کورونا کے بعد ڈینگی، اِک اور دریا کا سامنا

بڑی مشکلات کے بعد کرونا میں کمی آنے ہی لگی تھی کہ ڈینگی نے آ دبوچا۔ ہم ابھی ایک مصیبت سے نہیں نکلتے کہ دوسری آ گھیرتی ہے۔ ’’آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا‘‘ ضرب المثل ہماری موجودہ صورتِ حال کی درست عکاسی کرتا ہے۔
ڈینگی بخار کی چار روایتی اقسام ہزار سال پہلے بھی موجود تھیں مگر گذشتہ چند سو سالوں میں اس نے انسانوں کو مصیبت میں مبتلا کر رکھا ہے۔ 1970ء سے قبل دنیا بھر میں صرف 9 ممالک کو شدید ڈینگی کے خطرات کا سامنا تھا۔ اب ڈینگی تقریباً 100 سے زیادہ ممالک میں پھیل چکا ہے۔ گذشتہ چند عشروں میں اس نے دنیا میں اپنے پنجے گاڑھنے کے ساتھ ساتھ تباہی مچارکھی ہے۔ ڈینگی وائرس کی وجہ سے دنیا کی تقریباً آدھی آبادی خطرے میں ہے۔ ملیریا کے بعد ڈینگی اس وقت دنیامیں بخار کی دوسری سب سے بڑی وجہ بن چکا ہے۔ ڈینگی ہی کی وجہ سے سالانہ تقریباً100 تا 400 ملین انفیکشن ہوتے ہیں جن میں سے 96 ملین شدید نوعیت کے حامل قرار دیے جاتے ہیں۔
قارئین، اس وقت دنیا بھر کے 129 ممالک کو ڈینگی انفیکشن کاسامنا ہے جب کہ اس کا 70 فی صد جنوبی ایشیا میں پایا جاتا ہے۔
صحت کے عالمی ادارے (ڈبلیو ایچ اُو) کے مطابق گذشتہ دو عشروں کے دوران میں ڈینگی وائرس میں 8 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ سال 2000ء میں ڈینگی کے کل 505,430 کیس تھے، جو 2010ء میں بڑھ کر 2.4 ملین اور 2019ء میں 5.2 ملین سے تجاوز کرگئے۔ ڈینگی کی وجہ سے 2000ء میں شرحِ اموات 960 تھی جو 2015ء میں بڑھ کر4032 ہوگئی۔
عالمی سطح پر ڈینگی کی وجہ سے کس حد تک اور کتنی مشکلات کا سامنا کر نا پڑسکتا ہے؟ ابھی اس کے بارے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ جنوب مشرقی ایشیا اور مغربی پیسیفک کے علاقوں میں اس کی شدت بہت زیادہ ہے اور دنیا بھر میں ڈینگی کی بیماری کا 70 فی صد جنوبی ایشیا میں پایا جاتا ہے۔
ڈینگی کے مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ کے ساتھ ساتھ مختلف ممالک میں اس کا پھیلاو بھی لگا تار بڑھتا جا رہا ہے۔ اب ایشیا اور دیگر علاقوں کے ساتھ یورپ میں بھی اس کے پھیلاو کے خطرات محسوس کیے جا رہے ہیں۔ 2010ء میں مقامی سطح پر منتقل ہونے والے ڈینگی وائرس کے واقعات فرانس، کروشیا کے علاوہ تین دیگر یورپی ممالک میں رپورٹ ہوچکے ہیں۔ دوسال کے قلیل عرصہ میں یہ یورپ کے 10 ممالک تک پھیل گیا اور 2012ء میں 2000 سے زیادہ ڈینگی کے کیس رپورٹ ہوئے۔
اس طرح سال 2020ء میں ڈینگی کے وار جاری رہے اور دنیا بھر کے کئی ممالک اس سے متاثر ہوئے۔ سال 2021ء میں بھی ڈینگی نے پاکستان سمیت بہت سے ممالک کو متاثر کیا۔
قارئین، کورونا کی وجہ سے صحت کے مسائل پہلے ہی ابتر ہیں۔ محکمۂ صحت پہلے ہی مشکلات سے دوچار ہے اوردنیا بھرمیں صحت کے شعبے پر بہت زیادہ دباو کی وجہ سے ان گنت مسائل کا سامنا ہے۔ ’’ڈبلیو ایچ اُو‘‘ نے کرونا کے دوران میں ویکٹر بورن بیماریوں بشمول ڈینگی کی تشخیص، روک تھام، احتیاطی تدابیر اور ان کے علاج پر بہت زور دیا ہے۔ اگر ضروری اقدامات نہ کیے گئے، تو کورونا وبا اور ڈینگی انسانوں کے لیے مہلک ترین ثابت ہوسکتے ہیں۔
عالمی سطح پر ڈینگی کے سب سے زیادہ خطرناک حملے 2019ء میں دیکھنے کو ملے جب امریکہ میں 3.1 ملین ڈینگی مریض تشخیص ہوئے، جن میں 25,000 سے زیادہ کیس شدید ڈینگی کا شکار تھے۔ بنگلہ دیش میں 101,000، ملائشیا میں 131,000، فلپائن میں 421,000، ویتنام میں 420,000 جب کہ ایشیا میں 320,000 کیس رپورٹ ہوئے۔
2016ء کو بھی ڈینگی کا سال کہا جا تا ہے۔ کیوں کہ اس عرصہ کے دوران میں امریکہ میں 2.38 ملین، برازیل میں 1.5 ملین ڈینگی مریضوں کی تشخیص ہوئی، جو 2014ء کے مقابلے میں 3 فی صد سے بھی زیادہ ہے۔
مغربی پیسیفک ریجن میں 375,000 سے زیادہ مریض رپورٹ ہوئے جب کہ فلپائن میں 176411 اور ملائشیا میں 100028 مریض تشخیص ہوئے۔ ان دو ممالک میں گذشتہ سالوں کے دوران میں بھی تقریباً یہی شرح رہی۔ 2017ء میں شدید ڈینگی کے مریضوں میں 53 فی صد کمی دیکھنے کو ملی جب کہ گذشتہ عشرے کے دوران میں ڈینگی کے مریضوں کی تعداد میں دو گنا اضافہ ہوچکا ہے۔
پاکستان میں تو ڈینگی تقریباً سارا سال ہی اپنے حملے جاری رکھتا ہے، تاہم اکتوبر اور دسمبر کے دوران مین اس کی شدت میں اضافہ ہو جا تا ہے۔
ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان کی تین چوتھائی سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے، جنہیں صحت کے شدید ترین مسائل کا سامنا ہے۔ صحت کی ناکافی سہولیات کی وجہ سے ڈینگی نے پاکستان کو زیادہ متاثر کیا ہے۔ بے شمار دیگر بیماریوں کے پھیلاو کے ساتھ ساتھ ڈینگی ایک بار پھر حملہ آور ہوچکا ہے۔ پنجاب کے اکثر ہسپتالوں میں جگہ دستیاب نہیں۔
سال 2019ء میں پاکستان میں تقریباً 50,000 افراد ڈینگی سے متاثر ہوئے، مگر اس کے باوجود ڈینگی کے مکمل خاتمے، اس کی روک تھام یا اس کے مناسب علاج کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے۔ دیگر صوبوں میں بھی صورتِ حال تسلی بخش نہیں۔ ہمارے ہسپتالوں میں جگہ اور عملے کی قلت کے ساتھ مناسب تربیت اور ادویہ کی بھی شدید کمی ہے جس کے سبب ہمارے ہسپتال کسی بھی بیماری کے پھیلاو کو روکنے میں کامیاب نہیں ہو پاتے۔
اس طرح کویڈ کی وجہ سے ہسپتالوں میں بستروں کی شدید کمی ہے۔ ایسی صورتِ حال میں اگر ڈینگی 2019ء والی صورت اختیار کر لیتا ہے، تو ہمارا کیا بنے گا؟ خدا خدا کر کے کورونا کے مریضوں میں کمی آنا شروع ہوئی تھی کہ ڈینگی نے حملہ کر دیا۔
ہر حکومت مسئلے کا دیرپا حل نکالنے کی بجائے درد کم کرنے والی ادویہ کی طرح عارضی حل کو ترجیح دیتی ہے۔ ڈینگی دراصل ہماری بدانتظامی، بے پروائی، عدم توجہی، صفائی کے ناقص نظام اور مستقبل کے لیے کسی ٹھوس لائحہ عمل کی عدم موجودگی کا شاخسانہ ہے۔ جب ہمارے شہر اور گلیاں کوڑے کا ڈھیر بنے رہیں گے، ہر جگہ پانی کے جوہڑ بنے رہیں گے، کچرا جگہ جگہ جمع رہے گا، تو پھر ڈینگی کسی صورت بھی ختم نہیں ہوسکتا۔ ہم ماضی سے سبق سیکھنے کی بجائے سابقہ حکومتوں پر الزام تراشی کرتے اور ہر مسلے کا ذمہ دار سابقہ حکومتوں کو ٹھہرانے کے عادی ہو چکے ہیں۔
کوروناوبا کی وجہ سے عوام کی معاشی سکت جواب دے چکی ہے اور رہی سہی کسر ’’مہنگائی خان‘‘ نے نکال دی ہے۔ اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں ہوش رُبا اضافے کی وجہ سے یوں محسوس ہوتا ہے۔ روزمرہ کے استعمال کی چیزیں کوہِ قاف کی پہاڑی پر چپکا دی گئی ہیں۔ ادویہ میں کئی سو گنا اضافہ، نادار افراد کے لیے جان بچانے والی ادویہ کی مفت فراہمی پر پابندی اور بنیادی ادویہ کی ترسیل اور فراہمی میں کمی نے عام آدمی کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔ اب عوام جمہوریت، کورونا یا ڈینگی کی بجائے دو وقت کے کھانے کے بارے میں فکر مند ہیں۔ ان کا سارا وقت اس سوچ میں گزر جاتا ہے کہ اگلا کھانا ملے گا بھی یا نہیں۔ مہنگائی کے اس عالم میں موت کی دعا مانگتے بھی ڈر لگتا ہے۔ کہیں دفنانے کی بجائے کوؤں اور چیلوں کے کھانے کے لیے نہ پھینک دیا جائے۔
عوام ہر طرف سے مصیبت میں مبتلا ہیں۔ ایک طرف کورونا نے جینا دوبھر کر رکھا ہے جب کہ دوسری جانب مہنگائی نے کمر توڑ دی ہے۔ اب رہی سہی کسر ڈینگی نے نکال دی۔ پی ٹی آئی نے ایسی ریاستِ مدینہ میں لا کھڑا کیا ہے جہاں آگے جانے کا کوئی راستہ ہے اورنہ پیچھے مڑنے کا۔ کورونا،مہنگائی اور اب ڈینگی نے عوام کا حوصلہ توڑ کر رکھ دیا ہے۔
بنیادی سہولیات کی دست یابی ریاست کی ذمہ داری ہے، مگر یوں لگتا ہے کہ ریاست نے غریب عوام کا خون نچوڑنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔
…………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔