ایک زمانہ تھا کہ چیچک، تپ دق، کوڑھ یعنی جزام، خسرہ، فالج، پولیو اور کینسر لاعلاج امراض سمجھے جاتے تھے اور ان بیماریوں کے شکار ہوکر دنیا بھر میں لاکھوں لوگ موت کی آغوش میں چلے گئے ہیں۔ ان میں بیشتر امراض متعدی کہلاتے تھے یعنی ایک سے دوسرے کو لگ جانے والے۔ یہی وجہ تھی کہ یہ امراض خوف و دہشت کی علامت بنے ہوئے تھے اور ان کا شکار ہونے والے مریضوں کے قریب جانے اور ان سے میل جول رکھنے سے ان کے قریبی رشتہ دار بھی کترایا کرتے تھے۔ یوں مریض مکمل طور پر تنہائی اور کسمپرسی کا شکار ہو جاتے جبکہ ایک طرف ان انسانیت دشمن امراض نے پنجے گاڑھ کر دہشت اور وحشت کا بازار گرم کر رکھا تھا، تو دوسری جانب طبی مراکز اور علاج معالجے کی سہولیات نہ ہونے کے باعث مریض بے بسی کے عالم میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر زندگی کی بازی ہار جاتا۔ ایسے میں اقوام عالم جاگ اٹھیں اور ان امراض کے خلاف سینہ سپر ہونے کی ٹھان لی۔ بین الاقوامی سطح پر تحریکیں اور آگاہی مہمات چلیں، جن کے نتیجے میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیوایچ او) کا قیام ممکن ہوسکا۔ دنیا کے مختلف ممالک میں عالمی ادارۂ صحت کے ذیلی ادارے اور تحقیق کے نتیجے میں لاعلاج امراض کو قابل علاج بنانے کے لئے تحقیقاتی مراکز قائم کئے گئے۔ بڑے پیمانے پر فنڈ جمع کرانے اور اس کی فراہمی کی بدولت بین البراعظمی سطح پر طبی مراکز قائم کرکے ایمرجنسی بنیادوں پر علاج معالجے کی سہولیات فراہم کی گئیں۔ ان لاعلاج امراض کے تدارک اور شہریوں کو حفاظتی تدابیر کے تحت خود کو محفوظ بنانے کے لئے بھی دنیا بھر میں خصوصی آگاہی مہمات چلائی گئیں۔ یہ تمام کوششیں، کاوشیں اور جنگی بنیادوں پر اٹھائے گئے مؤثر اقدامات بالآخر رنگ لے آئے اور نتیجہ یہ ثابت ہوا کہ چیچک اور کوڑھ یعنی جذام جیسے لاعلاج جان لیوا امراض کا تو مکمل خاتمہ ہوگیا جبکہ ٹی بی، خسرہ، فالج، پولیو اور کینسر جیسے امراض کو قابل علاج بنایا گیا، چونکہ کینسر کی بے شمار اقسام ہیں جن میں بیشتر کا علاج ممکن ہے جبکہ کینسر کی جو اقسام اب بھی لاعلاج اور جاں لیوا سمجھی جاتی ہیں، ان کا علاج ممکن بنانے کے لئے دن رات تحقیق کا مؤثر کام ہو رہا ہے۔ فالج کا مرض لوگوں کو لاحق ہوجاتا ہے لیکن یہ مرض بھی اب لاعلاج نہیں رہا۔ اسی طرح پولیو کے مکمل خاتمے کے لئے پانچ سال تک کے بچوں کو پولیو ویکسین کے قطرے پلائے جاتے ہیں اور گو کہ اب بھی کبھی نہ کبھی پولیو کا کوئی نہ کوئی کیس سامنے ضرور آجاتا ہے، تاہم یہ مرض وبائی صورت میں موجود نہیں اور عالمی ادارۂ صحت کے مالی تعاون سے ریاستی سطح پر اٹھائے جانے والے مؤثر اقدامات کو دیکھتے ہوئے امید کی جاسکتی ہے کہ عنقریب اس مرض کا بھی مکمل خاتمہ ممکن ہوجائے گا۔

تاہم اس وقت ہمیں جس خوفناک اور جاں لیوا مرض کا سامنا ہے، وہ ہے ایچ آئی وی (ایڈز) جو بڑی تیزی سے معاشرے میں سرائیت کر رہا ہے۔ ایڈز خوفناک اور لاعلاج ہونے کے ساتھ ساتھ ایسا بےغیرت مرض ہے جو کسی کو لاحق ہو جائے، تو وہ معاشرے میں جگ ہنسائی کے خوف سے اس کا علاج کرانے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتا ہے اور کسی کو بتانے کی بجائے شرم کے مارے منھ چھپاتا پھرتا ہے۔ شائد اس لئے کہ ایڈز ہونے کے عوامل میں ایک بڑی وجہ جنسی بے راہ روی قرار دی جاتی ہے جسے ہمارے ہاں معیوب تصور کیا جاتا ہے۔ حالاں کہ حقیقتِ احوال یہ ہے کہ ایچ آئی وی ہونے کاسبب جنسی بے راہ روی کے سوا اور بھی ہوسکتا ہے۔ مثال کے طور پر انجکشن لگنے اور انتقالِ خون سے بھی ایچ آئی وی جسم میں داخل ہوسکتا ہے۔

ایڈز کی وجہ جنسی بے راہ روی کو گردانا جاتا ہے۔ حالاں کہ حقیقتِ احوال یہ ہے کہ ایچ آئی وی ہونے کاسبب جنسی بے راہ روی کے سوا اور بھی ہوسکتا ہے۔ مثال کے طور پر انجکشن لگنے اور انتقالِ خون سے بھی ایچ آئی وی جسم میں داخل ہوسکتا ہے۔

ایک نجی ٹی وی چینل کے حالیہ قومی سروے جس کی رپورٹ مختلف اخبارات نے بھی شائع کی ہے، کے مطابق پاکستان میں ایڈز کے مریضوں کی تعدادمیں ایک سال کے قلیل عرصے کے دوران میں 39 ہزار مریضوں کا اضافہ ہوا ہے جس کے بعد مریضوں کی تعداد ایک لاکھ 32 ہزار تک جا پہنچی ہے۔ سروے کے مطابق آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں ایڈز کے مریضوں کی تعداد بھی سب سے زیادہ ہے جو ساٹھ ہزار تک پہنچ چکی ہے۔ دوسرے نمبر پر سندھ میں یہ تعداد 52 ہزار ہے اور خیبرپختونخوا میں یہ تعداد 11 ہزار کے قریب ہوگئی ہے جبکہ بلوچستان میں ایڈز کے مریضوں کی تعداد تین ہزار ریکارڈ کی گئی ہے۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ایڈز کے مریضوں کی تعداد چھ ہزار بتائی گئی ہے۔

پاکستان میں ایڈز کے مریضوں کی تعدادمیں ایک سال کے قلیل عرصے کے دوران میں 39 ہزار مریضوں کا اضافہ ہوا ہے جس کے بعد مریضوں کی تعداد ایک لاکھ 32 ہزار تک جا پہنچی ہے۔

سروے کی ابتدائی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایڈز کے مریضوں کی بڑی تعداد انجکشن کے ذریعے نشہ لینے والوں کی ہے جبکہ جنسی بے راہ روی کے عادی افراد بھی اس موذی بیماری کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اگرچہ ایڈز سالوں سے ہمارے ملک میں خاموش سفر طے کر رہا ہے، تاہم مذکورہ سروے رپورٹ ایک خطرناک انکشاف ہے۔ کیوں کہ ایک سال کے قلیل عرصے میں اگر ایڈز کے مریضوں میں چالیس ہزار کے لگ بھگ اضافہ ہوسکتا ہے جس کے نتیجے میں مریضوں کی مجموعی تعداد ایک لاکھ بتیس ہزارتک جاپہنچتی ہے، تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوگا کہ یہ تعداد اگلے سال دو لاکھ سے تجاوز کرسکتی ہے۔
اب ضرورت اس امرکی ہے کہ اس موذی مرض کے تدارک کے لئے دیگر اقدامات کے ساتھ ساتھ جنگی بنیادوں پر ملک کے طول و عرض میں مؤثر عوامی آگاہی مہم چلائی جائے۔ گلی کوچوں، شہروں اور دیہاتوں میں قیمتی انسانی جانوں سے کھیلنے والے عطائی ڈاکٹروں کے خلاف بھی اقدامات اور غیر رجسٹرڈ کلینکس، ہسپتالوں اور عطائی ڈاکٹروں کے ذریعے ہونے والے پریکٹس پر بلاتوقف پابندی عائد کر دینی چاہئے۔ بصورت دیگر یہ موذی اور جاں لیوا مرض اسی طرح بڑھتا جائے گا اور ہم ہاتھ ملتے ہوئے سوائے افسوس کے کچھ نہیں کرپائیں گے۔