وعدوں اور دعوؤں کے سہارے زندہ قوم

نئے پاکستان میں امیر افراد روز بروز خوشحال جب کہ غریب غریب تر ہورہا ہے۔ روز بروز بڑھتی مہنگائی نے ملک کے 85 فیصد متوسط طبقے کو تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے۔ ملک کے بیشتر افراد کے لیے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہوچکا۔ لوگ حالات سے مجبور ہوکر خود کشیاں کر رہے ہیں۔ پریشانی ہر چہرے سے عیاں ہے۔ تاجر حضرات آئے دن بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے معاشی بے یقینی کی صورتِ حال سے دوچار ہیں۔ نئے پاکستان کی منزل تو بہت دور، پی ٹی آئی حکومت کے تین سالوں میں محض مافیاؤں کی گرفت مضبوط ہوئی ہے۔ آٹا، چینی، پیٹرول، ڈرگ اور لینڈ مافیا باری باری اربوں روپے عوام کی جیبوں سے نکلوا چکے۔ ادویہ کی قیمتوں میں بارہویں بار اضافہ مافیاؤں ہی کو نوازنے کا تسلسل ہے۔ بدقسمتی سے آج بھی پاکستان میں ایسا ہی نظام ہے کہ طاقتور مافیا پر کوئی ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک کی بڑی سیاسی شخصیات اور مافیاؤں میں قریبی تعلقات ہیں۔
اقتدار میں آنے سے قبل تحریکِ انصاف کے رہنما اپنے دھرنوں، جلسوں اور ریلیوں میں بلند بانگ دعوے کرتے کہ ان سے بڑا عوام کا خیر خواہ اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ وہ ملک سے مہنگائی، بے روزگاری اور کرپشن کا خاتمہ کرنے کی بات کرتے اور یہ بھی کہتے کہ ان کے دورِ حکومت میں غریبوں کو ریلیف ملے گا اور عوام خوشحال ہوں گے۔ ان کے یہ دعوے سن کر عوامِ پاکستان کو یوں لگتا جیسے یہی ان کے مسیحا اور ان کے دکھوں کا مداوا کرنے والے لوگ ہیں۔ مگر اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان تحریکِ انصاف اور تبدیلی کے دعویداروں نے سب سے زیادہ عوام کو مایوس کیا ہے۔ کیوں کہ جس دن سے پاکستان تحریکِ انصاف برسر اقتدار آئی ہے، عوام کو میسر تمام ریلیف اور سبسڈیاں ختم کردی گئی ہیں۔ اس کے باوجود 30 ہزار ارب روپے کے ملکی قرضے، 45 ہزار ارب روپے سے تجاوز کر چکے ہیں۔
اس وقت معاشی صورتِ حال یہ ہے کہ دکان دار کے لیے دکان کھولنا مشکل، فیکٹری مالکان کے لیے فیکٹری چلانا مشکل، تاجر کے لیے تجارت کرنا مشکل اور کسان کے لیے کاشتکاری مشکل ترین ہوگئی ہے۔ بجلی، گیس، پٹرولیم مصنوعات، آٹا، گھی اور چینی سمیت اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں اضافہ کرتے ہوئے مہنگائی کے طوفان کا سامنا کرنے کے لیے عوام کو بے آسرا چھوڑ دیا گیا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے بہ حیثیتِ قوم ہم اس کشتی کے مسافروں کی طرح ہیں جو موجوں کے رحم و کرم پر ہو۔ ہر آنے والا حکمران جانے والے کو ملک کی معاشی بدحالی و بربادی کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ ملک و قوم پر قرضوں کے بوجھ اور خزانہ خالی کا قصور وار سابقہ حکمرانوں کو قرار دیتا ہے، لیکن موجودہ حکمران نئے طریقوں اورانداز سے قوم کو بہلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
سابقہ حکمرانوں کو چور کہنے والے موجودہ حکمرانوں کا کہنا ہے کہ وہ جاتے ہوئے سب لوٹ کر لے گئے۔ خزانہ ایسا خالی کیاکہ جب ہم نے اقتدار سنبھال کر دیکھا، تو خزانے میں کچھ بھی نہ تھا۔ سرکاری اداروں میں غیر قانونی بھرتیاں تھیں۔ کرپشن کا ایسا بازار لگایا تھا کہ دو تین سال سے ہم سراغ لگاتے لگاتے تھک گئے، لیکن سابقہ حکمرانوں کی کرپشن کی داستانیں ختم نہیں ہو رہیں۔ الغرض، اس طرح کی بے شمار باتیں کی جا رہی ہیں لیکن حسبِ سابق یا حسبِ روایت قوم کی حالت کی تبدیلی اور بہتری کے لیے ایک انچ بھی قدم نہیں بڑھایا گیا۔ آج تحریکِ انصاف کے دورِ حکومت میں بھی کرپشن ہورہی ہے۔ میرٹ کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ بیورو کریٹ اور سرکاری افسران سے لے کر کلرک تک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ تعاون نہیں کررہے اور وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ یہ سابقہ حکمرانوں کے منظورِ نظر ہیں۔ چیف سیکرٹری ، آئی جی سمیت تمام اعلا سطح افسران کو آئے روز تبدیل کیا جارہا ہے، مگر کیا وجہ ہے کہ مطلوبہ نتائج پھر بھی حاصل نہیں ہوپارہے؟
بیورو کریسی ہو یا پولیس کے اعلا افسران، یہ حکومت کے احکامات پر قانون کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ اس لیے اپنی کارکردگی بہتر بنانے کے بجائے اداروں اور افراد پر الزام لگانا مناسب نہیں ہے، نہ یہ مسائل کا حل ہی ہے۔
موجودہ حکمران جو کل تک کہتے تھے کہ پٹرول کی قیمت عالمی مارکیٹ سے 45 روپے لیٹر زیادہ ہے۔ اب وہ عوام پر براہِ راست اثر انداز ہونے والے حکومتی ٹیکسوں میں پے در پے اضافہ کررہے ہیں۔ جس پر شہری چیخ رہے ہیں کہ اگر غریب پاکستانیوں کے زخموں کا مداوا کرنے کی بجائے مہنگائی اور گرانی کا سونامی ہی لانا تھا، تو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومت ان سے بہتر تھی۔
پاکستانی قوم گذشتہ 74 سالوں سے کبھی کسی فوجی ڈکٹیٹر، تو کبھی کسی جمہوری حکومت کے دعوؤں اور وعدوں کے سہارے محض جوتیاں گھساتی چلی آئی ہے، مگر نتیجہ یہ نکلا کہ آج قوم کا ہر فرد دو لاکھ روپے سے زائد کا مقروض ہے جب کہ یہاں محنت کش کے دونوں ہاتھ خالی ہیں۔ پاکستان میں بد سے بدترین حالات میں جمہوری حکومتیں وجود میں آتی رہی ہیں، لیکن کسی حکومت کے بارے میں یہ کہنا غلط نہ ہوگاکہ ابھی وہ اپنے پاؤں پر چلنے کے قابل بھی نہیں ہوتی اور جلد ہی عوام اس کی کارکردگی دیکھ کر مایوسی کا اظہار کرنے لگتے ہیں۔
عمران خان کی حکومت بھی جس رفتار سے چل رہی ہے، اس میں کردار سے زیادہ گفتار سے کام لیا جا رہا ہے اور کچھ کر دکھانے کی بجائے ہر روز ایک نئی طفل تسلی کا اعلان ہوجاتا ہے۔ یوں تین سالہ حکومتی اقدامات محض ہاتھ باندھنے کی حکمت عملی سے زیادہ نہیں، جب کہ غریب پاکستانی آج بھی خوشحالی کے منتظر ہیں۔
………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔