عام طور پر ’’بالکل‘‘ (عربی، تابع فعل) کا اِملا ’’بلکل‘‘ لکھا جاتا ہے۔
’’فرہنگِ آصفیہ‘‘، ’’آئینۂ اُردو لغت‘‘، ’’جدید اُردو لغت (طلبہ کے لیے)‘‘، ’’حسن اللغات (جامع)‘‘، ’’جہانگیر اُردو لغت (جدید)‘‘، ’’اظہر اللغات (مفصل)‘‘ اور ’’فرہنگِ عامرہ‘‘ کے مطابق صحیح اِملا ’’بالکل‘‘ ہے جب کے اس کے معنی ’’تمام‘‘، ’’سر تا سر‘‘، ’’تمام و کمال‘‘، ’’از اول تا آخر‘‘ کے ہیں۔
’’بھارت بھوشن پنت‘‘ نامی شاعر کی ایک غزل کی ردیف ’’بالکل‘‘ ہے، جو ایک طرح سے مذکورہ لفظ کے اِملا پر ایک طرح مہرِ تصدیق ثبت کرتی ہے۔ غزل ملاحظہ ہو:
چاہتوں کے خواب کی تعبیر تھی بالکل الگ
اور جینا پڑ رہی ہے زندگی بالکل الگ
وہ الگ احساس تھا جب کشتیاں موجوں میں تھیں
لگ رہی ہے اب کنارے سے ندی بالکل الگ
اور کچھ محرومیاں بھی زندگی کے ساتھ ہیں
ہر کمی سے ہے مگر تیری کمی بالکل الگ
ایک انجانی صدا نے کیا پتا کیا کَہ دیا
روٹھ کر بیٹھی ہے سب سے خامشی بالکل الگ
لفظ کی دنیا الگ شہر معانی اور ہے
مَیں الگ ہوں مجھ سے میری شاعری بالکل الگ
آئینے میں مسکراتا میرا ہی چہرہ مگر
آئینے سے جھانکتی بے چہرگی بالکل الگ
سوچتا ہوں رنگ کتنے ہیں مرے کردار میں
مَیں کبھی اپنی طرح ہوں اور کبھی بالکل الگ
سب اندھیروں سے جدا دل کا اندھیرا جس طرح
ہر اُجالے سے ہے گھر کی روشنی بالکل الگ
زندگی کی لے بکھرنے کا سبب شاید یہی
ساز کی دھن سے ہے میری نغمگی بالکل الگ
مجھ کو ان سیرابیوں نے ایک صحرا کر دیا
آج بھی لیکن ہے میری تشنگی بالکل الگ