کسی شاعر نے کیا خوب کہا تھا کہ
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
ملک کے طول وعرض میں دکھ اور سوگ کی کیفیت ہے۔ سری لنکن شہری کو جس بے دردی کے ساتھ دن دھاڑے سیالکوٹ میں جلایا گیا…… اس نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ بے رحم لوگ ویڈیو اور سلفیاں بناتے رہے…… جیسے کہ تماشا لگا ہو۔ ہر عقل مند شخص شرمندہ اور رنجیدہ ہے۔
افسوس! ایک ایسا سماج پروان چڑھ چکا ہے، جہاں انسانی جان کی حرمت کا تصور دم توڑچکا ہے۔ عزت اچھالنا تو کوئی بات ہی نہیں رہی۔ بزرگ بتاتے ہیں کہ ہم ہمیشہ سے ایسے نہ تھے۔ سماجی ناہمواریاں ضرور تھیں لیکن تشدد اور مذہب کے نام پر قتل وغارت گری کا واقعہ شاذ ہی کہیں وقوع پذیر ہوتاتھا لیکن اب یہ معمول بن چکا ہے۔ چھوٹے موٹے سیاسی، سماجی اور مذہبی اختلافات یا ذاتی عناد ایک دوسرے کو فنا کے گھاٹ اتارنے تک لے جاتے ہیں۔
یہ کرب جس سے آج ہم گزررہے ہیں، ’’دو چار برس کی بات نہیں‘نصف صدی کا قصہ ہے۔‘‘ 70ء کی دہائی میں ذواالفقار علی بھٹو کے خلاف تحریک برپا ہوئی۔ کال کوٹھری سے دانشور بھٹو نے اپنی کتاب’’اگر مجھے قتل کردیا گیا‘‘ میں لکھا: ’’میرے خلاف بننے والا اتحاد صرف میرے خلاف نہیں۔ تم ایک ایسی بھیانک نسل تیار کرنے جارہے ہو،جو آنے والے وقت میں اس ملک اور قوم کو تباہ کردے گی۔وہ نسل اسلام کے نام پر عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے سے بھی گریز نہیں کرے گی۔‘‘
بھٹو رخصت ہوا…… لیکن ان کے الفاظ حرف بہ حرف درست ثابت ہوئے۔ افغانستان میں برسوں تک معرکہ برپارہا۔ جنرل ضیاء الحق نے پورے ملک کو میدانِ جنگ میں بدل دیا۔ خیبر تا کراچی افغان مہاجرین اور مجاہدین کے قافلے رواں دواں کردیے گئے۔ پاکستان کے برعکس ایران نے انہیں ایک مخصوص علاقہ تک محدود رکھا۔ ایران، امریکہ اور عربوں کے ساتھ دشمنی کے باوجود عمومی طورپر پُرامن ملک رہا۔ اس کے برعکس اسلحہ اورگولہ بارودپاکستان کے گلی محلہ میں دستیاب ہوگیا۔ حتیٰ کہ شہریوں کو عسکری تربیت دینے والے گروہ معرضِ وجود میں آگئے۔ سیاسی جماعتوں کے اپنے اپنے مسلح ونگ منظم ہوگئے۔ مذہبی گروہ مسلح مہمات کے سرخیل بن گئے۔ پولیس اور انتظامیہ عضوئے معطل بن گئی۔ پانی سر سے گزرنے لگا، تواب کچھ برسوں سے اجتماعی شعور نے انگڑائی لی۔ مسلح گروہوں کے خلاف ریاست برسرِپیکار ہوئی اور سماج بھی کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہوگیا۔ اس کے باوجود اب بھی متشدد گروہوں کی حمایت میں بات کرنے والوں یا ان کے ساتھ کھڑے ہونے والوں کے خلاف قانون حرکت میں آتاہے اور نہ سماج ان سے اظہارِ لاتعلقی کرتا ہے۔ اس طرزِ عمل کا نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا میں ہمارا امیج ایک خطرناک ملک کا بن گیا۔ پاکستانیوں کی شناخت ایک متشدد ملک کے طور پر کی جانے لگی۔ حتیٰ کہ عرب ممالک جہاں لاکھوں پاکستانی برسرِرزوگار ہیں…… بھی خوف کھانے لگے۔ دنیا بھر کے میڈیا میں پاکستان کا نام ہنگاموں، تشدد، مذہبی منافرت اور غربت کے ساتھ شناخت کیاجانے لگا۔ عالمی رائے عامہ کے سامنے پاکستان کا تاثر بگاڑنے میں جہاں ہمارے دشمنوں نے کردار ادا کیا، وہاں اپنوں نے بھی انجانے میں ان کی بھرپور مددکی۔
سیالکوٹ کا واقعہ محض ایک اتفاق یا حادثہ نہیں۔ دوسرے مکاتبِ فکر کی مساجد جلانا، علما کو قتل کرنا، دیگر مذاہب کے چرچوں پر حملے کرنا، مندروں کو تہس نہس کرنے کے مناظر ہم سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں۔ پولیس اور انتظامیہ نے تحقیقاتی کمیٹیاں بنائیں۔ اخبارات نے اداریے اور کالم لکھے۔ ٹی وی چینلوں پر مذمتی بیانات نشر ہوئے۔ سوشل میڈیا پر شہریوں نے غم وغصے کا اظہار کیا۔ ’’ٹویٹر‘‘ پر مذمت یا اظہارِ افسوس و یکجہتی کے ٹرینڈ بھی چلے۔ کبھی کبھار مجرموں کو سزا بھی ملی۔ چند دن بعدرات گئی بات گئی کے مصداق قوم ایک نئے ہنگامہ کا سامنا کر رہی ہوتی ہے۔ کوئی نیا سیاسی طوفان اسے اپنے گھیرے میں لے چکا ہوتا ہے۔ گزرا ہوا کل فراموش کردیا جاتاہے۔ ساری توجہ تازہ ہنگامہ پر مرکوز ہوتی ہے۔ ریاستی اداروں میں طویل المیعاد منصوبہ بندی کرنے، تسلسل سے غور و فکر اور ملک کو مسائل سے نکالنے کے لیے وقت ہے اور نہ درکار استعداد۔ ہر ایک روزمرہ کے ہنگاموں میں الجھا ہوا ہوتاہے یا ذاتی اغراض کے تعاقب میں سرگرداں۔
تعلیمی ادارے خاص طور پر یونیورسٹیاں دنیا بھر میں تحقیق اور دانش کے مراکز ہوتی ہیں۔ ملکوں اور قوموں کی ترقی میں ان کا کلیدی رول ہوتاہے۔ وہ نئے نئے آئیڈیاز پیش کرتی ہیں۔ بحث ومباحثوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں لیکن ہماری یونیورسٹیوں سے خال خال ہی کوئی جوہرِ قابل نکلا۔ جو نکلا اس نے مغربی دنیا میں ٹھکانا کیا، کیوں کہ اسے یہاں کی فضا سازگار نہ آئی۔
گذشتہ تین چار برسوں سے حکومت اور اداروں کی کوشش رہی کہ ملک میں اعتدال پسندی کے کلچر کو عام کریں۔ علما و مشائخ کے ساتھ صدر، وزیراعظم اور چیف آف دی آرمی اسٹاف کی مسلسل نشستیں ہوئیں۔ علما کی بھاری اکثریت نے طاقت کے استعمال کو صرف ریاست کا حق قراردیابلکہ ایسے گروہوں سے لاتعلقی کا اظہار کیاگیا، جو پُرتشدد طریقوں سے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے عزائم رکھتے ہیں۔ اس مشق کا کچھ فائدہ بھی ہوا۔ مثال کے طور پر اقلیتوں کو سرِعام اور بغیر کسی خوف کے نشانہ بنانے کا سلسلہ کم ہوا۔ دیگر فرقوں کی عبادت گاہوں پر حملوں کا سلسلہ بڑی حد تک رُکا۔ مدارس میں بھی اعتدال پسند علما اور مشائج کا اثر و رسوخ بڑھنے لگا۔ امید تھی کہ پاکستان بتدریج ایک ایسے ملک کے طورپر ابھرے گا، جہاں شہری ایک دوسرے کے عقائد کا احترام کرتے ہیں۔ قانون ہاتھ میں نہیں لیتے۔ سیاسی اور مذہبی اختلافات انہیں دست وگریباں نہیں کرتے۔
وزیرِاعظم عمران خان نے سکھوں کے مذہبی مقام کرتار پور کو کھول کر دنیا کو ایک مثبت پیغام دیا۔ عالمی میڈیا میں پاکستان کے اس اقدام کی بہت تعریف کی گئی۔پاکستان کی شناخت بدل رہی تھی کہ سیالکوٹ کا واقعہ رونما ہوگیا۔ اب ایک عرصہ تک اس واقعہ کی گونج سنائی دیتی رہے گی۔ سری لنکن شہری کی روح ہمیں بے چین وبے کل رکھے گی۔ پاکستان کے دشمن اور حاسدین ہمارا تمسخر اڑاتے رہیں گے۔ شرق تا غرب گذشتہ دو دنوں کے اخبارات اور ٹی وی چینل سیالکوٹ کے واقعے پر کیے گئے تبصروں سے اٹے پڑے ہیں۔
اگربغیر کسی رعایت کے سیالکوٹ واقعہ میں ملوث مجرموں کو سزا ملی، تو ایسے واقعات کی رفتار سست پڑجائے گی۔ بصورتِ دیگر شہ پا کر کل کسی اور شہر میں مشتعل ہجوم آپے سے باہر ہو کر کسی اور بے گناہ کو راکھ کا ڈھیر بنا دے گا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ سیالکوٹ کے واقعے میں نہ صرف انصاف ہو بلکہ انصاف ہوتا نظر آئے۔ اس نوع کا جو بھی واقعہ ہو ریاستی ادارے بغیر کسی خوف اور لالچ کے حرکت میں آئیں۔ مجرموں کو عبرت ناک سزا دیں۔ عمومی طور پرمشتعل ہجوم پولیس والوں پر حملے کرتا ہے۔ شہریوں کی نجی املاک ہی نہیں بلکہ سرکار املاک کو بھی نذرِآتش کردیتا ہے۔ ایک مرتبہ یہ حقیقت واضح ہوجائے کہ کوئی بھی طاقت قانون توڑنے والوں کو بچا نہیں سکتی، توقانون ہاتھ میں لینے سے پہلے ہر کوئی سو بار سوچے گا۔
………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔