پچھلے کئی سال سے شہر قائد دہشت گردی کی لپیٹ میں تھا۔قتل، بھتہ، غصب اورچوری وغیرہ روز مرہ کا معمول بن چکے تھے۔ اختیارات ملنے کے بعد رینجرز نے پولیس کی مدد سے شہر کو دہشت گردی کے ناسور سے پاک کرنے کا عزم لے کر کارروائی شروع کی، جس کے نتیجے میں اس قسم کی وارداتوں میں واضح کمی آئی۔لیکن پچھلے کچھ دنوں سے کراچی کے علاقے گلستان جوہر میں ایک نئی قسم کی واردات نے جنم لیا ہے ،جس میں ایک چاقو بردار گروہ موٹر سائیکل پر سوار ہو کر راہ چلتی خواتین پر چاقو سے وار کر تا ہے۔پولیس پہلے سے ہی متحرک ہے لیکن مذکورہ گروہ کچھ اس طرح کی صفائی سے کام کرکے غائب ہو جاتا ہے کہ اسے پکڑنا تو دور، پہچاننا بھی مشکل ہے ۔
یوں گروہ کے ارکان پولیس کو گویا چیلنج کر رہے ہیں کہ اگر پکڑ سکتے ہو تو پکڑ کر دکھاؤ۔پولیس بھی اس کوشش میں ہے کہ ملزمان اور ان کے مقصد کا پتہ لگا سکے، لیکن اب تک انہیں کوئی ایسا سراغ نہیں ملا کہ جس کی مدد سے وہ اصل مجرمان تک پہنچ سکے ۔شہر میں ایک بار پھر خوف کا سما ہے ۔عورتوں کا گھر سے باہر نکلنا ڈراؤنا خواب بن چکا ہے ۔اس قسم کی واردات کے پیچھے کسی دہشت گرد تنظیم کا ہاتھ ہو سکتا ہے جو شہر میں اپنی دہشت پھیلانا چاہتے ہیں۔اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ اس کے بعد کسی بڑی تخریب کاری کا سوچ رہے ہو۔اگر خدا نہ خواستہ وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہوجا تے ہیں، تو وہ دن دور نہیں کہ کراچی ایک بار پھر اس قسم کے ناسور کی لپیٹ میں ہوگا اور ا سے دہشت گردی کی تاریکی میں دوبارہ دھکیلا جائے گا۔وہ کراچی کہ جس میں لوگوں کا جینا محال ہوجاتا ہے اور کام کاج تو دور کی بات، لوگ گھر سے نکلنے سے بھی کتراتے ہیں۔اس طرح کے واقعات قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ جو اب تک کی گئی نو وارداتوں سے بھی کچھ سراغ حاصل کرنے میں ناکام نظر آرہے ہیں۔