یہ اُس وقت کی بات ہے جب سوویت یونین کا ڈاؤن فال ہوچکا تھا اور سابق روسی صدر آنجہانی میخائل گورباچوف ریٹائرڈ ہوکر پنشنی ہوچکے تھے۔ ایک روز میڈیا میں اُن سے متعلق ایک خبر آئی کہ موصوف اپنے لیے کوئی مناسب جاب ڈھونڈ رہے ہیں۔ کیوں کہ پنشن میں اس کا گزارا مشکل سے ہورہا ہے۔ اس خبر کے چند روز بعد ایک قومی روزنامے میں کسی منچلے کا ایک مراسلہ ہماری نظروں سے گزرا جس میں اُس نے روسی صدر کو مشورہ دیا تھا کہ ’’پاکستان آؤ، پانچ سال کے لیے ایم این اے یا ایم پی اے بن جاؤ، یقین جانو اتنا کماؤگے اور اتنے اثاثے بناؤگے کہ تمہاری آئندہ دس نسلیں تک عیش و عشرت کی زندگی بسر کریں گی۔‘‘
سابق صدر امریکہ ’’باراک حسین اوباما‘‘ کی بیوی کا بیان بھی ہمارے نظروں سے گزرا تھا جس میں اُس نے کہا تھا کہ میرے شوہر کے دورِ صدارت میں جب ہم وائٹ ہاؤس میں مقیم تھے، تو ہم اپنی مرضی سے ٹشو پیپر تک خرید نہیں سکتے تھے۔
سابق بھارتی صدر عبدالکلام نے جو کہ ایٹمی سائنس دان بھی ہے، عہدِ صدارت مکمل کرنے کے بعد جب عہدہ چھوڑا، تو اپنا بریف کیس خود اُٹھا کر ایوانِ صدر سے نکلے اور ٹیکسی میں جاکر اپنی رہائش گاہ پہنچ گئے۔
اسی طرح ہم نے اشتراکی اور مغربی ممالک کے حکمرانوں، سرکاری اہل کاروں اور سیاست دانوں سے متعلق بیسیوں خبریں پڑھیں اور سنیں کہ یہ لوگ قانونی حدود کے اندر رہ کر سرکاری وسائل کا استعمال کرتے ہیں۔ کیوں کہ وہاں احتساب کا کڑا نظام نافذ العمل ہے اور بدعنوانی اور مقررہ حدود سے تجاوز کرنے والے کسی بھی شخص کو بلا امتیاز کڑی سزا دی جاتی ہے۔
بدقسمتی سے تیسری دنیا خصوصاً اسلامی ممالک میں حکمرانوں اور بیوروکریٹس کی بدعنوانیوں اور قومی وسائل کی لوٹ مار کا ٹریک ریکارڈ رہا ہے۔ ان میں سے بیشتر لوگوں کا کام قومی خزانہ اور وسائل کو بے دردی سے لوٹنا اور ان کو یورپ، امریکہ اور دوبئی کے بینکوں میں ڈیپازٹ کرنا ہے جب کہ یہ لوگ وہاں بڑے بڑے محلات، جزیروں اور قیمتی جائیدادوں کے بھی مالک ہیں جو قوم کا خزانہ لوٹ کر خریدے گئے ہوتے ہیں۔
غور کا مقام ہے کہ یہ حکمران ریاست اور عوام کے نام پر بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے بھاری شرحِ سود پر قرضے لیتے ہیں اور انہیں بھی بیرونِ ممالک ٹرانسفر کرکے اپنے اکاؤنٹس میں ڈیپازٹ کرتے ہیں۔ پھر ان بھاری قرضہ جات کا بوجھ عوام پر ڈالتے ہیں۔
ستم بالا ئے ستم یہ کہ قدرتی آفات کے مواقع پر متاثرین کے لیے آیا ہوا بیرونِ ملک امداد بھی ان ممالک کے حکمران، سیاست دان اور بیوروکریٹس ڈکارتے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق اپنے وقت کے حکمرانوں میں شاہِ ایران کے بیرونِ ملک اثاثے سب سے زیادہ تھے لیکن جب لیبیا کے سابق صدر کرنل معمر قذافی کے بیرون ملک اثاثے ان کی معزولی کے بعد منظر عام پر آئے، تو شاہِ ایران کے بیرونِ ملک اثاثے کرنل قذافی کے اثاثوں کے مقابلے میں چاول کے دانے کے برابر تھے۔ کیوں کہ قذافی خاندان فرانس میں جزیروں کا مالک تھا۔
سابق فلپائنی صدر، عرب حکمرانوں اور پاکستانی حکمرانوں، سیاست دانوں اور بیورو کریٹس کے بھاری بینک اکاؤنٹس، کاروبار اور اربوں ڈالر کے اثاثوں سے ساری دنیا باخبر ہے۔
عراق کے سابق صدر صدام حسین اور سابق صدرِ فلسطین یاسر عرفات کے بھی بیرون ملک اثاثے منظر عام پر آئے تھے۔ حالاں کہ یہ دونوں عرب حکمران اپنے آپ کو مغرب دشمن بھی ڈی کلیئر کرتے رہے۔
حال ہی میں افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی بھی ملک سے فرار ہوتے ہوئے کروڑوں ڈالر اپنے ساتھ لے گئے۔ اس کا خاندان امریکہ میں مستقل طور پر قیام پذیر ہے اور اس کو بھی سابق پاکستانی وزیراعظم معین قریشی کی طرح افغانستان درآمد کیا گیا تھا۔
تیسری دنیا کے بیشتر حکمرانوں کی اس لوٹ مار کی وجہ سے ان ممالک کے عوام غربت، مہنگائی، بے روزگاری، بیماری اور جہالت کا شکار ہیں۔ حالاں کہ ان ممالک میں افرادی قوت کے علاوہ کافی مادی اور قدرتی وسائل موجود ہیں۔ یہاں تو معمولی سرکاری اہلکار بھی مؤثر احتسابی نظام کی عدم موجودگی کی وجہ سے ارب پتی بن جاتے ہیں۔
وطنِ عزیز یعنی پاکستان کے سیاسی نظام کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے۔ یہاں نام نہاد جمہوری نظام میں سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے کو لوٹ مار اور کرپشن کا چانس دیتی ہیں اور ہر پارٹی اپنی باری لینے تک انتظار کرتی ہے۔
اب ہم اپنی اس لمبی تمہید کے بعد اصل مقصد یعنی عنوان کی طرف آتے ہیں۔ حال ہی میں معزول شدہ صدر افغانستان اشرف غنی کی کابینہ کا ایک سابقہ وزیر مسمی سید احمد سادات بھی افغانستان چھوڑ کر جرمنی پہنچ گیا ہے۔ مواصلات کا یہ سابق وزیر جرمنی میں پیزا (Pizza) بیچ کر رزقِ حلال کما رہا ہے۔ یہ آپ کو بائیک پر پیزا ڈیلیور کرتے ہوئے نظر آئے گا۔ ہمارے خیال میں یہ حیرت انگیز شخص جھلستی گرمی میں ہوا کے ٹھنڈے اور خوشگوار جھونکے کی مانند ہے بلکہ تیسری دنیا کے خصوصاً مسلمان حکمرانوں، سیاست دانوں اور بیورو کریٹس کے لیے قابلِ عمل نمونہ ہے۔
سابق وزیر سید احمد سادات اگر چاہتا، تو اپنے دورِ وزارت میں جب ہر طرف لوٹ مار اور کرپشن کا بازار گرم تھا اور پاٹک پر کھڑا چوکیدار سپاہی تک روزانہ لاکھوں وصول کرتا، یہ بھی ان کی طرح اپنی تجوری بھرتا جب کہ اس کے پاس وزارت بھی مرغن تھی لیکن اس نے ناجائز دولت کمانے سے اجتناب کیا اور نیک نامی کمائی۔
…………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔