2005ء کے تباہ کن زلزلے کے بعد سعودی عرب نے آزاد کشمیر میں یونیورسٹی تعمیر کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سعودی عرب کو ایک نئی یونیورسٹی قیام کے لیے درخواست کی جاتی…… لیکن اس کے برعکس ان سے آزاد کشمیر یونیورسٹی کے کیمپس کے لیے کہا گیا۔
کیمپس کے لیے جگہ مظفرآباد شہر سے 22 کلومیٹر دور چھتر کلاس کے مقام پر منتخب کی گئی۔ تعمیراتی عمل بے حدتاخیر کا شکار رہا…… لیکن آخرِکار 2020ء میں یونیورسٹی کا نو تعمیر شدہ کیمپس ’’آزاد کشمیر یونیورسٹی‘‘ کے حوالے کر دیا گیا…… اور بعض شعبہ جات جولائی 2020ء میں یہاں منتقل کر دیے گئے۔
اب تک یونیورسٹی کے درجن سے زاید شعبہ جات اس نو تعمیر شدہ ’’کنگ عبداللہ کیمپس‘‘ میں منتقل کیے جاچکے ہیں۔ سعودی امداد سے تعمیر کیا جانے والا یہ کیمپس خوب صورتی اور وسعت میں بے مثال ہے…… لیکن اس کے باوجود یہ آزاد کشمیر یونیورسٹی کو آگے لے کے جانے کی بجائے اس کی مسلسل تنزلی کا سبب بن رہا ہے۔
’’کنگ عبداللہ کیمپس‘‘ میں منتقل ہونے والے تمام شعبہ جات میں نئے داخلے گذشتہ سال کی نسبت 50 فی صد کم ہوچکے ہیں۔ کیمپس میں معمولی دیکھ بھال کے کام کے لیے کوئی بندوبست موجود نہیں۔
950 میگاواٹ کے نیلم جہلم پروجیکٹ کے بالکل متصل ہونے کے باوجود ’’کنگ عبداللہ کیمپس‘‘ میں تاحال بجلی کا مناسب انتظام موجود نہیں۔ انٹرنیٹ تاحال دستیاب نہیں…… لیکن اس کے باوجود تقریباً دو سال سے ’’کنگ عبداللہ کیمپس‘‘ میں یونیورسٹی اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے…… جس کا منطقی نتیجہ نئے داخلوں کی کمی کی شکل میں میں سامنے آیا ہے۔
قارئین! اگر مستقبل میں حالات یوں ہی رہے، تو نئے داخلے مزید کم ہونے کی توقع ہے۔
اس طرح وہ شعبہ جات جو یونیورسٹی کے قیام کے ساتھ ہی یونیورسٹی کا حصہ بنے، کم داخلوں کے سبب ان کا قایم رہنا بھی سوالیہ نشان بن چکا ہے۔
’’کنگ عبداللہ کیمپس‘‘ کے موجودہ مقام پر تعمیر ناقص منصوبہ بندی کا بدترین مظاہرہ ہے۔ کسی ایک فرد کی طرف سے یہ کہا گیا کہ مظفر آباد شہر فالٹ لاین پر ہے، تو اس بنیاد پر یونیورسٹی کو 22 کلومیٹر دور منتقل کر دیا گیا…… لیکن یونیورسٹی کے لوازمات کے بارے میں کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ نہ تو یونیورسٹی کو پارکنگ دستیاب ہے، نہ بجلی، نہ پانی کا مناسب انتظام ہے اور نہ اس بات کو ملحوظِ خاطر رکھا گیا ہے کہ ہزاروں طلبہ کو روزانہ مظف رآباد سے کنگ عبداللہ کیمپس کیسے پہنچایا جائے گا؟
شعبہ جات کی خوب صورت عمارات کو اگلے 10، 15سال کی ضروریات کے مطابق ڈیزاین نہیں کیا گیا۔ اتنی بڑی عمارات کے باوجود مقصد کے تحت بنے کلاس رومز کی کمی ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس بات کا بھی کوئی دھیان نہیں رکھا گیا کہ اتنی بڑی عمارات کی دیکھ بھال کا کیا بندوبست ہوگا؟
جہاں کہیں کوئی چھوٹا بڑا نقص پایا گیا، یونیورسٹی انتظامیہ اسے درست کرنے کی صلاحیت سے مکمل طور پر قاصر ہے…… اور کیمپس کے مسایل تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔
’’کنگ عبداللہ کیمپس‘‘ میں درس و تدریس کا عمل شروع کیے ہوئے 20 ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے…… لیکن تاحال بجلی کا کنکشن غیر قانونی ہے…… جب یہاں قانونی کنکشن دستیاب ہو جائیں گے، تو شاید یونیورسٹی کے اپنے مالی وسایل صرف بجلی کا بل ادا کرنے کے لیے ناکافی ہوجائیں۔
بڑی عمارات اور بڑا انفراسٹرکچر یقینا زیادہ بجلی صرف کرے گا…… جب کہ شعبہ جات میں داخلوں میں کمی کا رجحان ہے…… جس سے یہ خدشہ پیدا ہو رہا ہے کہ شاید فیس کی مد میں وصول شدہ رقم بجلی بل کی ادائی کے لیے کم پڑ جائے۔
یونیورسٹی تسلسل کے ساتھ مختلف کالجوں کو بی ایس پروگرام کے لیے اجازت دیے جا رہی ہے…… جہاں بی ایس کے لیے فیکلٹی موجود ہی نہیں۔ یونیورسٹی ایسا کرنے پر اس لیے مجبور بھی ہے کہ اگر یہ یونیورسٹی الحاق نہیں دے گی، تو کالجز باقی 4 یونیورسٹیوں میں سے کسی سے الحاق کرلیں گے۔ ان الحاق شدہ کالجوں میں سے اکثر کے پاس مطلوبہ فیکلٹی موجود ہی نہیں، جو بی ایس پروگرام کو پڑھا سکے…… لیکن مقابلے کی دوڑ میں وہ ایسا کرنے پر مجبور ہیں۔یہ الحاقی کالجوں اور یونیورسٹیوں کے لیے ایک انوکھا چیلنج لا رہے ہیں۔
سرکاری کالج کی فیس یونیورسٹی کے مقابلے میں بہت کم ہے…… اور کالج شہر کے اندر واقع ہیں…… جہاں سفری اخراجات اور وقت دونوں کی بچت ہے۔ اس لیے یہ کالج طلبہ کے لیے زیادہ دل کشی کا سبب ہیں…… جس کے سبب یونیورسٹی کے شعبہ جات میں داخلوں کی تعداد میں کم ہوتی جا رہی ہے۔ سستی تعلیم کے چکر میں طلبہ معیاری تعلیم سے محروم ہوتے جا رہے ہیں……جب کہ یونیورسٹی اپنے ریونیو میں کمی کے سبب معیار کو برقرار رکھنے میں ناکام ہوتی جا رہی ہے۔
یونیورسٹی میں سیمینار ، کانفرنس اور باقی ہم نصابی سرگرمیوں کے لیے فنڈز ناپید ہوچکے ہیں۔ شعبہ جات کے پاس لایبریری اور لیبارٹری وغیرہ کے لیے فنڈ دستیاب نہیں۔اس طرح کالج اور یونیورسٹیاں دونوں تعلیمی معیار کی تباہی کے حصے دار بنتے جا رہے ہیں۔
آزاد کشمیر یونیورسٹی کا ’’کنگ عبداللہ کیمپس‘‘ میں وجود اس سارے تنزل کی رفتار کو مزید تیز کرتا ہے۔ اس دور دراز کیمپس کے سبب یونیورسٹی طلبہ کی کی مناسب تعداد کو مایل کرنے سے قاصر ہے اور وہ شعبہ جات جو شروع دن سے یونیورسٹی کا حصہ ہیں…… وہ بھی تنزل کا شکار ہو رہے ہیں۔ دوسری طرف آزادکشمیر یونیورسٹی کا ’’کنگ عبداللہ کیمپس‘‘ میں وجود کیمپس کے خوب صورت انفراسٹرکچر کے لیے بھی تباہی کا سبب بن رہا ہے۔ اس لیے کہ یونیورسٹی کے پاس اس خوب صورت کیمپس کو بحال رکھنے کے لیے وسایل ہی دستیاب نہیں۔ چناں چہ کیمپس کی عمارات مسلسل انحطاط کا شکار ہو رہی ہیں۔
قارئین! ناقص پلاننگ کے سبب ’’کنگ عبداللہ کیمپس‘‘ بجلی کے استعمال میں انتہائی غیر ضروری ثابت ہوگا۔ یونیورسٹی کے حالات کو بہتر بنانے کے لیے ’’کنگ عبداللہ کیمپس‘‘ میں قایم شعبہ جات کو یہاں موجود انفراسٹرکچر کے مطابق مالی وسایل مہیا کیے جانا انتہائی ضروری ہے…… تاکہ طلبہ کو تمام جدید سہولیات میسر ہوں…… اور نہ صرف آزادکشمیر بلکہ پاکستان سے بھی طلبہ کو اس یونیورسٹی کی طرف مایل کیا جاسکے۔
موجودہ صورتِ حال کا دوام یونیورسٹی اور کنگ عبداللہ کیمپس دونوں کے لیے تنزل و انحطاط کا سبب ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ہر شعبے کے پاس اتنے مالی وسایل موجود ہوں کہ وہ یہاں ہر وہ سہولت فراہم کرسکیں جن سے پاکستان میں کسی اچھی یونیورسٹی کے طلبہ استفادہ کرتے ہیں۔ وگرنہ اس کے علاوہ دوسرا ممکنہ آپشن یہ ہے کہ ’’کنگ عبداللہ کیمپس‘‘ اور ’’آزاد کشمیر یونیورسٹی‘‘ دونوں کے مفاد میں ’’کنگ عبداللہ کیمپس‘‘ کو آزاد کشمیر یونیورسٹی سے واپس لیا جائے، اور اس کے متبادل کے طور پر یونیورسٹی کو چہلہ کیمپس کے اندر کثیر منزلہ عمارت بنا کر دی جائے…… جس میں اس کے شعبہ جات آسانی سے سما سکیں…… جب کہ ’’کنگ عبداللہ کیمپس‘‘ کو الگ یونیورسٹی کا درجہ دے کر یہاں ’’ووکیشنل یونیورسٹی‘‘ یا کوئی اور پیشہ ورانہ یونیورسٹی شروع کی جائے…… جس کے لیے سارے انسانی وسایل نئے ہایر کیے جائیں۔ وگرنہ موجودہ صورتِ حال کا تسلسل ’’آزاد کشمیر یونیورسٹی‘‘ اور ’’کنگ عبداللہ کیمپس‘‘ دونوں کے لیے شدید انحطاط کا سبب بنے گا۔
………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔