بول کہ لب آزاد ہیں تیرے

وطنِ عزیز ملک پاکستان میں گذشتہ ایک سال کے دوران میں (پچھلے سال مئی کے مہینے سے لیکر رواں سال اپریل کے مہینے تک) 148 ایسے واقعات ریکارڈ پر موجود ہیں جن میں صحافیوں پر حملے کیے گئے ہیں۔ اس اعداد و شمار سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہمارا ملک صحافت اور صحافیوں کے لیے کتنا محفوظ ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ قارئین کے علم میں اضافہ کے لیے بتاتا چلوں کہ ’’ورلڈ فریڈم انڈکس‘‘ کے ڈیٹا (رپورٹ) کے مطابق پاکستان دنیا بھر میں آزادیِ اظہار رائے اور صحافت کے لیے 180 ممالک میں سے 145ویں نمبر پر ہے۔ اسی رپورٹ کے مطابق فلسطین 132ویں جب کہ افغانستان 122ویں نمبر پر ہے، یعنی اِن دونوں ممالک میں ایک ملک ہم سے 13 جب کہ دوسرا 23 نمبر آگے ہے۔
اسی طرح پچھلے سال اکتوبر کے مہینے میں ’’کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس‘‘ کی جانب سے جاری کردہ ’’گلوبل امپیونٹی انڈیکس‘‘ میں پاکستان کو ان 12 ممالک کی فہرست میں 9ویں نمبر پر رکھا گیا، جہاں صحافیوں کو ان کے کام کی وجہ سے قتل کیا گیا اور ان کے قاتلوں کو اب تک انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا جاسکا۔
اسی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ایسے 15 کیس ہیں جو اَب تک حل طلب ہیں۔بدقسمتی سے اِن تمام تر حملوں میں زیادہ تر وطنِ عزیز کے دارالحکومت یعنی اسلام آباد میں رو نما ہوئے۔ اس سلسلے میں ’’فریڈم نٹ ورک‘‘ کی طرف سے اسلام آباد کو صحافیوں کے لیے خطرناک شہر قرار دیا جا چکا ہے ۔
پچھلے دنوں نامور صحافی اسد علی طور پر ان کے فلیٹ میں حملہ ہوا جس میں تین افراد اسد علی طور کے فلیٹ میں گھس کر اُن پر مبینہ تشدد کرکے کئی گھنٹوں تک یرغمال بنائے رکھا۔ اس سے پہلے سابق چیئرمین ابصار عالم کو اُن کے گھر کے سامنے ایک باغ میں چہل قدمی کے دوران میں گولی ماری گئی۔ ان کو بعد میں ہسپتال منتقل کر دیا گیا اور یوں اُن کو ایک نئی زندگی مل گئی۔ اس سے بھی پہلے مطیع اللہ جان کو نامعلوم افراد نے اِغوا کرکے بعد میں چھوڑ دیا۔ افسوس کے ساتھ لیکن یہ تینوں واقعات ایک ہی شہر اسلام آباد کے ہیں۔
یہ سوال اپنی جگہ کہ صحافیوں پر حملے کرنے والے کون ہیں؟ لیکن ساتھ میں یہ بھی حقیقت ہے کہ صحافیوں پر حملے ہونے کے بعد کچھ طاقت ور حلقوں کی طرف سے پروپیگنڈا کے ذریعے ایک منظم مہم جوئی ضرور شروع کر دی جاتی ہے۔ جس میں صحافیوں پر ملک دشمنی، غداری اور یہاں تک کے دوسرے ملک کے ایجنٹ ہونے تک کے جھوٹے اور بے بنیاد الزامات لگا دیے جاتے ہیں۔ آج کل تو ’’لڑکی کے بھائی نے مارا‘‘ جیسے جملے بھی سننے کو ملتے ہیں۔ شاید ان حملوں سے پہلے اور بعد میں بننے والی صورتِ حال سے ہمیں پہلے سوال کا جواب بھی مل جاتا ہے۔
المیہ دیکھیں کہ یہاں ایک صحافی پر جان لیوا حملہ ہوتا ہے، باقی صحافی ان سے اظہارِ یکجہتی کے لیے احتجاج کے طور پر باہر نکلتے ہیں۔ کچھ صحافیوں کو اِن دونوں کے خلاف بولنے پر لگایا جاتا ہے۔یوں اولین صحافی پر ہونے والے حملے کا ذکر منظر عام سے غائب ہو جاتا ہے۔
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
……………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔