توازنِ فطرت اور وبائیں

ہر سال 5 جون کو عالمی یومِ ماحولیات منایا جاتا ہے۔ اس دن کے منانے کا مقصد یہ ہے کہ کرۂ ارض کے مکینوں میں یہ تصور اُجاگر کیا جائے کہ وہ ماحولیاتی توازن کو بر قرار رکھیں۔ موجودہ دور میں آبادی میں تیزی سے اضافہ نے ماحولیاتی توازن کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ جنگلات کا تیزی سے خاتمہ ہورہا ہے جس کے نتیجے میں پانی کے ذخائر محدود ہورہے ہیں اور جنگلی حیات کے مسکن تباہ ہوکر ان کی نسلیں معدوم ہو رہی ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق کرۂ ارض پر بسنے والے انسانوں نے گویا توازنِ فطرت کے خلاف جنگ شروع کررکھی ہے۔ زمین پر حیاتیاتی تنوع سے لاپروائی برتنے پر اور ہر روز پھیلی ہوئی انسانی سرگرمیوں کے باعث دس لاکھ حیاتیاتی اقسام کے ہمیشہ کے لیے مٹ جانے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ آب و ہوا میں بگاڑ کا سلسلہ جاری ہے۔ ماحولیاتی آلودگی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور ہر سال ایک کروڑ ہیکٹر پر محیط جنگلات کا خاتمہ ہو رہا ہے۔ بڑے پیمانے پر شکار سے سمندر مچھلیوں سے خالی ہورہے جب کہ سمندر میں پلاسٹک کے مل جانے سے تیزابی اثرات پیدا ہوکر آبی حیات کے لیے شدید خطرات پیدا ہورہے ہیں۔
حیاتیاتی تنوع کے سلسلے میں ایک پیغام میں اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوترلیس نے کہا کہ اگر ہم اس طرح فطرت سے لڑائی جاری رکھیں گے، تو اس میں شکست ہماری ہی ہوگی۔ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ دنیا میں انسان ہی کے ہاتھوں ماحولیاتی نظام تباہی سے دوچار ہے۔ زرعی اور آبی اراضی سکڑتی جارہی ہے اور صحرا وسیع ہورہے ہیں۔ فطرت، زمین پر ایک قابلِ عمل اور بیدار طرز حیات کی ضمانت دیتی ہے لیکن حیاتیاتی تنوع میں تشویشناک حد تک کمی واقع ہورہی ہے۔
انتونیوگوترلیس نے مزید کہا کہ موجودہ عالمی وبا یعنی کرونا نے فطرت اور انسان کے مابین رشتے کی اہمیت کو اُجاگر کیا ہے۔ کیوں کہ انسان کے زمین کا غلط استعمال اور جنگلی حیات کی مسکن میں مداخلت کے نتیجے میں ’’کورونا‘‘ اور’’ایبولا‘‘ جیسے متعدی امراض سامنے آئے۔ متعدی امراض میں سے زیادہ تر جانوروں سے انسانوں میں پھیلے یا منتقل ہوئے۔ لہٰذا موجودہ عالمی وبا کورونا نے ہمیں یہ موقع دیا کہ ہم ماحولیاتی توازن کو بر قرار رکھیں۔
٭ حاصلِ نشست:۔
جنگلی حیات اور وبائیں:۔ یہ ایک مسلمہ بات ہے کہ زمین پر جب جنگلات برقرار اور وافر ہوں گے، تو جنگلی حیات بھی اپنے مسکن میں محفوظ و مامون ہوگی۔ بعض اوقات جنگلی جانور اور حشرات بھی مختلف قسم کی عام اور متعدی بیماریوں سے متاثر ہوتے ہیں لیکن خدا تعالا کی حکمت دیکھیے کہ ان گھنے جنگلات میں ایسی جڑی بوٹیاں اور پودے وغیرہ ہوتے ہیں کہ یہ بیمار جانور خدا کے حکم سے انہیں خاص طریقوں سے استعمال کرتے ہیں اور اسی طرح انہیں ان بیماریوں سے نجات ملتی ہے۔ اگر جنگلات کم ہوں اور مذکورہ جڑی بوٹیاں انسانی دست برد سے تلف ہوجائیں، تو یہ بیمار جانور، پرندے اور حشرات انسانی آبادیوں کا رُخ کرتے ہیں اور اسی طرح مختلف وبائیں ان سے انسانوں میں منتقل ہوتی ہیں۔ ہم نے خود بھی جنگلی اور پہاڑی علاقوں کے باشندوں، بڑے بوڑھوں اور تجربہ کار شکاریوں سے سنا ہے کہ فلاں جنگلی جانور کو جب کھانسی لگتی ہے، تو وہ فلاں جڑی بوٹی یا درخت کا پتا استعمال کرتا ہے، تو خدا کے حکم سے صحت یاب ہوتا ہے۔ کسی جنگلی جانور کو خارش کی بیماری لاحق ہوتی ہے، تو مخصوص قسم کا پھل، بیج اور یا جڑ استعمال کرتا ہے جب کہ زخمی جانور یا پرندہ ایک خاص قسم کے پودے سے اپنا زخم رگڑتا ہے اور اسی طرح اس کا زخم مندمل ہوجاتا ہے۔ یہ سب اللہ تعالا کی حکمتِ کا ملہ ہے کہ اس نے اپنی مخلوقات اور جانوروں کو یہ علم ودیعت کی ہے کہ وہ خالقِ کائنات کی پیدا کردہ اشیا کو کام میں لاکر اپنے دُکھوں کا مداوا کریں۔
فاعتبرو یا اولی الابصار!
………………………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔