فریڈرک بارتھ لکھتے ہیں ’’ننھا شہزادہ بہت خوب صورت تھا اور اس کی آنکھیں بھی بہت خوب صورت اور پیاری تھیں لیکن 3 یا 4 سال کی عمر میں اسے جھٹکوں کی بیماری نے آن لیا۔ دورے پڑنے کے وقت وہ زمین پر ماہیِ بے آب کی طرح تڑپتا اور بڑی تکلیف سے گزرتا۔ اس کے والد نے اس کے علاج میں کوئی کسر نہ چھوڑی لیکن اس کی منحوس بیماری بڑھتی چلی گئی۔ آخر ایک برطانوی ڈاکٹر کو بلایا گیا۔ اس نے ننھے شہزادے کا معائنہ کیا اور اس کے والد سے کہا کہ اس کے دورے پڑنے کا علاج ممکن ہے، مگر نتیجے میں اس کی بینائی زائل ہونے کا احتمال ہے۔ اگر آپ یہ خطرہ مول لینے کو تیار ہیں، تو میں اس کا علاج شروع کرسکتا ہوں۔ بادل نخواستہ والد نے اجازت دے دی۔ ڈاکٹر نے کہا کہ کوئی مضبوط آدمی بچے کو کمر سے پکڑے تاکہ یہ ہلنے نہ پائے۔ میں اس کے پیٹھ سے کچھ مواد نکالنا چاہتا ہوں۔ اس کے والد نے کہا کہ میں اپنے شہزادے کو خود پکڑوں گا، آپ فکر نہ کریں میں اسے ہلنے نہیں دوں گا۔ اور پھر ڈاکٹر نے اپنا طریقۂ علاج شروع کیا۔ چند مراحل طے کرنے کے بعد شہزادے کو دورے پڑنے اور جھٹکے لگنے کی بیماری تو ختم ہوگئی لیکن اس کی خوبصورت آنکھوں کی روشنی معدوم ہونے لگی اور چند سال میں برائے نام ہوکر رہ گئی۔”
ننھے شہزادے نے اپنی معذوری کو تقدیر کا لکھا سمجھ کر قبول کیا اور قرآن مجید سے دل لگا لیا۔ اس نے بہت جلد قرآن شریف حفظ کرلیا اور اس کے ساتھ اُسے اُس کی استعداد کے مطابق دیگر علوم اور زبانیں بھی سکھائی گئیں۔ وہ رمضان کے مہینے میں تراویح بھی پڑھاتا رہا۔ اپنی نیکی و پارسائی کے سبب اُسے "حافظ بہادر” کا لقب عطا کیا گیا اور وہ اسی نام سے جانا پہچانا گیا۔ حالاں کہ اُس کا نام شہزادہ عالم زیب تھا۔ وہ والئی سوات کا دوسرا صاحب زادہ تھا۔ اس کو اپنے والد کی طرح تعلیم سے بہت دلچسپی تھی۔ وہ ہر سال سکول کا گزٹ منگواتا۔ سوات کے تمام سکولوں کا ریزلٹ دوسروں سے سنتا اور پوزیشن ہولڈرز کو انعامات دے کر ان کی حوصلہ افزائی کرتا۔ اس نے بچوں کو کتابیں مہیا کرنے کا بیڑا بھی اٹھایا۔ وہ دسویں جماعت کے سیکڑوں سٹ خریدتا اور نویں کلاس کے پاس شدہ طلبہ کو نویں کی کتابوں کے بدلے دسویں کی دیتا۔ اس طرح آٹھویں کے طلبہ اپنی پرانی کتابوں کے عوض نویں جماعت کی کتابیں لیتے۔ یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا جن کے پاس پرانی کتابیں نہ ہوتیں، ان کو بھی کتابیں دیتا اور یونیفارم کے لیے پیسے دیتا۔ اسے ہر قابل لڑکے کا ریکارڈ زبانی یاد رہتا کہ کس نے فلاں سال کتنے نمبر لیے تھے اور اس سال اس کی کیا پوزیشن ہے۔ کئی غریب طلبہ تو اکثر اس کے پاس بیٹھا کرتے اور کھانا وغیرہ بھی اس کے ساتھ کھا لیتے۔
اس کو خبریں سننے کا بہت شوق تھا اور جب ٹرانزسٹر متعارف ہوا، تو اکثر اوقات دیکھا گیا کہ وہ ریڈیو کان سے لگائے خبریں سن رہا ہوتا۔ شام کے وقت ایک نوکر کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر سیر کے لیے نکلتا۔ مینگورہ تک پیدل چل کر اسی طرح واپس آتا اور جیسا کہ نابینا لوگ چلتے ہیں، اُچھل اُچھل کر قدم رکھتا جیسے اسے نشیب و فراز کا خوف رہتا ہو یا کہیں کسی رکاوٹ سے ٹھوکر لگنے کا ڈر ہو۔
میں نے اپنی پوری تعلیمی کیرئیر میں اس سے کسی قسم کی امداد نہیں لی تھی۔ کیوں کہ مجھے ان مسائل سے دوچار ہونا نہیں پڑا تھا۔ پھر بھی اس سے کبھی کبھی دوستوں کی ہمراہی میں ملاقات ہوتی رہتی۔ وہ مجھے اور میرے والد صاحب کو جانتے تھے اور میرے متعلق اس کی بہت اچھی رائے تھی۔ ہاں ایک بار میں نے شہزادہ سلطان روم سے، جب میں ساتویں کو پاس ہوا، امداد حاصل کی تھی۔ ہوا یوں کہ ہمارے سکول پیغام آیا کہ شہزادہ سلطان روم جو والئی سوات کے بھائی تھے، اپنی رہائش گاہ واقع بڑینگل میں سکول کے طلبہ میں پیسے تقسیم کریں گے اور طالب علم کو اتنے پیسے ملیں گے جس کلاس میں وہ پڑھتا ہو۔ تصدیق کے لیے سکول کے ایک سینئر اُستاد بھی اُن کے قریب بیٹھے تھے۔ سکول کے سارے طلبہ اکٹھے وہاں چلے گئے۔ قطار بنا کر ایک ایک آگے بڑھتا۔ شہزادہ صاحب لڑکے سے پوچھتے کہ کون سی کلاس میں پڑھتے ہو؟ جواب آنے پر اتنے ہی روپے سٹوڈنٹ کو دیتے۔ جب میری باری آئی تو وہی سوال مجھ سے بھی کیا گیا۔ میں نے جواب دیا کہ ساتویں میں۔ شہزادہ صاحب نے کہا تم تو بہت چھوٹے ہو۔ کیا جھوٹ بول رہے ہو؟ ساتھ میں بیٹھے ہوئے اُستاد نے کہا: ’’جی یہ ٹھیک کہتا ہے۔ اس نے چار کلاسیں دو سال میں پاس کی تھیں۔ چوں کہ یہ بہت ذہین ہے، تو ہم نے اس کو یہ چانس دیا ہے۔ انھوں نے مجھے سات روپے دیے۔ میں آگے بڑھا۔ پیچھے سے ان کی دوبارہ آواز آئی۔ ’’لڑکے واپس آؤ‘‘ جب میں ڈرتے ڈرتے واپس ہوا، تو انھوں نے مجھے سات روپے اور دے دیے او ر کہا کہ ’’یہ تمہارا انعام ہے۔ ‘‘
شہزادہ عالم زیب صاحب سے میری آخری ملاقات اس دن ہوئی جب میں اس کی سفارش حاصل کرنے کے لیے گیا۔ ہوا یوں کہ جب ہم بی اے میں داخل ہونے لگے، تو ایوب خان نے تعلیمی اصلاحات کے نام پر طلبہ کا مستقبل تباہ کر دیا۔ بی اے کا دو سالہ کورس بڑھا کر تین سال کر دیا گیا۔ میرا یہ پروگرام تھا کہ بی اے کرنے کے بعد میں یا تو ریاست میں ملازمت کروں گا اور اگر پوزیشن اچھی آئی، تو کسی نہ کسی طرح آگے پڑھوں گا۔ ان دنوں ہماری حالت مخدوش ہونے لگی۔ والد صاحب کی اکیلی تنخواہ اور ہم سب بھائی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ میں نے فیصلہ کیا کہ میں مزید 3 سال انتظار نہیں کرسکتا اور ملازمت کروں گا۔ میں حافظ بہادر صاحب کے پاس گیا اور اس سے عرض کیا کہ والی صاحب سے میری سفارش کر دیں کہ مجھے ملازمت دے دیں۔ پہلے تو وہ ناراض ہوا کہ میں تعلیم کو خیر باد کیوں کہ رہا ہوں؟ پھر میری تفصیل بتانے پر وہ راضی ہوگیا۔ اگلی صبح جب میں سوشل ورک کے لیے سیدو ہسپتال گیا تو جناب والی صاحب کی طرف سے بلاوا آگیا۔ جب میں والی صاحب کے دفتر میں ان سے ملا، تو ان کے پہلے الفاظ یہ تھے: "تم پڑھتے کیوں نہیں؟ کالج تمھارے گھر کے قریب ہے۔ تمھیں اور کوئی تکلیف ہو تو بتاؤ۔ عالم زیب تو تمھاری بہت تعریف کرتا ہے۔” میں نے جواب میں اپنی رام کہانی سنائی، تو انھوں نے ازراہِ غریب پروری میری تقرری کا پروانہ اپنے ہاتھ سے تحریر کرکے مجھے دیا اور کہا مہتمم کو یہ حکم نامہ دے دو۔ تم کو میں نے اسٹیٹ پی ڈبلیو ڈی میں ملازمت دے دی۔