ترجمہ: ڈاکٹر نعمت الحق 
مَیں طویل عرصے سے، استنبول میں ایک عجایب گھر قایم کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ دس سال پہلے مَیں نے ’’چوکر جوما‘‘ میں ایک خستہ حال عمارت خریدی تھی، جو اُس مکان کے سائے میں تھی جہاں میں لکھنے پڑھنے کا کام کیا کرتا تھا۔ مَیں نے اپنے ایک آرکیٹیکٹ دوست کی مدد سے، رفتہ رفتہ اس کی ساخت میں تبدیلی لاکر اسے ایک عجایب گھر کی صورت میں تبدیل کرنا شروع کر دیا۔ یہ عمارت 1897ء میں تعمیر ہوئی تھی اور اب میری خواہش تھی کہ یہ جدید دکھائی دے اور میرے ذوقِ سلیم کی عکاسی کرے۔
اُن ہی دنوں میں، مَیں ایک ناول لکھ رہا تھا…… اور ساتھ ہی مَیں نے اُن دکانوں اور بازار پر نگاہ رکھی ہوئی تھی…… جہاں سے استعمال شدہ اشیا ملتی تھیں اور ان واقف کار گھرانوں سے رابطے میں رہتا تھا، جو پرانی اور نادر اشیا جمع کرنے کا شوق رکھتے تھے۔ مَیں ان اشیا کی تلاش میں تھا جو اس قدیم مکان میں 1975ء تا 1984ء رہایش پذیر میرے تصوراتی خاندان کے زیرِ استعمال رہی ہوں…… اور اُن ہی پر مَیں نے اپنے ناول میں اپنی توجہ مرکوز کر رکھی تھی۔
میرے لکھنے پڑھنے کا مکاں جسے میں سٹوڈیو کہتا ہوں…… رفتہ رفتہ دوائیوں کی پرانی شیشیوں، بٹنوں کی تھیلیوں، قومی لاٹری کے ٹکٹوں، تاش کے پتوں، لباس اور باورچی خانے میں استعمال ہونے والی اشیا سے بھرتا چلا گیا۔
مَیں نے اُنھیں اپنے ناول میں شامل کرنے کی نیت سے موزوں موقع و محل، صورتِ حال اور مناظر کے بارے میں سوچنا شروع کیا، تا کہ ان اشیا کا ناول میں وہاں ذکر ہو جہاں مناسب ہو۔ ان میں سے ڈھیر ساری اشیا (جیسا کہ ایک کدو کش) مَیں نے بہت ہی چاہت سے خریدی تھیں۔
ایک بار جب مَیں استعمال شدہ اشیا کی دکان کے سامنے سے گزرا، تو ایسے ہی کچھ دیکھنے کے ارادے سے اندر چلا گیا۔ وہاں مجھے چمک دار کپڑے کا ایک لباس نظر آیا، جس پر نارنجی رنگ کے پھول اور ان کے ساتھ سبز رنگ کے پتے تھے۔ مَیں نے فیصلہ کر لیا کہ یہ لباس میرے ناول کی ہیروئن ’’فسن‘‘ کے لیے بہت ہی موزوں رہے گا۔ مَیں نے اُس لباس کو اپنے سامنے پھیلا دیا اور ایک منظر کی تفصیل لکھنے میں مصروف ہوگیا…… جس میں ’’فسن‘‘ اُسی لباس میں ڈرائیونگ سیکھ رہی ہے۔
ایک اور موقع پر استنبول میں، قدیم اور نایاب کتابوں کی دُکان میں، مجھے 1930ء کے زمانے کی ایک بلیک اینڈ وائٹ تصویر نظر آئی۔ مَیں نے ذہن میں تصور کیا کہ اس میں تو میرے ایک کردار کی ابتدائی زندگی کے زمانے کا منظر نظر آرہا ہے اور اس طرح مَیں نے فیصلہ کیا کہ اس تصویر میں جن اشیا کی عکاسی کی گئی ہے، ان ہی کے توسط سے مَیں اپنے ناول کی کہانی کو آگے بڑھاؤں۔ یہاں تک کہ اس تصویر کی تمام جزئیات کو کہانی میں شامل کر دوں۔ مزید یہ کہ جیسا مَیں نے اپنے بہت سے دیگر ناولوں میں کیا ہے، مَیں نے سوچا کہ میں اپنے کرداروں کو اپنے ہی اوصاف سے رنگ دوں یا اپنی والدہ، والد اور دیگر عزیز واقارب سے اسی لیے مَیں نے ڈھیر ساری اشیا ایسی منتخب کیں جو میرے خاندان کے افراد سے تعلق رکھتی تھیں۔
مَیں اُن سے پیار کرتا تھا اور وہ میری یادداشت میں محفوظ تھیں۔ ایسے کہ مَیں انھیں اپنے سامنے رکھ کر دیکھ سکتا تھا۔ مَیں نے ان کو اپنی کہانی میں تفصیل سے بیان کر کے انھیں کہانی کا حصہ بنا دیا۔
مَیں نے اپنا ناول ’’خانۂ معصومیت‘‘ (The Museum of Innocence) اس طرح لکھا جن اشیا نے دفعتاً مجھ پر وجدانی کیفیت طاری کر دی تھی…… اُن کے بارے میں مطالعہ کرتے ہوئے، اُن کا کھوج لگاتے ہوئے اور ان کی تفصیل بیان کرتے ہوئے۔
بعض اوقات اس کے بالکل برعکس بھی ہوا۔ جو اشیا مجھے ناول کے لیے درکار تھیں، دُکانوں میں اُن کی تلاش و جستجو کرتے ہوئے یا ناول کی ضرورت کے مطابق ہنر مندوں اور فن کاروں سے انھیں تیار بھی کرایا۔
2008ء میں جب میرا ناول مکمل ہوا، تو میرے سٹوڈیو اور میرے گھر میں ان اشیا کا انبار لگ چکا تھا۔ مَیں نے طے کر لیا کہ ’’خانۂ معصومیت‘‘ کی وہ شکل جو ناول میں بیان کی گئی ہے…… حقیقی زندگی میں اسے مجسم کر دوں گا۔
(’’جدید ناول کا فن‘‘ از ’’اورحان پامک‘‘ سے انتخاب)