’’بھوچکا‘‘ (ہندی، اسمِ صفت) کا املا عام طور پر ’’بھونچکا‘‘ لکھا جاتا ہے۔
’’فرہنگِ آصفیہ‘‘ اور ’’نور اللغات‘‘ دونوں میں دو قسم کا املا یعنی ’’بھوچکا‘‘ اور ’’بھونچکا‘‘ درج ہے،جب کہ ’’جدید اُردو لغت (طلبہ کے لیے)‘‘، ’’جہانگیر اُردو لغت (جدید)‘‘ اور ’’علمی اُردو لغت (متوسط)‘‘ تینوں میں صرف ’’بھونچکا‘‘ درج ملتا ہے۔
اس حوالے سے’’اُردو املا‘‘ از رشید حسن خان (مطبوعہ ’’زبیر بکس‘‘، سنہ اشاعت 2015ء) کے صفحہ نمبر 96 پر درج ہے: ’’آصفیہ و نور دونوں میں یہ مع نون بھی ہے اور بغیرِ نون بھی (بھوچکا، بھونچکا) مگر بھچک دونوں لغات میں صرف بغیرِ نون ہے۔ مستعمل بھی اسی طرح ہے۔ بھوچکا اور بھونچکا دونوں صورتیں دیکھنے میں آئی ہیں۔ صرف ترجیح کے خیال سے، بھچک کی رعایت سے، اِس کو نون کے بغیر مرجح مان لینا چاہیے۔‘‘
اب طُرفہ تماشا یہ ہے کہ صاحبِ آصفیہ نے ’’بھوچکا‘‘ کے ذیل میں محاورات کی تفصیل (بھوچکا رہنا، بھوچکا ہونا) دی ہے مگر ’’بھونچکا‘‘ کے نیچے کوئی محاورہ درج نہیں فرمایا۔
اس طرح صاحبِ نور نے بھی ’’بھونچکا‘‘ کے نیچے ایک بھی محاورہ درج نہیں کیا، البتہ ’’بھوچکا‘‘ کے ذیل میں حضرتِ داغؔ کا ایک شعر درج کرکے گویا اس کے املا (بھوچکا) پر مہرِ تصدیق ثبت کردی۔ شعر ملاحظہ ہو:
بھونڈی بے ہنگم عجب بے ڈول ہے زاہد کی قطع
رند اس کو دیکھ کر کیا سخت بھوچکے ہوئے
’’بھوچکا‘‘ کے معنی ’’متحیر‘‘، ’’حیراں ہونا‘‘، ’’حیراں رہنا‘‘ اور ’’حیراں کرنا‘‘ کے ہیں۔