اللہ میرے حال پر رحم کرے اس تاثر، مضمون، خاکہ یا یہ جو کچھ بھی ہے اس کا پہلا جملہ یعنی عنوان ہی غلط لکھنے لگا تھا جو حملہ بن جانا تھا میری ممدوحہ شخصیت پر۔ بس ایک آدھ لفظ کی غلطی عرفان کو شیطان کی طرح مہنگی پڑ جانی تھی۔ مَیں اپنی غلطی کی براہِ راست نشان دہی تو نہیں کروں گا کہ اس سے میری شان پر کنیاں پڑتی ہیں۔ ویسے تو شان، نیلو کا ہو یا شان، عرفان کی اکثر خطرے ہی میں رہتی ہے۔ مَیں اپنا غلط جملہ لکھنے کی غلطی نہیں کروں گا۔ ورنہ یہ قاری کی فہم و فراست کا امتحان اور ایک غیرانعامی معمہ سا بن کر رہ جائے گا…… میرا جملہ کم و بیش اُس جملے سے ملتا جلتا تھا جو ایاز نے محمود کی فرمائش پر کہا تھا۔ محمود نے ایاز کو ایسا جملہ کہنے کو کہا تھا جسے وہ خوشی میں سنے تو دُکھ محسوس کرے اور دُکھ میں سنے تو خوشی محسوس کرے۔ ایاز کا جملہ کچھ ایسے تھا: ’’یہ وقت ہمیشہ نہیں رہے گا‘‘ (جو بعد ازاں اَزحد متاثرہو کر محمود نے اپنی انگوٹھی پر کندہ کروا لیا تھا) جو جملہ میں لکھتے لکھتے رہ گیا، اُس کی خالی جگہ پُر کریں تو خوشی اور دُکھ کی کیفیت لیے کئی الفاظ ہمارے ذہن میں حاضری لگوانے آن کھڑے ہوں گے اور حاضری لگتے ہی بھاگ کھڑے ہوں گے۔ کیوں کہ خالی جملے میں کسی بھی لفظ کو مستقل جگہ نہیں دی جا سکتی۔ ’’باعزت بری‘‘ اور ’’سینسر نے بخوشی پاس کر دیا‘‘ والا جملہ تو کئی بار پڑھا اور سنا تھا لیکن ’’باعزت ریٹائرمنٹ‘‘ والا معاملہ کبھی کبھی ہو تا ہے جو سیف صاحب کے ساتھ ہوا، ورنہ یہیں علی ظہیر منہاس جیسی منحوس مثال بھی موجود تھی جس کی وِگ کئی بار ہاتھوں ہاتھ لی گئی اور چُندیا ’’کئی چاند تھے سرِ آسماں‘‘ کی طرح چمکائی گئی۔ اُس کی رُخصتی ذلیل و خوار ہو کر عمل میں آئی۔ اُس ریٹائرمنٹ کو میں ریٹائرمنٹ نہیں مانتا جو ایکسٹینشن کی بیساکھیوں پر دس، پندرہ سال اور نکال جائے۔ ہمارے آرمی چیف صاحبان ’’بے عزت ریٹائرمنٹ‘‘ کی درخشاں مثال ہیں جو اُسے قانونی شکل دینے کی بجائے اپنے اپنے لیے ایکسٹینشن کا ’’بہشتی دروازہ‘‘ کھلواتے رہے۔
اسلامیہ کالج، سول لائنز، لاہور میں کارنر والا کمرہ جو کارنرز میٹنگز کے لیے ہی استعمال ہوتا تھا، سیف اللہ خالد کو کبھی فراموش نہ کر سکے گا کہ اس کاحق صرف اسی بندے نے ادا کیا۔ باقی سب بارات کے ساتھ پیسے لوٹنے والے تھے۔ اُن میں سے ایک صاحب تو ایسے بھی تھے جو ’’پی ایچ ڈی‘‘ میں ناکام ہونے کے بعد اپنے مسترد شدہ تھیسس کو وہاں فروخت کرنے کی کوشش میں لگے رہتے تھے۔ جو چیز ساحل کی لطافت کو نہ پا سکے اُسے غرقِ بحر ہی ہو جانا چاہیے۔ سیف اللہ خالد کے اس کمرے کو ’’ہائیڈ پارک کارنر‘‘ کا عوامی نام بھی دیا گیا۔ اسلامیہ کالج سول لائنز، لاہور کے معتبر جریدے ’’فاران‘‘ کی تدوین و تکمیل اسی تاریخی کمرے میں تمام مراحل طے کرتی تھی۔
سیف اللہ خالد نام تو ایسا ہے جو کسی فوجی جرنیل، کرنیل کو زیادہ سوٹ کرتا ہے مگر سیف اللہ خالد گو ’’فاتح فورٹ عباس ‘‘ تو نہیں مگر ’’مولودِ فورٹ عباس‘‘ تو سو فی صد ہیں۔ اس طرح اُن میں پیدائشی طور پر جرنیلی شان پیدا ہو چکی ہے۔ سیف اللہ خالد کی جرنیلی شان اُس وقت دیکھنے لائق تھی جب وہ پاکستان کے صفِ اوّل کے کالم نگار عطاء الحق قاسمی کے سامنے اپنے مضمون ’’شہابِ بے نقاب‘‘ کی ننگی تلوار لیے کھڑا تھا اور ڈکٹیشن پر لکھنے والے قاسمی کا مضمون دیکھ کرپیشاب خطا ہو رہا تھا۔ پانی کی یہ کمی قاسمی نمکول کی بجائے چمچی چمچی شراب پی کر پوری کر رہا تھا جس کی درجنوں پیٹیاں وہ ناروے سے لایا تھا۔ دیسی کُکڑ ابرار ندیم اسحرؔ الگ دیوار سے لگا کانپ رہا تھا۔ یہ اُن دنوں کی بات ہے جب نایاب نسل کے گنجے شیروں کی شریفانہ جوڑی مقاماتِ مقدسہ کی زیارت کو گئی تھی اور بھینگا سرکس ماسٹر جو 90 دن کے ٹکٹ پر موت کے افغانی کنوئیں میں گیارہ سال تک سائیکل چلاتا رہا تھاآموں کے لالچ میں بستی لال کمال کو پیارا ہو چکا تھا۔
عطاء الحق قاسمی اُن دنوں صرف کالموں کی کمائی پر زندہ تھا۔ پروفیسر سیف اللہ خالد کے مضمون میں اُسے 1122 والی کئی گاڑیوں کے سائرن بجتے نظر آئے۔ اُس نے مضمون اپنے اَدبی پرچے ’’معاصر‘‘ میں شائع کرنے سے معذرت کرلی جہاں وہ کچھ ہی عرصہ پہلے فیض احمد فیضؔ کے خلاف اَدبی جنگ بڑے احترام سے لڑوا چکا تھا۔ سیف اللہ خالد نے جس نیام سے مضمون کی تلوار نکالی تھی اُسی نیام سے ایک سال بعد ’’شہاب بے نقاب‘‘ کتاب نکالی۔ یہ کتاب تحقیق و تنقید کا اپنی جگہ ایک شاہکار ہے اور اُن ہزاروں قصیدوں پر بھاری ہے جو انعام و اکرام کے لالچ میں کسی بھی دور میں جانے کن کن مقدس ہاتھوں سے لکھے گئے۔
سیف اللہ خالد کا یہ کارنامہ کچھ ایسا تھا کہ جو لوگ محض اُن کے واقف تھے اُن کے قریبی دوست ہونے کا دعوا کرنے لگے۔ ایسا ہی ایک دعوا ڈاکٹر امجد طفیل نے بھی کیا جو راقم کے صرف 2 سوالوں کی مار ثابت ہوا۔ ڈاکٹر ابجدطفیل سے پوچھا گیا کہ وہ سیف اللہ خالد کا فون نمبر بتا سکتے ہیں؟ نیز یہ کہ ان کا مکان نمبر کیاہے؟ ڈاکٹر ابجد ان دونوں سوالوں کے جواب نہ دے سکے جب کہ انہیں ’’لائف لائن‘‘ بھی دی گئی اور ’’میموری کارڈ‘‘ کی مدد سے یہ انڈین گیت بھی سنوایا گیا: ’’میرے سوالوں کا جواب دو۔ دو ناں۔ دو ناں!‘‘ اور یہ ’’ہِنٹ‘‘ بھی دی گئی کہ سیف اللہ خالد کے فون نمبر اور گھر کے نمبر میں ایک تین ہندسوں والا عدد مشترک ہے۔ اس دو سوالاتی پروگرام کی میزبانی مشہور آرٹسٹ ریاض کر رہے تھے۔ اب چوں کہ یہ راز، راز نہیں رہا اس لیے تجسّس پسند اور سسپنس کے مارے ہوئے قارئین نوٹ فرما لیں سیف اللہ خالد کا لینڈلائن نمبر تا دمِ تحریر 042-37460100 ہے اور اُن کے گھر کا پتا کچھ اس طرح سے ہے: 100-F گلشنِ راوی، لاہور۔
ڈاکٹر ابجد طفیل اپنی آواز کی کرختگی سے اپنی لاعلمی پر جب بھی پردہ ڈالنے کی کوشش کریں گے، تو خود اُن کا نرخرہ اور دوسرے کے کان کا پردہ پھٹ جانے کے امکانات کو رَد نہیں کیا جا سکتا۔
سیف اللہ خالد کے فن اور شخصیت پر میں اس لیے کچھ زیادہ روشنی یا پانی نہیں ڈال رہا ہوں کہ اُن پر ایم فِل کا تھیسس اسلامیہ یونیورسٹی، بہاول پور سے ہوچکا ہے۔ مَیں تو اُن کی بھاری بھر کم شخصیت کو ہلکا پھلکا بناتے ہوئے اپنے قارئین کے سامنے پیش کرنے کی ادنا سی کوشش کر رہا ہوں۔ پھلکے سے یاد آیا اب تو کوئلے والی انگیٹھی پر اُلٹے توے والے پھلکے، پھولنے ہی بند ہو چکے ہیں جو شوقین مزاج چھوٹے گوشت کے شوربے کے ساتھ بہ طورِ خاص کھایا کرتے تھے۔ مشرقی اور مغربی پاکستان میں جہاں اور بہت سے تضادات تھے، وہیں یہ بھی تھا کہ مغربی پاکستان میں کسی بیمار کو ہلکی غذا کے طور پر چاول میں مونگ کی دال ڈال کر کھچڑی بنا کر دی جاتی تھی جب کہ مشرقی پاکستان میں جہاں لوگ تین وقت موٹا یا ٹوٹا چاول کھاتے تھے، وہاں مریض کو پھلکا بنا کر دیا جاتا تھا۔ کچھ یہی فرق صحرائی اور میدانی علاقے سے تعلق رکھنے والے نفوس میں بھی پایا جاتا ہے۔ گو سیف اللہ خالد کو لاہور میں رہتے ہوئے ایک عرصہ بیت چکا ہے مگر اُن کے اندر کا صحرائی سانپ کبھی کبھی اپنا پھن بھی پھیلاتا ہے اور شوکریں بھی مارتا ہے۔ اُس وقت ’’معززینِ شہر‘‘ کو ٹھنڈے پسینے آنے لگتے ہیں۔ ’’مغززینِ شہر‘‘ کی تعریف ضلعی انتظامیہ کے نزدیک کیا ہے؟ یہ ایک علیحدہ سے تحقیق طلب موضوع ہے۔
2 بار اُن کے گھر تبلیغی جماعت والے بھی حسبِ روایت بن بلائے تشریف لائے اور دونوں بار سیف صاحب نے اُنہیں بڑی دانش مندی اور فہم و فراست سے چلتا کیا۔ پہلی بار تبلیغی جماعت کے سربراہ نے انہیں کلمہ سنانے کو کہا، تو سیف صاحب نے کہا ’’کلمہ بدل گیا ہے؟‘‘ یہ سنتے ہی جماعت نے باجماعت راہِ فرار اختیار کی۔ دوسری بار جب تبلیغی جماعت سے سیف اللہ صاحب کا ٹاکرا ہوا، تو تبلیغی جماعت کے قائد نے حلق کی دسویں گہرائی سے آواز نکالتے ہوئے اپنا نام ’’مطیع اللہ‘‘ بتایا تو جواب میں سیف صاحب نے اپنا تعارف ’’متھرا داس چوہان‘‘ کہہ کر کروایا، تو پوری تبلیغی جماعت سناٹے میں آگئی۔’’مگر گھر کے باہر تو سیف اللہ خالد……؟‘‘ تبلیغی جماعت کے قائد نے تھوک نگلتے اور وضو ٹوٹنے سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہوئے بمشکل کہا۔ ’’یہ میرے مالکِ مکان کانام ہے۔ مَیں اُن کا کرایہ دار متھرا داس چوہان ہوں!‘‘ سیف صاحب نے رسانیت سے جواب دیا۔ ویسے بھی جب جان یا ایمان خطرے میں ہو، تو جھوٹ بولنا جائز ہے۔ وہ دن اور آج کا دن سیف اللہ خالد کا گھر تبلیغی جماعت کی حد تک محفوظ قرار پا چکا ہے۔
سیف اللہ خالد کو روٹین سے ہٹ کر کام کرنے کی عادت ہے بلکہ ہٹ ہٹ کر کرنے کی۔ اسی عادت نے انہیں ریٹائرمنٹ کے بعد جلد ہی دل کا مریض بنا دیا۔ ایک روز اچانک 1122 میں دل وارڈ پہنچے۔ ہنستے کھیلتے دو ’’سٹنٹ‘‘ ڈلوائے اور گھر آ گئے۔
’’میزانِ ادب‘‘ سیف صاحب نے میڈم نور جہاں کے قول ’’مینوں نوٹ وَخا میرا موڈ بنے‘‘ کو سامنے رکھ کر تیار کی تھی جس کی نقل بعدمیں غلام حسین ساجد نے ’’فیضانِ ادب‘‘ کے نام سے تیار کی۔ نقال کا تو کچھ نہیں بنا لیکن سیف صاحب نے ’’میزانِ ادب‘‘ سے اپنا گھر بنا لیا مگر محنت کی ایسی عادت پڑی کہ اب دل کی نہ سنتے ہوئے بھی کئی کام ’’ریسٹ‘‘ کے طور پر کر جاتے ہیں۔ مَیں نے اُن کی ایسی کئی بدپرہیزیاں پکڑی ہیں مگر بات اُن کے گھر تک نہیں جانے دی۔ کیوں کہ اُن کے گھر والے پہلے ہی سے جانتے ہیں۔ کتاب دینے کے معاملے میں اَزحد کنجوس ہیں مگر مہمان نوازی میں اس کی کسر نکال دیتے ہیں۔ اشفاق احمد کی طرح اکیلے نہیں بولتے دوسروں کو بھی پورا پورا موقع دیتے ہیں۔ اگر انہیں آنکھیں بند کرکے سنا جائے، تو بالکل ایسا لگتا ہے جیسے کوئی فلپس ریڈیو پر آل انڈیا اُردو سروس آف کرنا بھول گیا ہو۔ ورنہ وہ تو دوسروں کی بولتی بند کروا دینے والے آدمی ہیں۔
احمد ہمیش کے ساتھ مل کر انہوں نے ایک ’’افسانہ کانفرنس‘‘ کروانے کی کوشش بھی کی مگر احمد ہمیش اُن دنوں ضیا محی الدین کے کلاوے میں تھا۔ ٹھیک سے ہاتھ پاؤں نہ مار سکا۔ اینجلا ہمیش کی پرسنالٹی بھی اسپانسرز کو متاثر کرنے میں بری طرح ناکام رہی بلکہ ’’انٹری ٹیسٹ‘‘ کی طرز پر نیگٹیو مارکنگ کی حاملہ قرار پائی، لیکن سیف اللہ خالد کا خلوص افسانے کے ضمن میں ہر جگہ سراہا گیا۔ یہ تو اُس کانفرنس کی بات ہے جو نہ ہو سکی، مگر جو کانفرنس رشید مصباح نے فیصل آباد میں کروائی وہ شرکا، مندوبین اور کھانے پینے کی حد تک تو کامیاب رہی مگر رشید مصباح کو اُس کانفرنس کی داد سمیٹنے کا موقع اِس لیے نہیں ملا کہ کانفرنس پر انٹر کے سیکڑوں طلبہ کی داخلہ فیس کرپشن کی آخری حدوں کو چھوتے ہوئے غیر جمہوری انداز میں خرچ کر ڈالی گئی تھی۔ ’’نہ گھنٹا بجا نہ گھر بچا‘‘ اس کانفرنس کااعلامیہ اور المیہ سیکڑوں طالب علموں کا تعلیمی سال ضائع ہونا، رشید مصباح کی اپنی بیوی، کوٹھی، سواری اور بچوں سے دائمی محرومی بھی تھی۔ اگر اِسی کا نام ترقی پسندی ہے، تو لعنت ہے ایسی ترقی پسندی پر جو ایک سُرخے سیّد سجاد ظہیر کے ہاتھوں پروان چڑھی اور اب ایک جماعتیے ڈاکٹر سعادت سعید کے ہاتھوں مرنے چلی ہے۔ یہ ڈاکٹر ناول ’’خدا کی بستی‘‘ والا ڈاکٹر ہے، سلو پوائنزنگ کرنے والا۔
احمد ہمیش بھی رشید مصباح جیسا ہی جنونی، جذباتی اور بلند فشارِ خون میں مبتلا لاعلاج مریض تھا۔ عین ممکن تھا کہ وہ افسانہ کانفرنس کے چکر میں اپنے ساتھ ساتھ سیف صاحب کو بھی لے بیٹھتا۔ اس لیے ایسی افسانہ کانفرنس کے نہ ہونے ہی میں خاصے لوگوں کی عافیت اور باعزت بچت تھی۔
ہو سکتا ہے کہ سیف صاحب کو مجھ سے یہ گلہ ہو کہ میں نے اُن کے نام کے ساتھ ’’پروفیسر‘‘ کیوں نہیں لکھا، تو اس کی وضاحت یوں ہے کہ ’’پروفیسر‘‘ کا لفظ اپنے نام کے ساتھ صرف فُل پروفیسر ہی لکھ سکتا ہے۔ فُل پروفیسر کے علاوہ پروفیسر لکھنے پر انڈیا میں سزا ہوچکی ہے۔ مجھے کیا حق پہنچتا ہے کہ میں ریٹائرمنٹ کے بعد کسی کو پروموشن دیتا پھروں۔ اگر میں صابر لودھی کو اس حرکت سے باز کروا سکتا ہوں، تو سیف اللہ خالد کے لیے بھی کوئی استثنا نہیں۔
پاکستان میں تو شعبدہ بازاور سکولوں میں جادو کے کرتب دکھانے والے اپنے نام کا وزن بڑھانے کے لیے ’’پروفیسر‘‘ کا سابقہ اور ٹائٹل استعمال کرتے ہیں۔ ایسی ہی ایک مثال ارشد جاوید کی ہے جو اپنے نام کے ساتھ ’’پروفیسر‘‘ لکھتا ہے اور خود کو ماہرِ جنسیات قرار دیتا ہے۔ اس طرح تو پاکستان کا ہر ٹھرکی ’’ماہرِ جنسیات ‘‘ ہے۔
سیف اللہ خالد تحریرو تقریر دونوں میں یکساں مہارت رکھتے ہیں، مگر اس کے باوجود ’’ڈاؤن ٹو ارتھ‘‘ہیں۔ لیفٹ، رائٹ دونوں کے مزے لینے کے بعد اب صراطِ مستقیم پر چل رہے ہیں۔ جو سمن آباد موڑ اور بند روڈ کے درمیان واقع ہے۔ واصف علی واصفؔ کے قریب رہنے اور کئی ذاتی ملاقاتوں کا اعزاز بھی ان کو حاصل ہے۔ دوسروں کی کامیابیوں سے خوش اور اپنی زندگی سے مطمئن زندگی گزار رہے ہیں۔ گن پوائنٹ ٹیکس کی صورت میں آخری خبریں آنے تک ایک کار اور ایک "HONDA 125” قوم کو دے چکے ہیں۔ اب یہ قوم کی ہمت ہے کہ اِن سے مزید کیا کچھ نکلوا سکتی ہے!
………………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔