شیعہ سُنی عقاید اور ملکِ عظیم

آج کل ایک لطیفہ سوشل میڈیا کی زینت بنا ہوا ہے کہ ایک شخص کو پیچش کی بیماری تھی۔ وہ حکیم صاحب کے پاس گیا۔ محترم حکیم نے دوا دی، تو مریض کے مرض میں اِضافہ ہوگیا۔ جب لواحقین نے حکیم صاحب کو آگاہ کیا، تو حکیم نے کہا، فکر کی کوئی بات نہیں۔ میری دوا سے مریض کے اندر موجود زہریلے مادے خارج ہو رہے ہیں۔ یوں اسے مزید دوا دی۔ اُس سے مرض اور بڑھ گیا۔ پھر حکیم سے شکایت کی گئی اور حکیم کا جواب پھر وہی رہا۔ اس طرح شکایات بڑھتی گئیں، ساتھ میں مرض بھی بڑھتا گیا…… اور دوا کی مقدار بھی۔ پھر منطقی انجام یہ ہوا کہ مریض اﷲ کو پیارا ہوگیا۔ یوں جب حکیم کو اطلاع دی گئی، تو حکیم نے پیغام دیا کہ اس کے آنے تک دفن نہ کیا جائے۔ حکیم صاحب تشریف لائے۔ میت کا معائینہ کیا اور ایک لمبی سانس خارج کرکے مکمل احترام سے عربی لہجے میں کہا: ’’شکر الحمدﷲ!‘‘ وارثین نے کہا، ’’حکیم صاحب ایک تو آپ نے دوا غلط دی، جس سے ہمارا رشتہ دار فوت ہوگیا اور پھر شکر اس طرح کر رہے ہیں جیسے مریض صحت مند ہوگیا ہو۔‘‘ حکیم صاحب نے اپنے کل علم کو جمع کیا اور فرمایا: ’’احمقو! موت کا ایک دن معین ہے، جس کو دوا روک سکتی ہے اور نہ حکیم۔ شکر اس بات کا کرو کہ تمھارا مریض تمام زہریلے مادے خارج کرکے بالکل پاک ہو کر فوت ہوا۔‘‘
عموماً لوگ اس لطیفہ کو موجودہ حکومت کے سر تھوپ کر مذاق اُڑا رہے ہیں…… لیکن مَیں نے جب اسے پڑھا، تو میرے ذہن میں پاک کرکے شہید کروانے والے وہ جاہل مفاد پرست اور انسانیت و اسلام دشمن لوگ آگئے کہ جنھوں نے ہمارے معاشرے میں فرقہ واریت کو بہت پختہ کر دیا ہے…… اور ان کی ظالم اور مفاداتی فطرت اب بھی مطمئن نہیں۔ ہم نے اس جانب پہلے بھی اربابِ اختیار کو متوجہ کیا ہے کہ فرقہ پرستی کا ناسور اب محض کچھ جاہل مولویوں کے ہاتھ نہیں…… بلکہ اب اس میں بین الاقوامی سیاست داخل ہوچکی ہے…… اور جو لوگ خواہ وہ مقامی ہوں یا بین الاقوامی…… جب بھی ہمارے معاشرے میں افراتفری اور انارکی پھیلانا چاہتے ہیں، تو ان کے لیے سب سے آسان طریقہ فرقہ واریت ہے۔ خاص کر شیعہ سنی اختلافات کو استعمال کرنا بہت ہی آسان ہے۔ ان طاقتوں نے دونوں طرف سے بہت سے کرایہ کے ملاؤں کو اپنے ’’پے رول‘‘ پر رکھا ہوا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ اس میں ہمارے دشمن تو ہیں ہی…… لیکن ہمارے برادر اسلامی ممالک بھی فایدہ اٹھاتے ہیں…… جن میں سے سرِ فہرست سعودی عریبیہ اور پھر حسبِ توفیق اسلامی جمہوریہ ایران شامل ہیں۔
ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم برادر اسلامی ممالک کو یہ بات سمجھائیں کہ جناب! اس سے پرہیز کریں۔ کیوں کہ انہوں نے اپنے ممالک میں تو اس آگ کو کنٹرول کیا ہوا ہے۔ مثلاً ایران کا پورا جنوب سنی مکتبہ فکر کا ہے اور سعودیہ کا مشرقی ریجن سارا شیعہ جعفری مکتب فکر رکھتا ہے…… لیکن آپ نے کبھی یہ نہ سنا ہوگا کہ وہاں مسلک کی بنیاد پر خون خرابا ہو رہا ہے…… لیکن ہمارے ہاں یہ خون خرابا ہوتا ہے…… اور بے شک اس میں ہمارے دشمنوں کے ساتھ ہمارے دوستوں کی بھی مہربانی ہے۔
قارئین، یہ بات اتنی واضح اور حقایق پر مبنی ہے کہ ہم بہت اعتماد اور دلیل کے ساتھ ان کو سمجھا سکتے ہیں اور ان کو یہ واضح پیغام دے سکتے ہیں کہ آپ کا بھائی چارہ اور دوستی اپنی جگہ لیکن اگر اس معاملے پر آپ ہمیں معاشرتی طور پر کھوکھلا کرتے ہیں، تو ہم آپ کو برادر نہیں مان سکتے۔
یہاں عوام کا بھی فرض ہے کہ اپنے اپنے دایرۂ کار میں اس پر کام کریں۔ مثلاً جب مَیں سعودیہ میں یا تہران میں تھا، تو میں اپنے سعودی اور ایرانی دوستوں کو یہ بات بتایا کرتا تھا کہ آپ یہ زیادتی کر رہے ہیں۔ گو کہ ایک بہت بڑی تعداد سُنیوں کی ایران اور شیعوں کی سعودیہ میں ہے…… لیکن وہ جغرافیائی طور پر مختلف علاقوں میں مقیم ہیں۔ پھر مذکورہ دونوں ممالک میں معاشرتی فیبرک ایسا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے خاندانی طور پر دور ہیں۔ لیکن ہمارا نظام بہت مختلف ہے۔ یہاں شیعہ سنی ایک ایک گاؤں میں مل جل کر رہتے ہیں۔ مَیں بذاتِ خود ایسے کتنے ہی خاندانوں سے واقف ہوں کہ جہاں شوہر شیعہ ہے اور بیگم سُنی…… یا شوہر سُنی ہے اور بیگم شیعہ…… یا ایک بھائی شیعہ اور ایک سُنی۔ سو ہم یہ نفرت کسی صورت برداشت نہیں کرسکتے۔ اگر یہ آگ بھڑکتی ہے، تو پھر گھر گھر مسایل پیدا ہوسکتے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ ہماری مذہبی و سماجی امور کی وزارتوں کو بھی اپنا کام کرنا چاہیے۔ سکولوں اور مدرسوں کے سلیبس میں اس طرح کی تبدیلیاں جائیں کہ معاشرے میں رواداری اور برداشت کا ماحول پیدا ہو۔ پھر حکومت جہاں ایک طرف ہمارے علما کو سخت کنٹرول کرے۔ محرم و میلاد سے لے کر جمعہ کے خطباتِ دعا کی تقریبات تک کو چیک کرے…… اور جہاں کوئی مولوی کوئی متنازعہ بات کرے…… وہاں فوراً قانون کو حرکت میں لایا جائے۔ فوری طور پر ایسے شریر عناصر کو کچل دیا جائے۔
میرے نذدیک سب سے اہم بات جو اس کو عوامی طور پر ختم کرسکتی ہے، شیعہ سنی عقاید، ان کی شروعات کی تاریخ اور ان کے درمیان بنیادی اختلافات کو باقاعدہ قومی سلیبس کا حصہ بنایا جائے۔ آخر اس میں حرج ہی کیا ہے؟ کیوں کہ اسلام کے بنیادی عقاید میں صرف مسئلۂ امامت بنیادی طور پر اختلافی ہے…… یعنی امامت پر ایمان تقریباً دونوں طرف ہے۔ بس فقۂ جعفری یا اس سے وابستہ عقاید کے نزدیک یہ باقاعدہ ایک خدا کی طرف سے تفویض شدہ عہدہ ہے…… جب کہ دوسرے سُنی مکتبۂ فکر میں یہ اﷲ کی طرف سے عطا شدہ کوئی عہدہ نہیں۔ البتہ وہ بھی آیمۂ اہلِ بیت کی فضیلت، کردار اور علم کو مکمل دل سے تسلیم کرتے ہیں۔ باقی تو بس کچھ تاریخی واقعات کی اپنی اپنی تشریح ہے…… یا عبادات کے طریقۂ کار کی اپنی اپنی توجیح…… جو کہ محض ان دو بڑے فرقوں کا مسلہ نہیں…… بلکہ بہت سی چیزوں میں شیعہ سکول کے اندر بھی مختلف نظریات ہیں۔
اسی طرح سُنی فکر میں بھی مختلف آرا ہیں۔ آپ اس کو سیلیبس کا حصہ بنانے سے پہلے بے شک متعلقہ مسالک کے علما کو بھی ’’بورڈ‘‘ میں دعوت دیں…… اور ان کی آرا کی روشنی میں سیلیبس کو تشکیل دیں۔ اس کا فایدہ یہ ہوگا کہ مولوی کم از کم عام لوگوں کو سطحی چیزوں میں الجھا کر آپس میں نفرتوں کی تجارت کو فروغ نہ دیں سکیں گے۔ کیوں کہ عام آدمی کو چوں کہ دوسروں کے نظریات یا عقاید کا اتنا شعور ہی نہیں ہوتا…… سو مولوی صاحب خود ہی کوئی غیر معروف اور شاید فرضی کتاب لے کر اس کا حوالہ پورے اعتماد سے اس طرح دیتے ہیں کہ سننے والا جذباتی طور پر بہت غصہ میں آجاتا ہے…… اور وہ دوسروں کو خواہ مخواہ مرتد سمجھ کر اس کی زندگی کے درپے ہو جاتا ہے۔
مجھے یہ بات بھی سمجھ نہیں آتی کہ مختلف موضوعات پر جب بین المسالک علما اور عوام کے درمیان بہرحال ایک علمی اختلاف ہے…… اور یہ اختلافات کیا ہیں؟ اس سے عام آدمی منفی سوچ کے ساتھ آگاہ بھی ہے، تو پھر اس کو عوام کے سامنے سرکاری سطح پر مثبت انداز میں بیان کرنے میں کیا امر مانع ہے…… یا اس کا کیا نقصان ہے؟
مثال کے طور پر کچھ تاریخی واقعات ہیں کہ جن کو کچھ غیر ملکی ایجنٹ اور مفاد پرست عناصر جذباتی طور لوگوں کے درمیان نفرت کے کاروبار کے لیے استعمال کرتے ہیں، تو آپ ان موضوعات کو سلیبس کا حصہ بنا کر حقایق کی روشنی میں عوام کے سامنے کیوں نہیں رکھ سکتے؟ مثلاً بعد از رسولؐ خلافت کے معاملات ہوئے اور خلفہ راشدینؓ میں سے تین خلفا غیر فطری طریقہ سے شہید کیے گئے۔ خاص کر چوتھے خلیفہ کے دور میں انارکی زیادہ ہوگئی اور ریاست دو متوازی حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ اب اس پر آج کے نہ صرف مسالک کا چورن بیچنے والے مختلف رائے دیتے ہیں…… بلکہ بہت سے مورخین اور اس علم کے ماہرین بھی مختلف رائے رکھتے ہیں۔ سو آپ کے حوالے سے یہ تمام رائے درج کریں اور بچوں کو بتائیں کہ نظریہ الف یہ رائے رکھتا ہے، جب کہ نظریہ بے یہ اور نظریہ جیم ان دونوں سے ہٹ کر یہ رائے رکھتا ہے، تو اس کا نقصان بالکل نہیں ہوگا…… بلکہ ہمارے بچوں کو مختلف نظریات بارے آگاہی ہوگی اور اس نظریاتی اختلاف کی وجوہات کو وہ سمجھ سکیں گے۔ اس کا منطقی نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ نفرت کی تجارت سے دور اور ان مفاد پرست تاجروں کے ہاتھوں مزید خراب نہ ہوں گے…… مگر دکھ کی بات ہے کہ مجھ سمیت کئی لوگ اس نازک موضوع پر ہزار بار حکومت کو متوجہ کرچکے…… لیکن حکومت کو اس کی بالکل پروا نہیں…… یا ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت اب بھی اس موضوع کو سنجیدہ نہیں سمجھتی۔ جب مَیں حکومت کی بات کرتا ہوں، تو اس سے مراد خالی موجودہ حکومت نہیں بلکہ ماضی کی اکثر حکومتیں ہے بلکہ آمرانہ ادوار نے تو اس کو ختم کرنے کی بجائے الٹا آبیاری کی ہے۔
سو ہماری التجا ہے کہ حکومت اس بارے سنجیدگی سے سوچے…… اور ہم تو بس گزارش ہی کرسکتے ہیں۔
…………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔