رسول بخش پلیجو 21 فروری 1930ء کو جنگ شاہی سندھ کے گاؤں منگر خان پلیجو میں علی محمد پلیجو کے گھر پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں اور ثانوی تعلیم کراچی میں سندھ مدرسۃ الاسلام سے حاصل کی۔ پلیجو نے ’’سندھ لا کالج، کراچی‘‘ سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔ سندھی، اُردو اور انگریزی میں روانی رکھنے کے ساتھ ساتھ ہندی، عربی، بلوچی، بنگالی، پنجابی اور فارسی زبانوں پربھی انہیں عبور حاصل تھا۔ ایک نام ور مصنف اور اسکالر پلیجو نے سپریم کورٹ کے وکیل کے طور پر خدمات انجام دیں۔ تقریباً 11 سال سے زاید سیاسی الزامات کے تحت قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ خاص طور پر پاکستان میں تحریکِ بحالی جمہوریت (MRD) کے دوران میں ان کی زیادہ تر زندگی قید میں گزری۔ 1980ء میں کوٹ لکھپت جیل لاہور میں بھی بند رہے۔ انہیں ’’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘‘ نے 1981ء میں ’’ضمیر کا قیدی‘‘ قرار دیا تھا۔
رسول بخش پلیجو کا شمار جنوبی ایشیا کے ان رہنماؤں میں ہوتا ہے…… جنہوں نے جاگیرداری، مارشل لا، استعماری اور سامراجی قوتوں کے خلاف جد و جہد میں لازوال مثالیں قایم کیں۔ شہرت کی بلندیاں حاصل کیں۔ ان کی پوری زندگی تحریکوں کی نذر رہی۔
’’محاذ سندھ قومی اتحاد‘‘، ’’بزمِ صوفیہ سندھ‘‘، ’’پونم‘‘، ’’سندھی ادبی سنگت‘‘، ’’ایم آر ڈی‘‘، ’’اینٹی ون یونٹ موومنٹ‘‘، ’’4 مارچ موومنٹ‘‘، ’’سندھی شگرد تحریک‘‘، ’’سندھی ہاری تحریک‘‘، ’’پاکستان عوامی جمہوری اتحاد‘‘، ’’پاکستان عوامی تحریک‘‘، ’’سندھی مزدور تحریک‘‘، ’’سندھ انٹلیکچول فورم‘‘، ’’سندھی عوام قومی اتحاد‘‘، ’’سندھی گرلز اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن‘‘، ’’سجاگ بار تحریک‘‘، ’’سندھ واٹر کمیٹی‘‘، ’’1940ء پاکستان عوامی قرارداد نفاذِ جمہوری تحریک‘‘ اور ’’اینٹی گریٹر تھل کینال‘‘ اور ’’کالا باغ ڈیم ایکشن کمیٹی‘‘ جیسی تحریکوں کے وہ روحِ رواں تھے۔
انہوں نے ’’نیلم بینڈ کریو‘‘ اور ووٹر لسٹوں میں ’’سندھی مرد چھپاو تحریک‘‘ بھی شروع کی۔ رسول بخش پلیجو تحریک برائے بحالی جمہوریت (ایم آر ڈی) کے سرکردہ رہنماؤں میں سے ایک تھے۔ انہوں نے اور ان کی جماعت عوامی تحریک نے بنگلہ دیش اور بلوچستان میں غیر قانونی فوجی آپریشن، جنرل ضیا کے خلاف بھٹو بچاو تحریک اور صحافیوں کی تحریک میں بھی فعال کردار ادا کیا۔ وہ برصغیر کے مایہ ناز مقررین، پاکستان کے اعلا ترین آئینی اور فوج داری وکلا اور پہلے سندھی اور جنوبی ایشیائی سیاست دان تھے…… جنہوں نے کالاباغ ڈیم، تعلیمی اداروں میں تشدد اور شہری بنیادوں پر منظم دہشت گردی کے خلاف تحریک چلائی اور اسے منظم کیا۔ انہوں نے لانگ مارچوں کے ذریعے سندھ میں جمہوری جد و جہد کا ایک نیا عدمِ تشدد کا رجحان متعارف کرایا۔ وہ پہلے سیاسی قیدی ہیں…… جنہوں نے سیاسی الزامات کے تحت ایک لمبے عرصے تک 11 سال سے زاید عرصہ جیل میں رہے۔ وہ کانٹ، ہیگل، کارل مارکس، ولادیمیر لینن، ماو زے تنگ، موہن داس گاندھی اور محمد علی جناح تک کو پڑھ چکے۔ ’’ادب‘‘ سے لے کر ’’سیاست‘‘، ’’جیل ڈائری‘‘، ’’فلسفہ‘‘، ’’ثقافت‘‘ اور ’’شاعری‘‘ تک متعدد موضوعات پر 40 سے زائد کتب کے مصنف ہیں۔ وہ جاگیردارانہ نظام اور بیوروکریٹس کے کھلم کھلا نقاد تھے۔
شادی سندھی گلوکارہ اور مصنفہ زرینہ بلوچ سے 25 اکتوبر 2006ء کو ہوئی۔ 7 جون 2018ء کو کراچی کے ایک اسپتال میں ان کا انتقال ہوگیا۔ اپنی موت سے پہلے دل اور سانس کی پیچیدگیوں میں مبتلا ہونے کے بعد طویل عرصے تک ہسپتال میں داخل رہے۔ 8 جون 2018ء کو انہیں ان کے آبائی گاؤں منگر خان پلیجو ضلع ٹھٹھہ میں سپردِ خاک کیا گیا۔
انہیں کی چوتھی برسی پر اسٹیج پر بیٹھا ’’زندہ ہے، پلیجو زندہ ہے‘‘ کے فلک شگاف نعرے سن کر بابا بلھے شاہ کی شاعری کی عملی جھلک دیکھ رہا تھا۔ جہاں بچوں اور بچیوں نے سرخ چادر اور گل دستے ہاتھوں میں پکڑے اپنے لیڈر کو سیلوٹ کیا اور عقیدت سے ان کی قبر پر چادر چڑھائی۔
ان کی برسی پر سیاسی درویش سید منظور علی گیلانی، اظہر جمیل، غلام فرید گوریجہ ، نام ور ٹی وی اینکر ایک لغاری سب پہ بھاری، سید زین شاہ اور صدام حسین سمیت درجنوں سیاسی قایدین نے اپنے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے رسول بخش پلیجو کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا۔
رسول بخش پلیجو کی عوامی تحریک کا قیام 5 مارچ 1970ء کو حیدرآبادسندھ کے معروف ادیبوں، کارکنوں اور دانشوروں کے ہاتھوں ہوا تھا۔ پارٹی کے پہلے اجلاس میں سرکردہ نظریاتی رسول بخش پلیجو کو اس کا پہلا جنرل سیکرٹری منتخب کیا گیااور پھر بتدریج یہ ایک قومی جماعت بنتی چلی گئی۔ سندھ میں پیپلز پارٹی اور پنجاب میں مسلم لیگ ن کے خلاف جاگیردار مخالف عناصر کی حمایت کی۔ 2013ء میں عوامی تحریک کو قومی عوامی تحریک ’’کیو اے ٹی‘‘ کا نام دے کران کے بیٹے ایاز لطیف پلیجو اس کے مرکزی رہنما بن گئے…… مگر 2016ء میں کچھ اندرونی رنجشوں کی وجہ سے رسول بخش پلیجو نے بیٹے کی قیادت والی تحریک سے دوری اختیار کرکے عوامی تحریک کو دوبارہ زندہ کردیا۔
عوامی تحریک ایک سیاسی جماعت ہے جو مارکسزم، لینن ازم، ماؤ ازم کے سائنسی اور انقلابی اصولوں کے ذریعے عوام کی آزادی کے حصول کے لیے اپنی جمہوری جد و جہد میں عدمِ تشدد کے لیے وقف ہے۔ یہ عوامی جمہوریت، معاشی اور سماجی انصاف اور ایک ایسے ملک میں فلاحی ریاست کے قیام کے لیے پُرعزم ہے، جہاں لوگوں کو مساوات، سیاسی آزادی، معاشی مواقع اور حقیقی صوبائی خودمختاری حاصل ہو۔ اس جماعت کابنیادی منشور یہ ہے کہ فلاحی ریاست کے ثمرات عوام تک پہنچانے کے لیے معاشرے کی ایک جامع اوور ہالنگ کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تب سے اب تک عوامی تحریک جنس، طبقے، رنگ، زبان، عقیدے یا مسلک کی تفریق کے بغیر تمام شہریوں کے مساوی حقوق کے لیے کھڑی ہے۔
عوامی تحریک سرمایہ داری، سامراج، فوجی حکم رانی، آمریت، دہشت گردی، بدعنوانی، نسل پرستی، صنفی امتیاز اور مذہبی تعصب کے سخت خلاف ہے۔ تحریک نے سندھ کی تقسیم کی مخالفت کرتے ہوئے اس کے خلاف ’’محبت سندھ ریلی‘‘ (سندھ دھرتی سے محبت اور تقدس) کا انعقاد بھی کیا تھا۔ اسی عرس کا کمال ہے کہ کراچی میں دو بڑے سیاسی اتحاد پی پی ایم اور این ڈی اے بھی آپس میں مل گئے ان دونوں بڑے سیاسی اتحادکی تفصیل انشاء آئندہ چند روز میں لکھوں گا۔
………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔