ناولٹ ’’ٹوٹا ہوا آدمی‘‘ (2014ء) کا ہیرو شہزاد ہے جو مذہب سے برگشتہ انسان ہے۔ وہ ایک کینڈین خاتون ریچل کے ساتھ کوکین کا کاروبار تو کرتا رہا ہے…… مگر اسی کے ساتھ جنسی تعلقات استوار نہیں کیے۔ شہزاد کی ماں مذہبی خاتون ہے اور قرآنِ پاک کی تلاوت کرتی ہے۔ شہزاد ماں کی الماری کی چابی چرا کر اس کے تین سو ڈالرز نکالتا ہے اور ریحپل کو دیتا ہے جو مالی بدحالی کا شکار ہے۔ ہمیں یہ خوب صورت نثری ٹکڑا پڑھنے کو ملتا ہے:
’’ملک میں پہلی دفعہ الیکشن ہوئے، تو وہ بہت خوش ہوا تھا لیکن چار سال بعد دوبارہ الیکشن ہونے لگے، تو اس کے کان کھڑے ہوگئے تھے اور پھر جلد ہی مارشل لا لگ گیا تھا۔ اس نے اپنے دوستوں کو کہا تھا کہ پاکستانیوں اور مسلمانوں کو الیکشن راس نہیں آتے۔ کیوں کہ وہ اُن کے مزاج کے خلاف ہیں۔‘‘ شہزاد اپنے چچا کو ذہنی خلجان کے باعث قتل کر ڈالتا ہے جس پر اُسے نفسیاتی مریض قرار دیتے ہوئے ہسپتال میں زیرِ نگرانی رکھا جاتا ہے۔ ہسپتال بھی اپنی طرز کا ایک قیدخانہ ہی ہوتا ہے۔ شہزاد کو وہاں کام کرنے والی ڈاکٹر جولی زندگی کی طرف لاتی ہے۔ دونوں جنسی تعلقات استوار کرلیتے ہیں۔ شہزاد محفوظ جنسی تعلقات چاہتا ہے لیکن جولی ایسانہیں چاہتی اور ایک روز اچانک اُسے پتا چلتا ہے کہ وہ شہزاد کے بچے کی ماں بننے والی ہے۔‘‘
پھر ہمیں اس اقتباس کی مقناطیسیت اپنی طرف کھینچ لیتی ہے:
’’زندگی میں دو طرح کی طاقتیں ہیں۔ بعض انسانوں کو اپنی ذات ، دوسرے انسانوں اور کائنات سے کاٹ دیتی ہیں اور زندگی کو جہنم بنا دیتی ہے۔ اور بعض ان سب کو آپس میں ملا کر زندگی کو جنت بنا دیتی ہیں۔ دنیا میں ہمیشہ سے پیغمبر ِ انسانوں کو جوڑتے رہے ہیں۔‘‘
ہسپتال میں ہمدردانہ جذبات کے نتیجے میں استوار ہونے والے تعلقات کے نتیجے میں جو لڑکا پیدا ہوتا ہے…… اس کا نام ’’ایڈم‘‘ رکھا جاتا ہے جو شہزاد کو نارمل زندگی کی طرف لانے کا سبب بن جاتا ہے۔ اس کی شخصیت کی تکمیل ہوجاتی ہے اور وہ اطمینان بخش زندگی گزارنے لگتا ہے، جولی کو ہسپتال والے ایک مریض (شہزاد) سے ناجائز تعلقات کے الزام میں نوکر ی سے فارغ اور اس کا لائسنس کینسل کر دیتے ہیں۔ وہ اس صدمے کے باعث خودکشی کر لیتی ہے۔
شہزاد اپنے بیٹے ایڈم کو لے کر ٹورنٹو سے دور نیو فن لینڈ روپوش ہو جاتا ہے۔ اس کا اس طرح غائب ہو جانا قانون کی نظر میں جرم ہے، جس پر اُس کی گرفتاری عمل میں آتی ہے۔ اُس کی مخبری کرنے والا ڈیرک ہے جو نشے کے کاروبار میں اس کا ساتھی رہ چکاہے۔ وہ پولیس کوشہزاد کے ٹھکانے کا پتا دیتا ہے۔
شہزاد کا بیٹا 14 سال کا ہوچکا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ شہزاد نے اُس کی نگہداشت اور تعلیم و تربیت نارمل اور بھرپور انداز میں کی ہے۔ اس ناولٹ کا ایک اہم کردار بوڑھا ابراہیم بھی ہے جو ایک ریستوران سمیت رہائشی یونٹ کا مالک ہے۔ وہ شہزاد کی سائیکی سمجھ کر اُس کا سرپرست بن جاتا ہے۔
شہزاد کی گرفتاری اُس کے تمام پُرخلوص دوستوں کو وقتی طور پر اُداس کر دیتی ہے لیکن انہیں یہ امید بھی ہے کہ اس بار طبی معائنے کے بعد شہزاد کو نارمل قرار دے کر، اور ہرلحاظ سے کلیئر کرکے آزاد زندگی گزارنے کی اجازت دے دی جائے گی۔
امید پہ دنیا قائم ہے اور اس طرح ہمیں یہ ناولٹ’’ٹوٹا ہوا آدمی‘‘ اُداسی سے امید کی روشنی کی طرف لے جاتا دکھائی دیتا ہے۔
یہ ناولٹ بھی خاصی حد تک حقیقت نگاری کے لوازمات لیے ہوئے ہے۔ جوں جوں سائنس ترقی کر رہی ہے، ہم سب غیر محسوس انداز میں حقیقت پسندی کی طرف جا رہے ہیں۔ اب بچوں کو جنوں، پریوں، فرشتہ صف بزرگوں اور نیک پروینوں کی کہانیاں سنا کر بہلایا نہیں جا سکتا۔ ناولٹ کے نام پر لکھا گیا نیا اردو لٹریچر ہمیں یہ خبر دے رہا ہے کہ زمانہ تیزی سے بدل رہا ہے اور جو بھی بندہ، پرندہ خود کونہیں بدلے گا، وہ یا تو پیچھے رہ جائے گا، یا پھر کچلا جائے گا۔ 2015ء میں 1915ء کی دنیا میں رہنے والے کو کون اچھا سمجھے گا؟ سائنس اور ٹیکنالوجی نے عملی طور پر تمام مذاہب کو ایسے لپیٹ کر رکھ دیا ہے جیسے ہم گرمیاں شروع ہونے پر رضائیاں اور گدے لپیٹ کر ایک طرف رکھ دیتے ہیں۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں تیسری دنیا کی غریب حکومتوں اور سیاسی پارٹیوں پر غالب آچکی ہیں۔
ہر ملک اور زبان کا ادب اس کے بدلتے ہوئے سماجی ڈھانچے اور رجحانات کا عکاس ہوتا ہے۔ یہی معاملہ پاکستانی اُردو ناولٹ کے ساتھ بھی ہے۔ اگر علی عباس جلالپوری کا ناولٹ ’’پریم کا پنچھی پنکھ پسارے‘‘ تقسیم سے پہلے کے پاکستانی حصے کی عکاسی کرتا ہے، تو خالد علیم کا ناولٹ ’’دائرے میں قدم‘‘ تقسیم کے بعد کا منظر نامہ تخلیق کرتا ہے۔ جب کہ ڈاکٹر خالد سہیل کا ناولٹ ’’ٹوٹا ہوا آدمی‘‘ اس پاکستانی نژاد کینیڈین شہری کی کہانی ہے جو پاکستان کو اپنے لیے بہتر نہ پا کر کینیڈا اپنا مستقبل سنوارنے کے لیے مستقل مقیم ہوچکا ہے۔
انسان کے دُکھ کم و بیش اس کرۂ ارض پر ایک جیسے ہی ہیں۔ اس کی پہلی جد و جہد تو حصولِ رزق کے لیے ہے۔ زیادہ تر یورپی ریاستیں ایجادات سے حاصل ہونے والی دولت کی فراوانی کے باعث "Welfare States” کا درجہ رکھتی ہیں۔ جہاں فرد کی خاصی ذمہ داریاں اُٹھانے کی ذمہ دار ریاست ہے…… مگر وہاں مالی خوشحالی کے چند بنیادی اسباب ہیں جن پر ہم غور نہیں کرتے۔ پہلا تو آبادی پر کنٹرول ہے۔ آبادی کم اور وسائل اور رقبہ زیادہ ہے۔ تعلیمی شرح سو فی صد کے لگ بھگ ہے اور گھر کا ہر فرد کماتا ہے۔ صحت کو سرکاری پالیسی میں بنیادی درجہ حاصل ہے۔ کاروبار اور پیشہ ورانہ شعبوں میں بہت تنوع ہے۔ وہاں ایسے ایسے طریقے سے کمایا جاتا ہے جس کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے۔ موسم کی شدت زیادہ تر ممالک کا مسئلہ ہے۔ اگر یورپ سردی کی شدت سے متاثر ہے، تو ایشیا کو گرمی نے پاگل کر رکھا ہے۔ انسان کے بنیادی مسائل اور خواہشات قریب قریب ایک سی ہیں۔
اس ناولٹ کا اُسلوب نفسیاتی ہے اور ایک کردار شہزاد کے نفسیاتی مسائل ہی لے کر آگے چلتا ہے۔ زبان میں انگلش الفاظ کی فراوانی ہے۔ کہانی ناہموار سی ہے، مگر آگے بڑھتی رہتی ہے۔
…………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔