دورِ باطل میں حق پرستوں کی
بات رہتی ہے سر نہیں رہتے
’’ناظم جوکھیو‘‘ کا تعلق صوبہ سندھ سے تھا۔ وہ سٹیزن جرنلسٹ (شہری صحافی) تھا۔
ناظم کے علاقے میں کچھ عرب ’’تلور‘‘ کے شکار کے لیے آئے تھے۔ تلور کا شکار ممنوع ہے۔ اس لیے ناظم کو یہ ظلم معلوم ہوا اور اس کے خلاف ویڈیو بنائی جو وائرل ہوئی۔ علاقے کا ایم پی اے جو سندھ میں برسرِ اقتدار پارٹی سے تعلق رکھتا ہے، طیش میں آیا اور ناظم کو اپنے ڈیرے پر بلایا۔ جرم یہ تھا کہ ایم پی اے کے مہمانوں کی بے عزتی ہوگئی تھی۔
ناظم جوکھیو کا بھائی جو خود تحصیل کونسل کا ممبر رہا ہے، وہ ناظم کو ایم پی اے کے ڈیرے لے جاتا ہے، تاکہ معافی تلافی ہوجائے اور معاملہ ختم ہو۔ کیوں کہ سندھ کے وڈیروں سے لڑنا آسان کام نہیں، مگر حسبِ روایات ناظم کی لاش ہی واپس ہوئی۔ کیوں نہ ہوتی…… اس سماج میں وڈیرہ شاہی کو چیلنج کرنے کا مطلب ہی زندگی سے ہاتھ دھونا ہے۔
یوں ناظم جوکھیو مرگیا…… مگر اس معاشرے کے سامنے پہاڑ جتنے بڑے بڑے سوال چھوڑ کرگیا۔
اس طرح پچھلے ہفتے ضلع ملاکنڈ کے علاقے سخاکوٹ میں محمد زادہ اگرہ وال کو بے دردی سے قتل کیا گیا۔ ابھی تک دستیاب معلومات کے مطابق محمد زادہ تحریک انصاف کے طلبہ تنظیم ’’انصاف سٹوڈنٹس فیڈریشن‘‘ کا ضلعی صدر بھی رہا ہے۔ ایک سماجی ورکر بھی تھا۔ وجۂ شہرت مگر موصوف کی یہ تھی کہ وہ اپنے علاقے میں منشیات فروش اور دیگر مافیاؤں کے خلاف ایک توانا آواز تھا۔ سوشل میڈیا پر زیرِگردش ویڈیوز میں سنا اور دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ کس بے باکی، پختگی اور معقولیت کے ساتھ انتظامیہ کے سامنے اپنا مؤقف پیش کرتا ہے۔
قارئین، جب انسان من کا سچا اور دُھن کا پکا ہو، تو لفظوں میں تاثیر آ ہی جاتی ہے۔ بقولِ اقبال
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں، طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے
اور یہی وجہ تھی کہ پورے ضلع میں محمد زادہ کے ہم نوا زیادہ ہونے لگے تھے۔ اس بے دھڑک اور دو ٹوک مؤقف نے انتظامیہ سمیت منشیات فروشوں کو دن میں تارے دکھا دیے۔ یوں محمد زادہ کو ٹھکانے لگانے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ فیصلہ کس نے کیا، کیوں کیا اور کب کیا……؟ ان سوالات کا جواب مرحوم نے زندگی کے آخری چند دنوں میں سوشل میڈیا کے ذریعے ایک ویڈیو میں دیا تھا۔ شاید وہ محسوس کرچکا تھا کہ اب اس کو زندہ نہیں چھوڑا جائے گا۔ اس لیے اپنے ممکنہ قاتلوں کے نام بھی لیے تھے۔ البتہ قتل کے اس مکروہ فیصلے کو عملی جامہ کس نے پہنایا……؟ اس بات کا تعین ابھی ہونا ہے۔ لیکن جن کا کام یہ تعین کرنا ہے خود وہ تو محمد زادہ سے بے زار ہوچکے تھے…… اور خود ان کو تو مرحوم نے اپنے مبینہ قاتلوں میں شمار کیا تھا۔
قارئین، یہ بات طے ہے کہ پاکستانی عدالتوں میں انصاف کا جو حال ہے، وہ انتہائی بدحال ہے…… مگر خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔ اس کے ہاں دیر ہے مگر اندھیر نہیں۔
ناظم جوکھیو ہو یا محمد زادہ…… کیا ان کا قتل پہلا قتل تھا……؟ نہیں! آخری ہے؟ بالکل نہیں……! کیوں کہ مملکتِ خداد میں روزِ اول ہی سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ کبھی قاتل معلوم اور کبھی نامعلوم……! مگر وہ کون سی نامعلوم طاقت ہے…… جو آج تک معلوم نہیں ہوسکی! پہلے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان کے قتل سے لے کر محمد زادہ تک کتنے معلوم پاکستانی ’’نامعلوم طاقت‘‘ کی گولیوں کے نشانہ بنے؟ مگر ریاست ہے کہ ٹس سے مس نہیں ہو رہی۔ ان تمام معلوم اور نامعلوم قتلوں کا بڑا سبب ملک میں انصاف کی عدم دستیابی اور قانون کی حکمرانی کا نہ ہونا ہے۔
ممنوع شکار کے خلاف شکایت نہ کرتے، تو ناظم جوکھیو زندہ رہتے اور اگر منشیات فروشوں کے خلاف بات نہ کرتے، تو محمد زادہ قتل نہ ہوتا۔ چوں کہ یہ دونوں کام ریاست اور حکومت کو کرنا تھے…… مگر برعکس اس کے ریاست اور حکومت مبینہ طور پر ان مافیاؤں کی گویا سرپرست ہے۔ اس لیے ناظم اور محمد زادہ جیسے بہادر بیٹے اُٹھ کے ظالم کے خلاف بات کرتے ہیں۔ اس کے باوجود کہ اس راہ میں نامعلوم گولیاں بھی چلتی ہیں۔
اسلام آباد میں پولیس کے ہاتھوں اُسامہ ستی کا قتل، کراچی میں رینجرز کے ہاتھوں سرفراز کا قتل جس کی ویڈیو وائرل ہوئی تھی…… بلوچستان میں طالب علم حیات مراز بلوچ کا قتل، جس کی ایف آئی آر، ایف سی کے خلاف کٹی، سانحۂ ساہیوال جہاں بچوں کے سامنے پولیس نے ان کے والدین کو مارا تھا، سانحۂ ماڈل ٹاؤن جہاں درجنوں پاکستانی پولیس گولیوں کا نشانہ بنے تھے، کراچی میں راؤ انوار کے ہاتھوں نقیب اللہ محسود کا قتل، بلوچستان میں ایک ایم پی اے کے ہاتھوں ایک پولیس کانسٹیبل کا قتل، اسلام آباد میں ایک بااثر عورت کا گاڑی کے ذریعے چار نوجوانوں کو کچلنا، اسلام آباد کے ایک پوش علاقے میں مولانا سمیع الحق کا قتل، پشاور میں ایک سکھ حکیم کا قتل اور اب ناظم جوکھیو اور محمد زادہ کا قتل…… ان سب مقتولوں کا قاتل کون ہے؟ معلوم کون اور نامعلوم کون ہے؟ یہ بحث ایک وفاقی وزیر کے جملہ پر ہی ختم کر دیتے ہیں: ’’جس مقتول کا قاتل نامعلوم ہو…… حاکمِ وقت اسی کا قاتل ہوتا ہے۔‘‘
…………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔