سنگار

’’سنگار‘‘ (ہندی، اسمِ مذکر) کا املا عام طور پر ’’سنگھار‘‘ لکھا جاتا ہے۔
’’فرہنگِ آصفیہ‘‘، ’’نور اللغات‘‘ اور ’’علمی اُردو لغت (متوسط) ‘‘کے مطابق دُرست املا ’’سنگار‘‘ ہے نہ کہ ’’سنگھار‘‘ جب کہ اس کے معنی ’’آراستگی‘‘، ’’بناو‘‘، ’’تزئین‘‘، ’’کنگھی چوٹی‘‘، ’’مانگ پٹی‘‘، ’’آرایش‘‘، ’’سجاوٹ‘‘ وغیرہ کے ہیں۔
نوراللغات میں کہیں پر بھی لفظ ’’سنگھار‘‘ درج نہیں ملتا۔ البتہ ’’فرہنگِ آصفیہ‘‘ میں ’’سنگھار‘‘ کی تفصیل میں درج ہے: ’’دیکھو (سنگار)‘‘ اس کا مطلب ہے کہ ’’سنگار‘‘ ہی درست املا ہے۔
رشید حسن خان کی کتاب ’’انشا اور تلفظ‘‘ (مطبوعہ ’’الفتح پبلی کیشنز‘‘، اشاعتِ دوم 2014ء) کے صفحہ نمبر 69 پر ’’الفاظ کا املا‘‘ کے زیرِ عنوان ایک مرکب لفظ ’’بناو سنگار‘‘ درج ملتا ہے۔
’’سنگار‘‘ کے ذیل میں نور و آصفیہ دونوں میں ایک محاورہ ’’سنگار کرنا‘‘ نیز دو مرکب الفاظ ’’سنگار میز‘‘ اور ’’سنگار دان‘‘بھی درج ملتے ہیں۔
دونوں ذکر شدہ لغات (آصفیہ و نور) میں ’’سولہ سنگار‘‘ درج ہے۔ صاحبِ نور نے البتہ ’’بارہ ابرن سولہ سنگار‘‘ کا حوالہ بھی دے رکھا ہے۔
اس طرح نوراللغات میں حضرتِ اختر شاہ اودھ کا یہ خوب صورت شعر بھی حوالتاً درج ملتا ہے:
آتے ہی سنگار دان مانگا
نکھری کیا کیا وہ شوخ زیبا