تبصرہ: فرخ سہیل گوئندی
غازی مصطفی کمال پاشا اتاترک نے دنیا کے بڑے بڑے انقلابی رہنماؤں اور دانشوروں کو اپنے سیاسی عمل سے متاثر کیا جن میں بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ بھی شامل ہیں، 4مارچ 1948ء کو انہوں نے ترک عوام کو اپنے ایک پیغام میں کہا: ’’بہت سے تاریخی میدانوں میں آپ کے رہنماؤں کے کارنامے، آپ کی انقلاب کے لیے پیش رفت، عظیم اتاترک کا اُبھرنا اور کیریئر، اپنی اعلا جہاں بینی، ان کا اپنے حوصلے اور دُور اندیشی سے آپ کی قوم میں نئی روح پھونکنا، ان تمام واقعات سے پاکستان کے عوام بہ خوبی واقف ہیں۔‘‘
قائداعظم محمد علی جناحؒ نے مصطفی کمال پاشا کی وفات پر آل انڈیا مسلم لیگ کو باقاعدہ سوگ منانے کا حکم نامہ بھی جاری کیا جس پر پورے برصغیر میں عمل ہوا۔
جنگوں کے فاتح اور عوامی انقلاب کے بانی اتاترک کے بارے میں معروف تاریخ دان ول ڈیورانٹ کہتے ہیں:”Men devoted to war, politics and public life wear out fast, and all
three had been passion of Ataturk.”
اتاترک کے بارے میں سوویت انقلاب کے بانی لینن نے 1921ء میں کہا: ’’مصطفی کمال بے حد سمجھ بوجھ رکھنے، ایک اچھے منتظم و شان دار خیالات رکھنے والے ترقی پسند اور ذہین رہنما ہیں۔ وہ سامراج کے خلاف جنگِ آزادی لڑ رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ سامراجیوں کا تکبر توڑ دیں گے ۔‘‘
فروری 1923ء کو بالیکیسر کی مسجد کے منبر سے خطبہ جمعہ کے دوران میں مصطفی کمال نے کہا: ’’اے قوم، اللہ ایک ہے۔ وہ بہت بڑا ہے۔ تم پر اللہ کی سلامتی، مہربانی اور برکت ہو۔ ہمارے رسولِ محترمؐ کو اللہ نے اپنا پیغمبر بنا کر بھیجا، تاکہ وہ انسانیت کو دینی اصولوں کی تبلیغ کریں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اس کا بنیادی قانون قرآنِ عظیم کے متن میں موجود ہے۔ ہمارا دین جس نے انسانیت کو عظمت بخشی ہے، سب سے آخری دین ہے۔ یہ سب سے کامل دین ہے۔ کیوں کہ یہ عقل، منطق اور حقیقت کے عین مطابق ہے۔ اگر یہ عقل، منطق اور حقیقت کے مطابق نہ ہوتا، تو یہ خود متضاد ہوتا اور قوانینِ ِفطرت سے متصادم ہوتا، مگر یہ متصادم نہیں۔ کیوں کہ اللہ کائنات کے تمام قوانین کا بنانے والا ہے۔
دوستو! رسولِ اکرمؐ کی سرگرمیوں کے دو مرکز تھے: ایک آپ کا اپنا گھر اور دوسرا اللہ کا گھر۔ آپ قومی معاملات اللہ کے گھر میں انجام دیتے تھے۔ رسولِ اکرمؐ کے مقدس نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ہم اس وقت اس مقدس گھر میں اللہ کے حضور حاضر ہیں، تاکہ اپنی قوم کو درپیش موجودہ اور آئندہ معاملات پر غور کریں۔
بالیکیسر کے مذہبی اور بہادر عوام نے مجھے یہ موقع فراہم کیا ہے۔ اس لیے میں بہت خوش ہوں اورامید کرتا ہوں کہ یہ مقدس موقع میری نیک اور اعلا خدمات کا ذریعہ ثابت ہوگا۔ خطبۂ جمعہ کا مقصد لوگوں کی ہدایت اور رہنمائی ہے، جو خطبے سو سال، دو سو سال یا ایک ہزار سال پرانے ہوں، انہیں پڑھ پڑھ کر سنانے کا مطلب تو یہ ہے کہ لوگوں کو جہالت اور اندھیرے میں رکھا جائے۔ اس لیے بے حد ضروری ہے کہ خطیب، قومی زبان میں خطبے دیں۔‘‘
اس جہانِ فانی سے کوچ کرنے سے تقریباً ڈیڑھ سال قبل 10 جون 1937ء کو انہوں نے اپنی جائیداد کے حوالے سے وصیت کی اور نوٹری پبلک کی موجودگی میں اپنے اثاثے ملکی خزانے کے لیے وقف کردیے: ’’غیر منقولہ اِملاک اور جائیدادمیرے لیے بوجھ بن جاتے ہیں اور انہیں اپنے عوام کے لیے وقف کرکے میں پُرسکون ہوجاؤں گا۔ کسی شخص کی دولت خود اس کا عزم و حوصلہ ہونا چاہیے۔ میں اپنے عظیم عوام کو اور بہت کچھ دینا چاہوں گا۔‘‘
اتاترک اولاد سے محروم تھے، مگر انہوں نے سات بیٹیاں اورتین بیٹے گود لے کر ایک انقلابی ہونے کا عملی ثبوت دیا۔ اُن کا ایک لے پالک بیٹا مصطفی ایک ترک گڈریے کی اولاد تھا۔ اُن کی لے پالک بیٹی صبیحہ گوکچن، دنیا کی پہلی خاتون جنگجو پائلٹ تھیں۔ اُن کے لے پالک بچوں نے کبھی سیاسی وراثت کا دعوا نہیں کیا۔ اس لیے ترکی میں موروثی سیاست پروان ہی نہ چڑھ سکی۔
زیرِ تبصرہ کتاب ’’اتاترک‘‘ دراصل "Atatrk- The Rebirth of a Nation” کا اُردو ترجمہ ہے جو اتاترک کی لکھی گئی سوانح عمریوں میں سرِفہرست ہے اور میری شریکِ زندگی ریما عبداللہ گوئندی نے میری سال گرہ کے موقع پر استنبول کے تاریخی اور رومانوی شہر میں مجھے تحفے میں دی۔ اب یہ کتاب پاکستان اور دیگر خطوں پر آباد اُردو جاننے والوں کے لیے میری طرف سے ایک تحفہ ہے، تاکہ اس عظیم جرنیل، سیاست دان، سیاسی رہنما اور مدبر کی زندگی کو موجودہ اور آئندہ نسلوں کو دوبارہ متعارف کروایا جائے اور یاد رہے کہ جب یہ جرنیل اتاترک، یونانیوں کے ازمیر پر قبضے کے خلاف لڑتا ہوا فتح سے ہمکنار ہوا، تو ہماری دھرتی پر بسنے والے عوام نے اسے لوک گیتوں میں یاد کیا:
اُجڑے سمرنا (ازمیر) دے باغ
اتاترک تیریاں دُور بلائیاں
اس کتاب کا اُردو ترجمہ ہما انور نے جس جانفشاتی سے کیا ہے، مَیں اس پر انہیں مبارک باد دیتا ہوں۔ کتاب کی اشاعت میں ریما عبداللہ گوئندی کی محبت ہر لمحہ میرے ساتھ رہی اور اس کی اشاعت پر میری کیفیت کا بیان لفظوں میں ممکن نہیں۔ مَیں مشکور ہوں کہ مصباح سرفراز نے اس کتاب کی اشاعت میں ’’جمہوری پبلیکیشنز‘‘ کے علمی جذبوں میں اپنا حصہ ڈال کر اس کی کمپوزنگ اور اشاعت کی نگرانی کی اور ترکوں کے اس عظیم رہنما کی تاریخ کی تلاش کے عمل میں میری مدد کی۔ ’’جمہوری پبلیکیشنز‘‘، اُردو قارئین کے لیے ایک تاریخ ساز رہبر پر جامع سوانح عمری شائع کررہا ہے جوکہ ایک فکری خدمت سے کم نہیں۔
……………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔