آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا

3 دسمبر 2021ء کو سیالکوٹ شہر میں ایک سری لنکن شہری کو بڑی بے دردی سے مارا، پیٹا اور جلایا گیا۔
مقتول ایک کمپنی میں منیجر تھا۔ قاتلوں کا الزام ہے کہ مقتول ’’توہینِ مذہب‘‘ کا مرتکب ہوا تھا۔ اس واقعے کو رونما ہوئے ہفتہ گزر چکا ہے۔ آگ تھم چکی ہے، چنگاریاں لیکن بجھی نہیں۔ اس لیے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر خبروں میں تاحال اس واقعہ کا ذکر موجود ہے۔ اس ضمن میں اب تک 100 سے زائد مشکوک افراد پکڑے جاچکے ہیں۔
قارئین، پاکستانی علما کا ایک معتبر وفد مفتی تقی عثمانی کی سربراہی میں سری لنکن قونصل خانے میں تعزیت کرنے بھی گیا تھا۔ وہاں پر میڈیا سے گفتگو میں تمام علما نے بالاتفاق اس واقعہ کو اسلام، پاکستانی قانون، آئین اور روایات کے منافی قرار دیا۔ علاوہ ازیں حکومتی، ریاستی اور عوامی سطح پر اس سانحہ پر افسوس کیا گیا۔ جنونی لوگوں کے مجمع میں سری لنکن شہری کو بچانے کی کوشش کرنے والے ملک عدنان کو وزیرِ اعظم ہاؤس بُلا کر توصیفی سند سے بھی نوازا گیا۔ اس تقریب سے خطاب میں وزیرِ اعظم نے کہا: ’’میرے ہوتے ہوئے پھر ایسا نہیں ہوگا۔ ہم آئندہ ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ ‘‘
ملک عدنان کو اگلے سال 30 مارچ کے موقع پر تمغۂ شجاعت دینے کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔
قارئین، وزیرِ اعظم کے اس اقدام سے یقیناً تشدد اور نفرت کے پجاریوں کو تکلیف تو پہنچی ہوگی۔ میرا مدعا لیکن کچھ اور ہے۔ ملکی حالات کو دیکھ کر ہم شکی مزاج ہوچکے ہیں۔ یہاں جو وعدہ کیا جاتا ہے…… وہ سراب کے مصداق ہی نکلتا ہے۔ ہمارے اس شکی مزاج ہونے کے پیچھے ریاست اور حکومت کے وہ کام نمایاں ہیں…… جنہوں نے اس شک کو تقویت دی ہے کہ دونوں پر اعتماد نہ کیا جائے۔
مَیں یہاں بطورِ مثال ’’تحریکِ لبیک‘‘ کا ذکر ضرور کروں گا۔ کیوں کہ توہینِ رسالتؐ اور توہینِ مذہب کا اب جب بھی ذکر آئے گا…… اس تحریک پر بات ضرور ہوگی۔ اس لیے کہ جب پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر کو اس کے سرکاری محافظ نے جان سے مار ڈالا، تو قتل کے الزام میں اس سرکاری نوکر کو پھانسی دی گئی اور اسی کے نتیجے میں ’’تحریکِ لبیک‘‘ کا آغاز ہوا۔ وہ سرکاری ملازم جو ڈیوٹی کے دوران میں بغیر عدالت، ثبوت اور گواہ کے ایک جیتے جاگتے انسان کے قتل کا مرتکب ہوا تھا…… وہ تحریکِ لبیک کے لیے غازی، شہید اور رول ماڈل بن گیا۔ آج کل اُس شخص کی قبر مزار کی شکل اختیار کیے دیکھی جاسکتی ہے۔ عقیدت مندوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ جس شخص کو ریاستِ پاکستان نے قتل کا مجرم ثابت کرکے پھانسی دی، تو کیسے ایک گروہ نے اس کو ہیرو اور غازی کے طور پر قبول کیا؟ حکومت نے کیسے اس کا مزار بنانے دیا؟ اس سے تو یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ریاست اور حکومت خود اس معاملے میں ’’کنفیوز‘‘ ہے۔
قارئین، اب تو حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ اس موضوع پر لکھنا اور بولنا بھی مہنگا پڑسکتا ہے۔ نجانے کون، کب، کہاں آپ پر توہینِ مذہب یا توہینِ رسالتؐ کا الزام لگا دے۔ پھر خود مدعی، وکیل ، گواہ، جج اور آخر میں جلاد بن کر بیچ چوراہے آپ کا قصہ تمام کردے!
یہ بھی یاد رہے کہ صرف نعرہ ہی اگر توہین کا لگایا گیا، تو آس پاس کھڑے تماش بین بھی مفت میں ’’غازی‘‘ بننے کے لیے آپ پر لاٹھی، پتھر اور جو ہاتھ لگے برسانے آئیں گے۔ نہ کوئی الزام لگانے والے سے ثبوت مانگے گا اور نہ اس کو کہے گا کہ قانونی راستہ اپنائے۔
سڑکوں پر فیصلے کرنے والے ’’دین کے یہ خود ساختہ علم بردار‘‘ یہ کہتے ہوئے تھکتے نہیں کہ ’’عدالتوں میں انصاف نہیں ملتا۔ اس لیے لوگ یہ کام کرتے ہیں۔‘‘ تو اس حوالہ سے جواب یہ ہے کہ اس کے لیے عدالتی نظام ٹھیک کرنے کی مہم چلائیں۔ حکومت اور ریاست کو مجبور کریں کہ انصاف کا نظام بہتر ہوجائے۔
قارئین، سوال یہ بھی بنتا ہے کہ اسلام، قرآن، حدیث یا ملکی آئین اور قانون میں کہاں لکھا ہے کہ خود ہی سب کچھ بن کر کوئی بھی فیصلہ کرے۔ فیصلہ اگر قرآن اور اسلام اور ملکی قانون کے خلاف ہو، تو آپ اسے کورٹ میں چیلنج کریں۔
اب یہ بھی تو دیکھیں ناں! نبیِ مہربانؐ نے لاش کی بے حرمتی سے منع فرمایا…… لیکن یہاں اُس نبیِ مہربانؐ کی حرمت کے نام پر لاشوں کی بے حرمتی کی جا رہی ہے۔ بے شک وہ ایک غیر مسلم سری لنکن شہری کی لاش تھی…… یا مرادن کی ایک یونیورسٹی میں توہینِ رسالتؐ کے الزام میں مارے جانے والے مشال خان کی لاش……! یہ تفصیل بہت طویل ہے…… لیکن تحریر کی تنگ دامنی آڑے آتی ہے۔ اس لیے عرض یہ ہے کہ جب تک ریاستی اداروں، نصابی مواد، نظامِ تعلیم اور عدالتی نظام میں جنگی بنیادوں پر تبدیلیاں نہیں کی جاتیں، تب تک یہ ممکن ہی نہیں کہ یہ وحشیانہ پن ختم ہوجائے۔ اس لیے کم از کم مجھے یقین نہیں کہ سری لنکن شہری کے ساتھ جو کچھ ہوا…… وہ اس سلسلے کا آخری واقعہ تھا اور آگے کسی کے ساتھ ایسا نہیں ہوگا۔ مجھے تو یقین نہیں، کیا آپ کو ہے……؟
ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا
………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔