اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کی طرف سے دورے کی دعوت دی گئی، تو مَیں نے فوری اپنی آمادگی کا اظہار کردیا۔ پھر جیسے ہی دوستوں حافظ شفیق الرحمان، کاشف بشیر خان اور ارشاد امین کے ہمراہ لاہور سے بہاولپور پہنچے، تو بغداد الجدیدکیمپس میں ہماری رہائش کا انتظام موجود تھا۔ شفقت حسین، علامہ عاصم اور فاروق چوہان سمیت اور بھی بہت سے دوست ہم سے پہلے پہنچ چکے تھے۔ تعلیم دنیا کا سب سے بڑا ہتھیار ہے اور اس کے بغیر قومیں کبھی ترقی کی منازل طے نہیں کرتیں۔ آج ہم پاکستان میں تعلیم کی بات کریں، تو ہماری یونیورسٹیاں اعلا تعلیم کے ادارے ہیں، جہاں ایک طالب علم اپنی مکمل تعلیم مکمل کرتا ہے اور یہ تب ہی ممکن ہوتا ہے جب ایسے ادارے موجود ہوں۔
ایک عرصہ ہوا پاکستان میں نئی یونیورسٹی نہ بن سکی۔ کیوں کہ سرسید احمد خان پیدا ہوا اور نہ نواب سر صادق محمد خان عباسی۔ اس کے باوجود ہر دور میں کوئی نہ کوئی ایسا شخص زرور آتا ہے جس کی وجہ سے کوئی نہ کوئی ایسی تبدیلی رونما ہو تی ہے جس کا فائدہ آنے والی نسلوں کو ہوتا ہے۔
مَیں سمجھتا ہوں کہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ آج کے دور میں ڈاکٹر اطہر محبوب جیسی شخصیت موجود ہے جنہیں سر سید ثانی کہا جائے، تو بے جا نہ ہوگا۔ آپ ذرا سوچیں کہ قائد اعظم کی ولولہ انگیز قیادت میں پاکستان بن گیا جس کا فائدہ ہم آزادی کی صورت میں اٹھا رہے ہیں۔
سر سید احمد خان تعلیمی میدان میں انقلاب لائے…… جن کانظریہ تھا کہ مسلم قوم کی ترقی کی راہ تعلیم کی مدد سے ہی ہموار کی جاسکتی ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ وہ جدید تعلیم حاصل کریں اور دوسری اقوام کے شانہ بشانہ آگے بڑھیں۔ انہوں نے محض مشورہ ہی نہیں دیا…… بلکہ مسلمانوں کے لیے جدید علوم کے حصول کی سہولتیں بھی فراہم کرنے کی پوری کوشش کی۔ سائنس، جدید ادب اور معاشرتی علوم کی طرف مسلمانوں کو راغب کیا۔ انگریزی کی تعلیم کو مسلمانوں کی کامیابی کے لیے زینہ قرار دیا…… تاکہ وہ ہندوؤں کے مساوی و معاشرتی درجہ حاصل کرسکیں۔
1859ء میں سرسید نے مراد آباد اور 1862ء میں غازی پور میں مدرسے قائم کیے۔ ان مدرسوں میں فارسی کے علاوہ انگریزی زبان اور جدید علوم پڑھانے کا بندوبست بھی کیا گیا۔ 1875ء میں انہوں نے علی گڑھ میں ایم اے اُو ہائی سکول کی بنیاد رکھی…… جو بعد ازاں ایم اے اُو کالج اور آپ کی وفات کے بعد 1920ء میں یونیورسٹی کا درجہ اختیار کرگیا۔ ان اداروں میں انہوں نے آرچ بولڈ آرنلڈ اور موریسن جیسے انگریز اساتذہ کی خدمات حاصل کیں۔
1863ء میں غازی پور میں سر سید نے سائنٹفک سوسائٹی کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔ اس ادارے کے قیام کا مقصد مغربی زبانوں میں لکھی گئیں کتب کے اُردو تراجم کرانا تھا۔ بعد ازاں 1876ء میں سوسائٹی کے دفاتر علی گڑھ میں منتقل کر دیے گئے۔
سر سید نے نئی نسل کو انگریزی زبان سیکھنے کی ترغیب دی…… تاکہ وہ جدید مغربی علوم سے بہرہ ور ہوسکے۔ یوں دیکھتے ہی دیکھتے مغربی ادب سائنس اور دیگر علوم کا بہت سا سرمایہ اُردو زبان میں منتقل ہوگیا۔ سوسائٹی کی خدمات کی بدولت اُردو زبان کو بہت ترقی نصیب ہوئی۔ 1886ء میں سر سید احمد خاں نے ’’محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس‘‘ کے نام سے ایک ادارے کی بنیاد رکھی گئی۔ لاہور میں اسلامیہ کالج کراچی میں سندھ مدرسۃ الاسلام، پشاور میں اسلامیہ کالج اور کانپور میں حلیم کالج کی بنیاد رکھی…… مگر اس کے باوجود انہیں شدید تنقید کا نشانہ بھی بنا جاتا رہا اور ایسے لوگ تنقیدپر توجہ دیے بغیر اپنا کام جاری رکھتے ہیں۔
اسلامیہ یونیورسٹی کی بات کریں، تو نواب سر صادق محمد خان عباسی (پنجم) 1925ء میں اس کی بنیاد نہ رکھتے، تو آج جنوبی پنجاب کے عوام کا کیا حشر ہوتا! کیوں کہ مقامی، قومی اور بین الاقوامی لحاظ سے زندگی سنوارنے کا سب سے زیادہ توجہ طلب شعبہ ’’تعلیم‘‘ ہی ہے۔ اسی کی درستی پر ہماری سلامتی، ترقی و استحکام کا انحصار ہے۔ اس کے وی سی جناب ڈاکٹر اطہر محبوب نہ ہوتے، تو آج اس یونیورسٹی کے مزید کیمپس نہ بنتے…… اور اس علاقے کے بچے اعلا تعلیم کے لیے ملتان، لاہور، اسلام آباد یا کسی اور بڑے شہر کا رُخ کر رہے ہوتے۔ وہ بھی خوشحال گھرانوں کے بچے غریب اور محنت کشوں کی اولاد اعلا تعلیم کو بس ایک خواب ہی تصور کرتے…… مگرڈاکٹر اطہر محبوب، سر سید احمد خان کے مشن پر عمل کرتے ہوئے تعلیم کا دروازہ ہر کسی کے لیے کھولنا چاہتے ہیں…… تاکہ اس علاقے کے لوگ بھی آگے بڑھیں۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ جن کا نصب العین خدا اور اس کے رسولؐ کے پیغام سے منسلک ہو، وہ ناکام نہیں ہوسکتے۔ بہاولپور یونیورسٹی اب پل پھول رہی ہے۔ ایسے ہی تعلیمی ادارے ملک و معاشرے کو صالح قیادت فراہم کرنے کی فیکٹریاں ہیں۔ تبدیلی اور ترقی…… فروغِ علم سے مشروط ہے۔
آپ اندازہ لگائیں کہ قیامِ پاکستان کے وقت شرحِ خواندگی 16 فیصد تھی۔ 75 سال بعد بھی اس حوالے سے خاطر خواہ اضافہ نہ ہونا ہماری ناکامی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ حکومتی تعلیمی اداروں کا آگے نہ بڑھنا ہے…… جب کہ ’’تعلیم برائے فروخت‘‘ کا بورڈ لگا کر پرائیوٹ سیکٹر میں آنے والے کاروباری تعلیمی ادارے ہر شہر میں پہنچ گئے۔
وزیرِ اعظم عمران خان اور پنجاب کے وزیرِ اعلا سردار عثمان بزدار کی علم دوست پالیسیوں کا نتیجہ ہے کہ آج یونیورسٹیاں بھی اپنے کیمپس بڑھا رہی ہیں…… مگر ہر یونیورسٹی نہیں……! صرف وہی جہاں پر ڈاکٹر اطہر محبوب جیسے دلیر اور جرات مند افراد وائس چانسلر کے طور پر متعین ہیں…… جنہوں نے صرف ڈھائی برس میں 13 ہزار طلبہ کی تعداد پچاس ہزار تک کردی۔ نئے بلاک اور عمارتیں تعمیرکروائیں۔ یونیورسٹی بسوں کو 60 کلومیٹر دور کے علاقوں تک پھیلا دیا…… تاکہ کرایہ نہ ہونے کے باعث کسی ماں کا جگر گوشہ پڑھنے سے محروم نہ رہ سکے…… اور کیمپس کی تعداد بڑھانے کا فیصلہ بھی کیا۔ یہی ایک اچھے کپتان کی خصوصیات بھی ہیں کہ وہ جرات سے فیصلے کرے۔ کوئی بھی کپتان اس وقت تک کامیاب نہیں ہوتا…… جب تک اس کی ٹیم اس کا ساتھ نہ دے…… اور مَیں سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر اطہر کی پوری ٹیم اس وقت ان کی ولولہ انگیز قیادت میں مخالفین کے باؤنسرز پر بھی چوکے اور چھکے لگا رہے ہیں۔
کاش! باقی اداروں کے سربراہان بھی ایسے ہی کریز سے باہر آکر کھیلیں تاکہ ہم پاکستان کو صحیح معنوں میں باشعور لوگوں کا ملک بنا سکیں ورنہ جہالت تو پہلے ہی بہت ہے۔
……………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔