قصور ثاقب کا نہیں، سسٹم کا ہے

درس و تدریس کا پیشہ معزز گردانا جاتا ہے۔ اساتذۂ کرام کو دنیا بھر میں موجود تمام معاشروں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ بلاشبہ ہر رنگ، نسل اور مذہب کے پیروکار استاد کی عزت و تکریم کا درس دیتے ہیں جب کہ اسلامی تعلیمات میں استاد کو ’’روحانی باپ‘‘ کا درجہ حاصل ہے۔ یہ مقام اور توقیر محض استاد کا منصب سنبھالنے سے نہیں دیا گیا بلکہ حقیقت میں استاد قوم کے مستقبل کا معمار ہوتا ہے۔ والدین کے بعد بچوں کی ذہنی آبیاری اور ان کی تربیت میں کلیدی کردار کا ضامن استاد ہی ہوتا ہے، مگر بدقسمتی سے ہر پیشے میں کالی بھیڑیں موجود ہوتی ہیں جن کے برے اعمال اور جرم سے تعلق کسی بھی پیشہ کے تقدس کو پامال کر دیتا ہے۔ آج استاد جیسے باوقار پیشہ کی عظمت اور پاک دامنی پر اگر سوالات اٹھے ہیں، اُستاد کا دامن اگر داغ دار ہوا ہے، تو اس کے ذمہ دار استاد کے نام پر اس پیشے سے منسلک کالی بھیڑیں ہی ہیں۔
قارئین! آپ کو پتا ہوگا کہ گذشتہ دِنوں میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے سالانہ امتحان میں لوئر دیر سے تعلق رکھنے والے کنٹرولر ملاکنڈ بورڈ میاں وزیر جان کے بیٹے ’’ثاقب‘‘ کو امتحان کے ایک وسیع ہال میں اکیلے بِٹھا کر ڈیوٹی پر مامور عملے کے چند ارکان نے نقل کروانے میں سہولت فراہم کی۔ اس جرم کے مرتکب افراد کی ویڈیو منظرِ عام پر آئی اور آتے ہی سوشل میڈیا پر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ امتحانی ہال میں موجود عملے کی سرپرستی میں نقل کروانے والے اس انتہائی شرمناک معاملہ سے نہ صرف ملک بھر میں محکمۂ تعلیم اور اساتذۂ کرام کی جگ ہنسائی ہوئی بلکہ وہ والدین جن کے بچے اپنی قابلیت اور ذہانت کے بل بوتے پر امتحانی پرچے دے رہے ہیں، وہ بھی شدید پریشان، تشویش میں مبتلا اور بچوں کے مستقبل کے لیے فکر مند ہیں۔ وہ بچے جنہوں نے سال بھر محنت کی ہے، ان کے حق پر جس طریقہ سے کنٹرولر ملاکنڈ بورڈ نے اختیارات کا ناجائز استعمال کرکے ڈاکا ڈالنے کی کوشش کی ہے، وہ یقینا ناقابلِ یقین اور قابلِ مذمت ہے۔ والدین اور بچے دونوں غیر یقینی صورتِ حال سے دوچار اور ذہنی کوفت سے گزر رہے ہیں۔ کیوں کہ ان کے بچوں کا مستقبل داؤ پر لگ چکا ہے۔ثاقب جیسے بااثر باپ رکھنے والے طلبہ کے ہاتھوں ذہین طلبہ کا حق یوں تو ہمیشہ سے غصب کیا جاتا رہا ہے۔ کیوں کہ نہ تو یہ پہلا کیس ہے اور نہ آخری۔ یہ سلسلہ تو سالوں سے جاری ہے، مگر ثاقب کی بدقسمتی یہ تھی کہ وہ کیمرے کی آنکھ سے قید ہوا۔ یوں اس کی شامت آگئی، مگر جو اب تک کیمرے کی آنکھ سے اوجھل ہیں، وہ منظرِ عام پر کیوں نہیں لائے جاتے؟ سوشل میڈیا پر آکر ہی ان کے خلاف کارروائی ہوگی، یہی حقیقت ہے۔
قارئین، پاکستان میں دورانِ امتحان نقل کا رحجان ایک خطرناک صورتِ حال اختیار کرگیا ہے۔ نقل کے مستقل خاتمہ کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اساتذہ اپنی صفوں میں موجود بدنامی کا باعث بننے والے عناصر کے خلاف خود میدان میں اتریں۔ ان کے خلاف کارروائی میں معاون کردار ادا کریں۔ انہیں خود سزا و جزا کے عمل سے گزاریں۔ عزت کے حق دار وہ ہوتے ہیں جو اپنی عزت کو مجروح ہونے سے بچا کر رکھیں۔ اپنے دامن کو خود داغ دار کرنے والوں کی کوئی عزت نہیں ہوتی۔ چاہے وہ معلم ہو، عالم ہو یا کسی اور پیشے سے تعلق رکھتا ہو۔
خیبر پختونخوا حکومت نے اگرچہ وزیر اعلا محمود خان کے نوٹس پر امتحانی مرکز کے عملے، سپرنٹنڈنٹ ہمایوں خان ایس ایس ٹی گورنمنٹ مڈل سکول بارون لوئر دیر، نگران رحمت علی ہیڈ ماسٹر گورنمنٹ ہائی سکول کوٹلی، تحصیلِ کبل سوات اور کنٹرولر ملاکنڈ بورڈ میاں وزیر جان کو شو کاز نوٹس جاری کرتے ہوئے فرائض میں غفلت اور نظم و نسق کی خلاف ورزی کے مرتکب قرار دیا ہے، انہیں تحویل میں لے کر سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا ہے، ان کے خلاف ایف آئی آر درج بھی کی جاچکی ہے، ان سے پندرہ دن کے اندر تسلی بخش جواب بھی مانگا گیا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا تمام تر ثبوتوں کے باوجود وہ تسلی بخش جواب دیں سکیں گے؟ کیا فرائض میں غفلت اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے ان مرتکبین کو قرار واقعی سزا دے کر محکمۂ تعلیم کی بدنامی اور اساتذہ کے دامن کو داغ دار کرنے والے ان ملزموں کو نشانِ عبرت بنایا جائے گا؟ اگر نہیں تو یہ انفیکشن مستقبل میں مزید اساتذہ کو اپنی لپیٹ میں لے کر سرایت کرجائے گا اور ناسور بن کر لاعلاج صورت اختیار کرے گا۔
اس موقع پر انوسٹی گیشن جرنلزم کا حق ادا کرنے والے تیمرگرہ پریس کلب کے صحافی شاہ فیصل افغانی کا کردار لائقِ تحسین ہے، جس نے امتحانی مرکز میں اس گھناؤنے کاروبار میں ملوث عناصر کو بے نقاب کرکے حقائق سے پردہ اٹھانے میں کردار ادا کیا ہے۔
مَیں کنٹرولر ملاکنڈ بورڈ کے بیٹے ثاقب سے بھی ہمدردی کا اظہار کرتا ہوں۔ وہ بچہ ہے، ناسمجھ ہے، بچے کورے کاغذ جیسے ہوتے ہیں۔ ان پر جو تحریر کیا جائے، وہی پڑھا جاتا ہے۔ قصور ثاقب کے والد کا ہے جس نے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا۔ بیٹے کو محنت کی بجائے دوسرے کے حق پر ڈاکا ڈالنے کی عملی تربیت دی۔ معزز اساتذہ کے دامن پر دھبے کا باعث بن گیا۔ کنٹرولر صاحب کے اس طرزِ عمل سے مستقبل کے معماروں کو بھی غلط پیغام مل گیا ہے۔ ہیڈ ماسٹر رحمت علی، ایس ایس ٹی ہمایوں خان اور دوسرے شریکِ جرم معاونین کو صرف اتنا عرض کرتا ہوں کہ اگر ضمیر زندہ ہے اور ایمان باقی ہے، تو حقائق کو ہرگز مسخ مت کیجیے۔ سچ کو جھوٹ کے لحاف میں مت ڈھانپیں۔ اپنے کیے پر پردہ مت ڈالیں۔ نہ صرف قوم سے سرِ عام معافی مانگیں بلکہ اپنے گناہ کو قبول کرکے رب سے بھی معافی طلب کیجیے۔ اس عمل سے اساتذہ کی ساکھ بھی بحال ہوجائے گی اور آپ کے ضمیر سے بوجھ بھی اُتر جائے گا۔ تمام معزز اساتذہ سے التجا ہے کہ وہ کسی بھی صورت افسرانِ بالا کے ناجائز فرمان اور غیر قانونی حکم کی پاس داری کرنے کے پابند نہیں۔ ہر وہ حکم ماننے سے صاف صاف انکار کیا کریں جو غیر قانونی ہو۔ آپ اگر حق پر قائم رہے، تو دنیا کی کوئی طاقت نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ جو لوگ اللہ، اللہ کے رسول اور یومِ حساب پر یقین رکھتے ہیں، وہ خطا کرسکتے ہیں لیکن جان بوجھ کر دوسرے کا حق کبھی نہیں کھا سکتے۔ دھوکا نہیں دے سکتے۔ ایمان دار لوگ کبھی خیانت نہیں کرتے۔ من حیث القوم ہم سب کو معاشرہ میں اچھا کردار ادا کرنا ہوگا۔
ثاقب قصور وار نہیں، اس کا والد قصور وار ہے۔ تعلیمی نظام اور اور سب سے بڑھ کر بورڈ کا فرسودہ سسٹم بدلنے کی ضرورت ہے۔
…………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔