اس ناولٹ (دن اور داستان، 1962ء) کا آغاز قرآنِ پاک کی آیت کے ترجمے سے ہوتاہے: ’’اور وہ شخص بھی کہتا رہا کہ یہ تو اگلے لوگوں کی کہانیاں ہیں۔‘‘
’’مختصر ناول‘‘ ظاہر ہے ناولٹ ہی کو کہا جاتا ہے۔ اس ناولٹ کے آغاز میں تھوڑی بہت کہانی موجود ہے جو ہر ادیب کے پاس ہوتی ہے۔
’’صبح کی نماز کے بعد یہ مناجات بڑی آپا کا ورد تھا۔ روز یہی ہوتا کہ آنکھیں اُس کی ابھی بند ہیں اور آدھے سوتے آدھے جاگتے کی کیفیت میں اور کانوں میں چاندی کی کوڑیاں سی بج رہی ہیں: مولا علی، وکیل علی، بادشاہ علی۔‘‘
بڑی آپا کی آواز میں عجب رقت اور درد ناک کیفیت تھی اور حاجات پڑھتے………… کہ بس ابھی پگھلیں گی اور صبح کے پاکیزہ دھندلکے میں گھل جائیں گی۔ پیلا پیلا آنگن، ہوا بند اور بڑی آپا کی رقت بھری میٹھی آواز، ایک ٹھنڈی منور لکیر آنگن کی پیلی گرم فضا میں رستہ بناتی ہوئی، اُس کی آنکھیں پھر مندنے لگیں۔ لیکن بند ہوا سونے کہاں دیتی تھی۔ وہ اُٹھ بیٹھا۔ بڑی آپا مناجات پڑھتی تھیں۔ نانی اماں وضو کر رہی تھیں۔ تجنہ بے سُدھ پڑی خراٹے لیتی تھی اور بیٹھک سے زور زور سے باتیں کرنے کی آوازیں آرہی تھیں۔‘‘
یہ ناسمجھ میں آنے والی کہانی آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی ہے۔
’’اساڑ اُجاڑ، ساون سوکھا اور اب بھادوں گذر رہا تھا۔ آسمان پر کبھی کبھی بادلوں کے دل کے دل چلتے نظر آتے مگر سفید دھوپ سے چمکتے باؤلا، ہائے بادل۔ رو پہلی بادلوں کے قبیلے ایک سمت سے دوسری سمت میں ہجرت کرتے ہوئے، بے مقصد، بے منزل، بادلوں کے قبیلے رینگتے رہتے رینگتے رہتے، رُک کر کھڑے ہوجاتے، پھر رینگنے لگتے۔ بادل جانے کدھر کدھر سے بھٹک کر آتے۔‘‘
’’کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی‘‘ کے اُصول کے سامنے رکھ کر لکھی گئی تحریر سے کوئی بھی کہانی کیسے اور کہاں تک نکالے گا؟ قاری صبر کا دامن تھامے پڑھتا چلا جاتا ہے کہ کہیں کہانی یا اُس کا کوئی پیچ و خم دکھائی دے جائے۔ اسی طرح اس ناولٹ میں بھٹکتے بھٹکتے ایک ٹکڑا نظر آتا ہے جو کسی قدر ہماری توجہ جذب کرتا ہے اور آگے بڑھاتا ہے۔ ’’امبر کی ایک ہلکی چادر کھیتوں پر پھیلتی چلی گئی اور دھوپ کھیتوں سے پرے پیڑوں کی قطار کو چھوتی ہوئی آگے پھلانگ گئی۔ اُس کی آنکھیں اوپر اُٹھ گئیں اور ضمیر کی بھی۔ اِکا دُکا تیرتے ہوئے بادل آپس میں گھل مل کر سورج پہ چھا گئے تھے۔ کھیتوں سے پرے سڑک پہ ننگ دھڑنگ لونڈوں کی ایک ٹولی کہ منہ پر کالونس مل رکھی تھی اور ہاتھوں میں چھوٹے چھوٹے ڈنڈے تھے۔ ڈنڈے بجاتے ہوئے، زور زور سے گاتے ہوئے :
کالے ڈنڈے، پیلے ڈنڈے
برسے گا برسائے گا
کوڑی گیت لگائے گا
کوڑ گئی ریت میں
پانی گیا کھیت میں‘‘
اب آگے کیا ذکر کروں؟ اچانک ناولٹ ہی ختم ہو گیا اور آگے کچھ اور ہی شروع ہوگیا جس کا عنوان ہے: ’’جل گرجے‘‘
ایک داستان اس میں حکایت شیر شاہی مینارکی، تذکرہ کالی ندی کا، داستان شہرِ ویران کی، قصہ مرتبان اور گاؤ سوار کا، کہانی شہر بے چراغ کی، گھوڑے کی ندا، داستان طوطے میاں کی، حکایت مرکب بے راکب کی شامل ہیں۔ وہ ناول جو داستان کے اثر سے نکل کر تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا انتظار حسین اُس کی ٹانگ کھینچ کر اُسے پھر سے داستان کے طویلے میں باندھنے کی کوشش کررہے ہیں۔
انتظار حسین کا اُسلوب بہت اُلجھا ہوا ہے جو عام قاری یا عام ذہن کی پہنچ سے باہر ہے۔ اُن کے اسلوب کو اُردو ادب میں تجریدیت سے موسوم کیا جا سکتا ہے۔ وہ بیک وقت اُردو اور انگریزی پر یکساں دسترس رکھتے ہیں۔
…………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔