحرین آتے ہیں۔ کیوں کہ اگر کوئی سیاح گوگل کو راہبر بنا کر آئے گا، تو اس کو مینگورہ سے چکدرہ جانا پڑے گا اور وہاں سے جاکر وہ تھل میں پھنسے گا۔ گوگل کو اب بھی پتا نہیں کہ باڈگوئی پاس بند ہے۔
زبیر توروالی کی دیگر تحاریر کے لیے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/zubair-torwali/
مینگورہ تا کالام براستہ دیر فاصلہ 252 کلومیٹر بنتا ہے…… جبکہ مینگورہ تا کالام براستہ بحرین صرف 99 کلومیٹر۔
گوگل نے بار بار پوچھا کہ بحرین میں اب بھی ان کا نقشہ سڑک کو ٹوٹی ہوئی دکھا رہا ہے۔ مَیں نے کئی بار بار کہا کہ میں اسی علاقے سے تعلق رکھتا ہوں اور یہاں سڑک صرف دو ہفتوں کے لیے بند تھی، مگر امریکہ میں بیٹھے گوگل کو کون سمجھائے کہ بابا ایسا نہیں ہے۔ وہ اب بھی بحرین والی جگہ نقشے میں زوم کرکے دکھاتا ہے جو کہ بند آرہا ہے۔
خیر، ان سے رابطے میں ہیں کہ وہ اس مسئلے کو جلد از جلد حل کریں…… مگر افسوس یہ ہے کہ کسی بھی باہر والے کو بحرین کی تباہی ایسی دکھتی ہے جیسے اس بازار پر کسی نے بمباری کی ہو…… مگر ہماری حکومت ٹس سے مس نہیں ہوتی۔
ہمارے لوگوں میں اب مزاحمت اور احتجاج کا مادہ بھی باقی نہیں رہا۔ دنیا میں سب سے زیادہ احتجاج اکثر تجارت سے منسلک لوگ کرتے ہیں…… مگر ہمارے ملک میں تاجر انفرادی سطح پر حکومتوں سے کچھ وصول کرکے خاموش ہوجاتے ہیں۔
جاتے جاتے بحرین کے دوست سپیریئر کالجز کے فاؤنڈیشن کا نہایت گراں قدر الفاظ میں شکریہ کہ انھوں نے اس بازار کی ایک طرف دکانوں کو رقم دے کر ان کو بحال کرانے کی بھرپور اور بروقت کوشش کی۔ ایسا صرف بحرین بازار کے اُن ریسٹورینٹ والوں کی میزبانی کی وجہ سے ہوا کہ اُن کا لاہور کے اس ادارے یعنی سپیرئیر کالجز سے اچھے تعلق استوار ہیں۔ ہو بھی کیوں ناں کہ ان کالجوں کے طلبہ و طالبات سب سے زیادہ بحرین کو پسند کرتے تھے اور اسی کو اپنا بیس کیمپ بنا کر پورا سوات گھومتے تھے۔
بحرین میں لاہور اور ملک کے دوسرے حصوں سے طلبہ و طالبات کی آمد اور اس کو اپنا بیس کیمپ بنانے کا عمل 40، 50 سال پرانا ہے…… اور ڈیلکس ہوٹل جو سوات میں سوات ہوٹل کے بعد دوسرا قدیم ہوٹل تھا، ان کا مسکن ہوتا تھا۔
کیا وہ دن واپس آئیں گے جب بحرین بازار کے ریسٹورنٹ اور ان کی چھتوں پر نوجوان ٹولیوں میں بیٹھتے پائے جائیں گے اور اپنا دن بھر کا تھکن اتارتے دکھائی دیں گے؟ کیا وہ دن دوبارہ آئیں گے جب زیریں سوات سے منچلے ڈنر کرنے بحرین آئیں گے؟
شاید میں فالتو میں چیختا ہوں…… مدعی سُست گواہ چست کے مصداق!
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے