اٹلی کے شہر’’سسلی‘‘ میں 19ویں صدی میں پائے جانے والے مافیا کا تعلق خطرناک اَخلاقی جرائم، قتل مقاتلہ، چوری چکاری، ڈاکا زنی، جوا، اغوا برائے تاوان، سمگلنگ، رقم کی غیر قانونی وصولی اور منشیات کے کاروبار کے لین دین سے تھا۔ اٹلی میں اِن مافیاؤں کا آغاز اُس وقت ہوا جب اطالوی معاشرہ جاگیر دارانہ سماج سے سرمایہ دارانہ نظام میں شامل ہونے لگا۔ وہاں جاگیرداروں کی جائیدادیں تھیں جن میں وہ اپنی پسند کے قوانین اپنے مسلح افراد کے ذریعے نافذ کیا کرتے تھے۔ سرمایہ دارانہ نظام بھی اپنے ساتھ مافیا لے کر آیا۔ بعض اوقات مافیا ایک ہی خاندان پر مشتمل ہوتا تھا۔ البتہ بعد میں دوسرے طاقت ور اس میں شامل ہوجاتے تھے۔ شہروں میں ہر مافیا کی اجارہ داری ایک مخصوص علاقے تک ہوتی تھی۔ یہ لوگ خود کو باعزت اور بلند مرتبہ سمجھتے تھے، لیکن عوام اُنھیں جرائم پیشہ کہتے تھے۔
20ویں صدی میں جب یورپ سے کافی تعداد میں لوگ نقلِ مکانی کرکے امریکہ جانے لگے، تو سسلین مافیا کے بیس خاندان بھی امریکہ چلے گئے۔ سسلین مافیا نے امریکہ میں اپنے دھندے کو جاری رکھا اور امریکی ریاست کو ناکوں چنے چبوانے پر مجبور کیا، لیکن امریکہ کے ریاستی اقدامات سے مجبور ہو کر اُنھوں نے اپنا طریقۂ واردات بدل دیا۔ اس نے سٹا بازی، ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری کا کام شروع کرنے کے ساتھ سرمایہ کاری، صنعتوں اور اسٹاک ایکسچینج میں پیسا لگانا شروع کیا۔ پھر یہ لوگ ریاست اور اسمبلی کا حصہ بن گئے۔ ایوانوں میں اُنھوں نے قوانین بنائے جن کی رو سے اُنھیں نہ صرف ٹیکس کی مد میں بڑی چھوٹ ملی بلکہ اُنھوں کئی دیگر مراعات بھی حاصل کیں، لیکن امریکی ریاست نے چور چور کا شور نہیں مچایا بلکہ اُن کے خلاف قانونی کارروائیاں کرتی رہی۔
پاکستانی مافیا دنیا کے کسی بھی مافیا سے کم نہیں۔ اس نے بھی دیگر مافیاؤں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے پاکستانی ریاست کو تگنی کا ناچ نچا دیا ہے۔ پاکستانی مافیا ریاست سے مراعات بھی لیتا رہا اور قیمتیں بڑھا کر عوام کو بھی دونوں ہاتھوں سے لوٹتا رہا۔ عمران خان کی بدقسمتی ہے کہ اُنھیں اقتدار ملا بھی تو اتحادیوں کے سہارے اور وہ بھی ایسے اتحادی جن کا سیاسی ٹریک ریکارڈ زیادہ قابلِ اعتماد نہیں۔ معیشت کی یہ حالت ہے کہ قرضوں تلے دبی ہے۔ اس کو قرض اور سود سمیت واپس کرنے کے لیے کئی نسلیں چاہئیں، جب کہ رہی سہی کثر کورنا وبا نے پورا کر دی۔ اِس پر مستزاد یہ کہ اُنھوں نے بیک وقت اُن عناصر کے خلاف سخت کارروائی شروع کی جو کئی عشروں سے اِس ملک پر حکمرانی کر رہے ہیں اور جو سیاست کے بل بوتے پر فقیر سے امیر بن گئے ہیں۔
مافیا عمران سے اِس لیے بھی ناراض ہے کہ اُنھوں نے اُن کو چھیڑا کیوں؟ مافیا کہتا ہے کہ ہم اُن کو بقیہ دو سال سانس لینے نہیں دیں گے اور اُن کے لیے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر طرح طرح کے مسائل پیدا کرتے رہیں گے۔ اس مافیا میں سے عمران خان نے جب پہلے اپنے دستِ راست جہانگیر ترین کے خلاف کارروائی شروع کی، تو اس دوران میں جہانگیر ترین علاج کے لیے امریکہ چلے گئے۔ مخالفین نے الزامات لگانا شروع کیے کہ عمران خان نے اپنے اے ٹی ایم مشین کو باہر بھگا دیا۔ پھر جب ایف آئی اے نے جہانگیر ترین کے خلاف کارروائی شروع کی، تو سب کے سب جہانگیر ترین کے ہم نوا اور عمران خان کے خلاف صف آرا ہوگئے۔ ایف آئی اے نے جہانگیر ترین سمیت 21 خاندانوں کے 39 شگر ملوں کو سٹے بازی میں درج ایف آئی آر پر تفتیش کے لیے سوال نامے بھجوا دیے۔ مونسی الٰہی، عمر شہریار ترین، ایم شمیم خان، میاں طیب، ہمایوں اختر، چوہدری منیر، میاں شفیع، ایم نواز چھٹا، نصرت شمیم، میاں رشید جاوید کیانی، دریشک، بختیار خسرو اور نذر شاہ وغیرہ کو سمن جاری کیے گئے ہیں۔
دوسری طرف ایف آئی اے لاہور نے سٹا مافیا اور جے ڈبلیو کیس میں جہانگیر ترین فیملی کے 36 اکاؤنٹ (چار امریکی ڈالر کے، دو برطانوی پاونڈ کے اور تیس اکاؤنٹ پاکستانی روپیہ کے) منجمد کر دیے ہیں۔ جہانگیر ترین خاندان کے یہ اکاؤنٹ منی لانڈرنگ، غیر قانونی شیئر کی خرید و فروخت اور سٹا مافیا سے تعلق کے الزام میں بند کر دیے گئے ہیں۔ منجمد اکاؤنٹوں میں علی ترین کے 21، جہانگیر ترین کے 14 اور اُن کی اہلیہ آمنہ ترین کا ایک اکاؤنٹ شامل ہے۔ جس دن جہانگیر ترین ایف آئی اے میں پیش ہوئے، اُسی دن شام کو اُنھوں نے اپنے حمایتیوں کے لیے ڈنر کا اہتمام کیا تھا۔ ڈنر میں نعمان لغاری، اجمل چیمہ، عبدالحئی دستی، امیر محمد خان، رفاقت علی، فیصل جیوانہ، راجہ ریاض، سمیع گیلانی، ریاض مزاری، خواجہ شیراز، مبین عالم، جاوید وڑائچ، غلام لالی، غلام بی بی بھروانہ، خرم لغاری، مہر اسلم بھروانہ، نذیر چوہان، شیخ سلمان، آصف مجید، عون چوہدری، بلال وڑائچ، عمرآفتاب ڈھلوں، طاہر رنداوا، زوار وڑائچ، نذیر بلوچ، امین چوہدری، افتخار گوندل، غلام رسول، سمن تھیم، سجاد وڑائچ اور نعمان لنگڑیال (ایم این اے، صوبائی وزیر، مشیر اور ایم پی اے صاحبان) نے شرکت کی۔
ڈنر کے شرکا سے نعمان لنگڑیال، شیخ سلمان، زوار وڑائچ اور عون چوہدری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جہانگیر ترین پی ٹی آئی کا اثاثہ ہیں اور بدترین حالات میں بھی پارٹی اور عمران خان کا ساتھ دیا۔ جہانگیر ترین کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔ پارٹی میں بعض افراد عمران خان کو غلط مشورے دیتے ہیں۔ انصاف لینے کے لیے عمران خان کے پاس جائیں گے۔
تجزیہ نگاروں کے خیال میں جہانگیر ترین کے اِس پاؤر شو سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف میں فاروڈ بلاک یا ایک نئی پارٹی بننے جا رہی ہے۔ جہانگیر ترین کے پاؤر شو میں جو آٹھ ایم این اے شریک ہوئے، اُن میں سات سینٹ الیکشن میں عبدالحفیظ شیخ کے ہار کا سبب بنے تھے۔
اخبار نویسوں کے ایک سوال کے جواب میں جہانگیر ترین نے کہا کہ مَیں تحریک انصاف کا حصہ تھا اور ہوں، میں کہیں نہیں جا رہا۔ مَیں تحریکِ انصاف اور عمران خان کا دوست ہوں۔ مجھے کیوں دشمن بنایا جا رہا ہے؟
قارئین، جہانگیر ترین جو بھی کہے مگر لگتا یہی ہے کہ اُنھوں نے تحریکِ انصاف سے راستہ جدا کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے جس کے لیے اُنھیں مناسب وقت کا انتظار ہے۔ ہفتے کو بینکنگ عدالت میں پیش ہونے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جہانگیر ترین نے کہا کہ میرے خلاف ایف آئی اے کے کیس بے بنیاد ہیں۔ اس میں کوئی حقیقت نہیں۔ جب کہ ایم این اے راجہ ریاض نے عمران خان کو دھمکی دے ڈالی کہ جہانگیر ترین کے خلاف کیس واپس نہ لیے گئے، تو ہم دوسرا راستہ اختیار کرسکتے ہیں۔ دوسری جانب سے عمران خان نے بھی اعلان کر رکھا ہے کہ جس کے خلاف کیس ہیں، وہ عدالت میں اپنی بے گناہی ثابت کر دیں۔
جو بھی ہو اگر تحریکِ انصاف اپنے پانچ سال پورے بھی کرلے، تو بھی آنے والے قومی الیکشن میں تحریکِ انصاف اور عمران خان کو بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پاکستانی مافیا تحریکِ انصاف کو ہرانے میں سب سے آگے ہوں گے۔
……………………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔