قارئین، تیل کی قیمتوں میں اضافہ کیا جاتا ہے، تو جواب دیا جاتا ہے کہ یہ عالمی منڈی کا مسئلہ ہے۔ درست ہے ایسا ہی ہے…… لیکن کیا حکومت کے ترجمان یہ بھول گئے ہیں کہ جب پچھلے ادوار میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ کیا جاتا تھا، تو عمران خان شدید احتجاج کیا کرتے تھے۔ کئی بار ایسا بھی ہوا کہ ’’عمران خانی احتجاج‘‘ کی بدولت حکومتِ وقت قیمتوں میں اضافہ واپس لیتی تھی۔ کیوں کہ تب خان ’’ہیرو‘‘ تھے۔ سڑکوں پر عوام کو نکالنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔
تیل کی قیمتوں میں اضافے پر عمران خان کے احتجاجی ٹویٹس اب بھی بہ طورِ ثبوت زیرِ گردش ہیں۔ اب جب کہ وہ خود وزیرِ اعظم بن گئے ہیں، تو سب کچھ اسی طرح کر رہے ہیں جس پر اگلوں کو ملامت کیا کرتے تھے۔
واقعی اقتدار انسان کو ’’ایکسپوز‘‘ کرتا ہے۔ پورا ملک مہنگائی کی وجہ سے چیخ رہا ہے…… ماسوائے سیاست دانوں کے…… اور ان کے اندھے مقلدوں کے۔ تحریکِ انصاف کے جنونی ورکرز فوراً یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ مہنگائی پوری دنیا میں ہے…… مگر یہ نہیں بتاتے کہ باقی دنیا میں مزدور کی دیہاڑی کتنی ہے؟ ایک عرصہ سے بجلی کے بلوں میں ’’فیول پرایس ایڈجسٹمنٹ‘‘ کے نام پر بھتا لیا جا رہا ہے۔ کوئی پوچھنے والا ہے نہ کسی حکومتی ترجمان کے ساتھ قوی دلیل ہی ہے۔ وہ صرف یہ کہہ کر جان چھڑا لیتے ہیں کہ بجلی کے مہنگے معاہدے پچھلی حکومتوں نے کیے ہیں…… جن کو ہم بدل نہیں سکتے۔ چلو یہ بات بھی مان لیتے ہیں…… لیکن خیبر پختون خوا جہاں ضرورت سے زیادہ سستی پن بجلی پیدا ہوتی ہے، تو یہاں کے لوگوں سے "FPA” کے نام پر بھتا کیوں لیا جا رہا ہے؟
کئی ہفتوں سے اس بھتے کے خلاف لکھتا چلا آ رہا ہوں۔ آج تک کسی انصافی دوست نے تسلی بخش جواب نہیں دیا۔
بہرحال اب اپوزیشن بھی حکومت جیسی بن چکی ہے۔ ہر پارٹی اپنی ڈفلی اپنا راگ کے مصداق دکھائی دے رہی ہے۔ مہنگائی کے خلاف صرف سوشل میڈیا پر احتجاج دیکھنے کو ملتا ہے۔ وگرنہ اپوزیشن قوم کے ساتھ مخلص ہو، تو صرف مہنگائی کے معاملے پر شہرِ اقتدار میں دھرنا دے کر بیٹھ جائیں۔ پھر دیکھتے جائیں کہ کتنی چابُک دستی سے حکومت قیمتیں کنٹرول کرتی ہے۔ پھر نہ عالمی منڈی کا رولا ہوگا اور نہ کرونا کا رونا۔
پاکستانیوں کی بدقسمتی ہے کہ اب کی بار ان کو حکومت اور اپوزیشن دونوں ’’مفاد پرست‘‘ ملے ہیں۔ پچھلے دور میں عمران خان نے دھاندلی کے خلاف ملکی تاریخ کا طویل ترین دھرنا دیا تھا۔ اب آج کی اپوزیشن والے بھی دھاندلی کے خلاف احتجاج کرتے چلے آ رہے ہیں۔ تب بھی کسی نے عوامی حقوق کے لیے احتجاج نہیں کیا تھا…… اور آج بھی کوئی پارٹی اس حوالے سنجیدہ نظر نہیں آ رہی۔
یہ سب باتیں تو اپنی جگہ…… لیکن پچھلے ہفتے وفاقی وزیرِ اطلاعات نے ایک اور خبر سنائی…… جس کی رو سے رواں ہفتوں میں مرکز اور پنجاب کی کابینہ میں مزید توسیع ہوگی۔ ذرائع کے مطابق اتحادیوں اور ’’بیک بنچرز‘‘ کو خوش کرنے کے لیے مزید وزارتوں کا اضافہ کیا جائے گا۔
یہ مت بھولیے کہ حکومت سے پہلے عمران خان کہا کرتے: ’’اگر ہمیں حکومت مل جاتی ہے، تو صرف 15 رکنی کابینہ ہوگی!‘‘
لیکن جب حکومت ملی، تو جہازی سایز کابینہ تشکیل دے دی گئی اور اب اس میں مزید اضافے کی نوید قوم کو سنائی جا رہی ہے۔ اب خاں صاحب سے سوال یہ ہے کہ تیل عالمی منڈی سے نتھی ہے…… اور کورونا نے عالمی معیشت کی مت مار دی ہے…… لیکن کیا کابینہ میں توسیع بھی عالمی معاملہ ہے؟ کیا یہ بھی بین الاقوامی تقاضا ہے؟ یہ بھی آئی ایم ایف کی شرط ہے یا پھر امریکہ کا دباو ہے؟ کچھ تو خوفِ خدا کریں۔ اگر عالمی معاملات اختیار سے باہر ہیں، تو کابینہ میں توسیع کرنے کی بجائے مزید کمی کرنا تو آپ کے اختیار میں ہے۔ پھر اس میں بے اعتنائی کیوں؟
خاں صاحب! آپ کو معلوم ہے وزرا، وزرائے مملکت اور پارلیمانی سیکرٹریز کی یہ فوج ظفرِ موج عوام کو کتنے میں پڑتی ہے؟ جب کہ کارکردگی یہ ہے کہ وزارتِ خزانہ، خارجہ اور دفاع جیسی اہم وزارتیں بھی پہلے دس کامیاب وزارتوں کی فہرستوں میں جگہ نہ بناسکیں۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ تیل اور بجلی کی قیمتوں میں کمی نہیں کرسکتے یا اضافہ کرنے سے انکار نہیں کرسکتے…… تو کم از کم کابینہ میں تو مزید اضافہ نہ کریں…… تاکہ قوم جان لیں کہ حکومت کم از کم عیاش اور فضول خرچ نہیں۔
آخری تجزیے میں یہ باآسانی کہا جاسکتا ہے کہ عوام کے خلاف حکومت اور اپوزیشن ایک ہی ڈرامے کا حصہ ہیں۔ بس ہر ایک کا کردار الگ الگ ہے۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔