سینٹرل لندن میں ’’ماربل آرچ‘‘ سے ’’کرکل ووڈ‘‘ کی طرف جائیں، تو ’’ایجوئر روڈ‘‘ پر ’’پیڈنگٹن گرین پولیس اسٹیشن‘‘ کے بالمقابل ایک چھوٹی سی چیریٹی شاپ ہے۔ جب میں اس چیریٹی شاپ میں داخل ہوا، تو اندر ایک چھوٹے سے کیبن نما کمرے میں عبدالستار ایدھی بیٹھے ہوئے تھے۔ مجھے مسکرا کر ملے۔ بات چیت کا سلسلہ شروع ہوا اور پھر یہ گفتگو ایک طویل انٹرویو کی شکل اختیار کر گئی (جس کی تفصیل میری کتاب ’’کامیاب لوگ‘‘ میں شامل ہے۔) ایدھی صاحب عملی انسان تھے۔ بہت زیادہ بات چیت اور نمود و نمائش کا انہیں شوق نہیں تھا۔ لاچار، مجبور، بے سہارا، مفلوک الحال، معذور، لاوارث، معاشرے کے ستائے اورٹھکر ائے ہوئے لوگوں کی فلاح و بہبود ان کی زندگی کا مشن تھا اور ان کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی یہ مشن جاری ہے۔ مجھے کراچی میں ان کے دفتر میں بھی ملنے کا اتفاق ہوا، جہاں وہ ایک پرانے میز کرسی پر بیٹھ کر کام کیا کرتے تھے۔ انہوں نے زندگی بھر کبھی اپنے لیے کسی ایوارڈ یا اعزاز (نوبل پرائز)کے لیے کوئی لابنگ نہیں کی اور نہ انہیں تقریبات میں مہمان خصوصی ہی بننے یا اپنے اعزاز میں عشائیوں کا اہتمام کروانے کا شوق تھا۔
24 برس پہلے کی بات ہے کہ جب مَیں روزنامہ جنگ لندن میں کام کیا کرتا تھا،ان دنوں ایدھی صاحب کو جنگ فورم میں شرکت کے لیے راضی کیا گیا۔ فورم کے بعد ایک خوشحال اور متمول پاکستانی نے ایدھی صاحب کو گھیر لیا اور ان کے اعزاز میں ایک عشائیے کے اہتمام کا اصرار کرنے لگا۔ ایدھی صاحب نے مسکراتے ہوئے استفسار کیا کہ ڈنر میں کتنے لوگ ہوں گے؟ تو اس نے جواب دیا ایک سو سے زیادہ لوگ ہوں گے اور یہ عشائیہ لندن کے ایک اعلا ریستوران میں منعقد ہوگا۔ ایدھی صاحب نے پھر پوچھا کہ اس پر کتنی رقم خرچ ہوگی، تو اس امیر آدمی نے جواب دیا کہ خرچے کی فکر نہ کریں، اس کا سارا انتظام ہو جائے گا۔ ایدھی صاحب نے کہا کہ جتنی رقم تم اس عشائیے پر محض مجھے خوش کرنے کے لیے خرچ کرو گے، اگر یہی رقم تم میرے ادارے کو دے دو، تو مجھے زیادہ خوشی ہوگی اور اس رقم سے سیکڑوں بھوکے اور مستحق لوگ کئی دن پیٹ بھر کر کھانا کھائیں گے۔ ایدھی صاحب کی یہ بات سن کر اس شخص کو دھچکا لگا لیکن جب اس نے ایک لمحے کے لیے غور کیا، تو اسے ایدھی صاحب کی بات زیادہ مفید لگنے لگی اور اس شخص کے دل میں ملیشیے کے لباس اورہوائی چپل والے تھیلا بردار ضعیف شخص کے خلوص کی قدر اور زیادہ بڑھ گئی۔
مجھے عبدالستار ایدھی صاحب کی باتوں اور ملاقاتوں کا حوالہ دینے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ برطانیہ میں بہت سے اُوورسیز پاکستانیوں نے ایسی ’’چیریٹی آرگنائزیشنز‘‘ بنا رکھی ہیں جن کو سالانہ لاکھوں پاؤنڈ کی امداد اور خیرات ملتی ہے، جس سے ان کے فلاحی منصوبے اور انسانی بہبود کے پراجیکٹ بھی چل رہے ہیں، لیکن ان چیرٹی آرگنائزیشنوں کے سربراہ اوربانی ان خیراتی اداروں کو اپنی لمیٹڈ کمپنی کے طور پر چلاتے ہیں۔ ذاتی نمود و نمائش ان کی اولین ترجیح ہوتی ہے۔ ہوائی اڈوں پر روانگی اور جہاز کے اندر براجمان ہونے کی تصاویر سے لے کر اپنے اعزاز میں تقریبات کی فوٹوز کی جس طرح سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ پر تشہیر کی جاتی ہے، اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ خود کو چیریٹی ورکر قرار دینے والے دراصل چیریٹی ٹائیکون بن کر لوگوں کو اپنی اہمیت کا احساس دلانا چاہتے ہیں۔ یہ چیریٹی ٹائیکون پاکستان کے قومی اور سرکاری اعزازات کے حصول کے لیے جو جتن اور لابی کرتے ہیں اور مختلف ٹی وی چینلوں پر اپنے انٹرویو اور پروگرام نشر کروانے کے لیے جو پاپڑ بیلتے ہیں،یا سینیٹر بننے کی خواہش میں سیاسی قائدین کی خوشنودی حاصل کرنے کے چکر میں پڑے رہتے ہیں، اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔
یہ چیریٹی ٹائیکون نہ صرف اپنے اپنے مسلک کے پیروں کی پذیرائی اور ان کے علاقوں میں فلاحی اور سیاسی منصوبوں پر بے دریغ پیسہ خرچ کرتے ہیں ہیں، بلکہ بہت سے صحافیوں کو اپنے چیریٹی پراجیکٹوں کے معائنے کے لیے خیرات کی رقم سے غیر ملکی دوروں پر لے جاتے ہیں۔ ہمارے یہ چیریٹی ٹائیکون ذاتی تشہیر کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ یہی وجہ ہے کہ برطانیہ میں بہت سی ایسی چیریٹی آرگنائزیشن جن کو ذاتی نام و نمود کے خواہشمند پاکستانی چلا رہے ہیں، اب ان کو ملنے والے عطیات میں گذشتہ دو دہائیوں یعنی بیس برس کے دوران میں نمایاں کمی آچکی ہے اور ان اداروں کے بارے میں شکایات بھی برطانیہ کے چیریٹی کمیشن تک پہنچتی رہتی ہیں۔
چیریٹی ورکر ہونے کے یہ دعوے دار یار نہ تو ایدھی صاحب کی طرح ملیشیے کا لباس اور ہوائی چپل پہنتے ہیں اور نہ اپنے فلاحی سنٹر میں پکنے والی دال روٹی سے شکم کی آگ بجھاتے ہیں ۔ ان کا ذریعۂ معاش، غیر ملکی دورے، ہوائی سفر اور پرسنل پبلسٹی سب کا انحصار خیرات میں ملنے والے عطیات پر ہوتا ہے۔
یہ چیریٹی ٹائیکون پُرتعیش زندگی گزارتے ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ اُن کا احترام عبدالستار ایدھی کی طرح کیا جائے۔ معلوم نہیں ہمارے یہ چیرٹیی ٹائیکون کب خودفریبی کے خول سے باہر نکلیں گے۔ برطانیہ میں کوئی بھی خیراتی ادارہ چیریٹی کمیشن میں رجسٹریشن کے بغیر عطیات اور خیرات جمع نہیں کرسکتا۔ اس وقت برطانیہ میں 1 لاکھ 70 ہزار ادارے چیریٹی آرگنائزیشن کے طور پر رجسٹر ہیں جن کو سالانہ75 بلین پاؤنڈ کے قریب عطیات یعنی ڈونیشنز ملتے ہیں اور یہ رقم پاکستان کے سالانہ بجٹ سے بھی زیادہ ہے۔
برطانیہ میں رجسٹرڈ مسلم چیریٹیز کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے جن کو کئی ملین پاؤنڈ سالانہ ڈونیشن ملتا ہے اور یہ آرگنائزیشنز اس رقم سے کئی غریب مسلم ملکوں میں اپنے فلاحی پراجیکٹس کااجرا کرتی ہیں۔ ان مسلم خیراتی اداروں کو عطیات دینے میں برطانوی مسلمان پیش پیش ہوتے ہیں۔ گذشتہ سے پیوستہ برس پاکستان کے ایک بہت بڑے عالمِ دین اور مفکر سے کسی نے ٹی وی پروگرام میں استفسار کیا کہ مسلمانوں کو چیریٹی یا خیرات؍ عطیات دیتے وقت کن ترجیحات کو پیشِ نظر رکھنا چاہیے؟ اس مذہبی دانشور نے اس سوال کا بہت عمدہ اور شرعی جواب دیا جو ہم سب کے لیے ایک طرح سے قابلِ تقلید ہے۔ انھوں نے کہا کہ جب آپ کوئی عطیہ یا چیریٹی دینے لگیں، تو سب سے پہلے یہ دیکھیں کہ کیا آپ کے قریبی رشتے داروں یا اہل و عیال میں کوئی اس کا مستحق ہے؟ اگر قریبی رشتے داروں میں کوئی مستحق نہ ہو، تو اپنے مستحق ہمسائے کو یہ عطیہ دیں اور اگر کوئی ہمسایہ مستحق نہ ہو، تو محلے داروں میں کسی مستحق کو تلاش کریں۔ اگر محلے داروں میں بھی کوئی مستحق نہ ملے، تو دور پرے کے عزیزوں اور رشتے داروں میں کسی مستحق کی مدد کریں اور وہاں بھی کوئی مستحق نظر نہ آئے، تو پھر کسی چیریٹی آرگنائزیشن کے ذریعے اپنے عطیات مستحقین تک پہنچانے کا آپشن اختیار کریں۔ زکوٰۃ، خیرات اور عطیات کے سلسلے میں ہمیں اس عالمِ دین کی طرف سے بتائی جانے والی ترجیحات کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ ویسے بھی مسلمان عطیات اور خیرات دینے میں بہت فراخ دل ہیں۔ اگر وہ اس معاملے میں اپنی ترجیحات درست کرلیں، تو ہمارے بہت سے قریبی رشتے دار معاشی مشکلات سے نجات پاسکتے ہیں۔
…………………………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔