آج کل سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر امر جلیل صاحب کے افسانے ’’خدا گم ہوگیا ہے‘‘ کا بڑا چرچا ہے ۔ کچھ لوگ اس کو ادبی شاہکار سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مصنف کو ایک بڑا فلسفی ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اس کے برعکس اکثر لوگوں نے اس کو ایک گستاخانہ افسانہ قرار دیا ہے اور اسی وجہ سے جوش میں آکر مصنف کا ’’سر تن سے جدا‘‘ کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
قارئین، مجھے ان دونوں گروہوں سے اختلاف ہے۔ کیوں کہ افسانے میں کوئی ایسی بات نظر نہیں آئی جس کی وجہ سے یا تو اس کو ادبی شاہکار سمجھوں اور یا اس کو گستاخانہ قرار دے کر موصوف کو سزا دینے کا مطالبہ کروں۔
افسانے میں خدا سے عام سی باتیں اور گلے شکوے کیے گئے ہیں جن کے بارے میں اکثر لوگ سوچتے رہتے ہیں یا کم از کم سوچنا چاہتے ہیں۔ کچھ لوگ اس حوالے سے دوسروں کے ساتھ بھی گفت و شنید کرنا چاہتے ہیں لیکن اس ڈر کی وجہ سے خاموش رہتے ہیں کہ کوئی اس کو گستاخ سمجھ کر اس کی جان ہی نہ لے لے۔
افسانہ اپنے موضوع کے حوالے سے قابلِ ستائش ہے۔ کیوں کہ اس موضوع پر کم ہی لکھا جاتا ہے۔ خاص طور پر اُردو زبان کے قارئین اس موضوع سے بہت نا بلد ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب اُردو زبان نے اس کو اپنے دامن میں جگہ دی، تو طرح طرح کے سوالات اٹھنے لگے۔
ہمارے ہاں خدا کی ایسی عکاسی کی جاتی ہے کہ وہ خدا کم اور ایک ’’ڈکٹیٹر‘‘ زیادہ معلوم ہونے لگتا ہے۔ اس حوالے سے ذہن سازی اس قدر مطلق انداز میں کی جاتی ہے کہ مہد سے لے کر لہد تک انسان کے ذہن میں خدا سے متعلق ایک ہی قسم کا خاکہ بنا رہتا ہے۔ حالاں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب ایک روایت کے مطابق اللہ تعالا فرماتا ہے کہ مَیں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں۔( بخاری و مسلم)
یعنی بندہ اپنے رب کے ساتھ جیسا گمان رکھتا ہے، اس کے ساتھ ویسا ہی معاملہ ہوتا ہے۔
ہمیں اتنا ڈرایا دھمکایا جاتا ہے کہ خدا کے بارے میں سوچنے کا خیال آتے ہی جسم پر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور یوں لگتا ہے جیسے بہت بڑا گناہ سرزد ہوا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی انسانوں کے عام چلن کے برعکس خدا کو دوست سمجھتے ہوئے اس سے باتیں کرنے لگتا ہے، تو باقی انسان اس کو خدا سے بغاوت سمجھنے لگتے ہیں اور اس کو بہرصورت روکنے کی ٹھان لیتے ہیں۔
خدا کا خوف اپنی جگہ لیکن سچ تو یہ ہے کہ ایک خوف، خوفِ خدا سے بھی بڑھ کر ہے۔ وہ ہے خدا کے بندوں کا خوف۔ لوگ خدا یا اس کے عذاب سے اتنا نہیں ڈرتے جتنا وہ خدا کے بندوں سے ڈرتے ہیں۔ یہ جو زمین پر بڑے شریف، متقی اور عاجز بنے پھر رہے ہیں، ان کے ہاتھ میں ذرا سی طاقت اور اختیار دے دیں، پھر دیکھیں کہ کیا گل کھلاتے ہیں۔
لوگ وہ زندگی نہیں جی رہے جو وہ جینا چاہتے ہیں، بلکہ وہ زندگی جی رہے ہیں جو معاشرے کو قابلِ قبول ہے اور جس کی وجہ سے ان کو زندہ رہنے دیا جا رہا ہے۔ اگر تھوڑی سی سنجیدگی کے ساتھ اپنے آپ پر اور پھر دوسرے انسانوں کے رویوں پر غور کر لیا جائے، تو یہ دنیا ایک اسٹیج لگے گی اور اس کے باسی بہت ہی بڑے اداکار!
اوپر والا نیچے والوں کے مقابلے میں اتنا سمجھ دار، رحمان اور رحیم ہے کہ دونوں کا موازنہ کرنا تو دور کی بات، اس بارے میں سوچنا بھی بالکل بے تکی سی بات ہے۔ لوگوں کو پتا ہوتا ہے کہ وہ چاہے بہت ہی بڑے گناہگار کیوں نہ ہوں، ان کے خالق کا ظرف اتنا ہے کہ وہ ان کو معاف کردے گا، لیکن ساتھ یہ بھی خوب جانتے ہیں کہ یہ زمین پر چلنے پھرنے والے ایسے نہیں ہیں۔ گوشت پوست کی یہ مخلوق کبھی کبھار اپنی حد سے اس قدر تجاوز کر لیتی ہے کہ خود خدا بن جاتی ہے۔ سزا و جزا کے وہ فیصلے کرنے لگتی ہے جو صرف اور صرف خدا نے کرنا ہوتے ہیں۔ خدا اور بندوں کے درمیان انسانوں کی سزا، جزا یا تقدیر کے حوالے سے معلومات کا کوئی تبادلہ نہیں ہوتا اور نہ خدا بندوں سے اس معاملے میں کوئی تعاون ہی طلب کرتا ہے۔ اس لیے اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک انسان خدا کے ہاں تو شائد جنتی ہوتا ہے لیکن خدا کے بندے دوزخی قرار دے کر دنیا ہی میں اس کے لیے دوزخ کا اچھا خاصا انتظام کرلیتے ہیں۔
خود کو بہت زیادہ نیک اور مذہب پسند سمجھنے والوں میں اکثر ایک بہت بڑی خامی ہوتی ہے۔ جس قدر یہ خود کو خدا کے قریب سمجھتے ہیں اس قدر یہ خدا کو اپنی ذاتی ملکیت سمجھتے ہیں۔ یہ اس غلط فہمی میں مبتلا رہتے ہیں کہ خدا کا ان کے ساتھ کوئی خاص اور امتیازی رشتہ ہے۔ چند عبادات کیا بجا لاتے ہیں کہ معاملات میں خود کو خودمختار سمجھنے لگتے ہیں۔ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ خدا صرف ہمارا ہی نہیں بلکہ باقی انسانوں کا بھی ہے۔ بھول جاتے ہیں کہ باقی انسانوں کا بھی خدا پر اتنا ہی حق ہے، جتنا ان کا ہے اور یہ کہ خدا کے لیے سارے انسان برابر ہیں۔ اگر فرق ہے، تو صرف تقوا کی بنیاد پر ہے لیکن خدا نے بندوں کو یہبھی اختیار نہیں دیا کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کا تقوا ماپیں یا اس کی بنیاد پر ایک دوسرے کی سزا و جزا کا فیصلہ کریں۔
جب تک ایک انسان معاملات میں ٹھیک ہو اور اس کی وجہ سے باقی انسانوں کو کوئی تکلیف نہ ہو، تو تب تک اس کو پورا پورا حق ہے کہ وہ اپنی مرضی کے نظریات رکھے اور مرضی کی زندگی جیے۔ ہمیں کسی کی انتہائی ذاتی زندگی میں دخل اندازی کا یا کسی پر اپنے نظریات مسلط کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔
نطشے کہتا ہے کہ ’’خدا مر گیا ہے‘‘ جب کہ امر جلیل صاحب سمجھتے ہیں کہ ’’خدا گم ہوگیا ہے۔‘‘ اس طرح ڈھیر سارے لوگ بھی یہی سمجھتے ہیں، تبھی تو وہ خدا بننے کی کوشش کررہے ہیں۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ خدا گم نہیں ہوا ہے بلکہ ازل سے موجود ہے اور ابد تک موجود رہے گا۔ اس لیے خود خدا بننے کی بجائے خدا کا کام خدا ہی کو کرنے دیں۔
کسی کو بھی یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی دوسرے سے وہ آزادی چھین لے جو خود خدا نے اس کو دی ہے۔ انسان کو اتنا پابندِ سلاسل نہ کیا جائے کہ وہ اپنے ہی خالق سے گلے شکوے نہ کرسکے، سوالات نہ پوچھ سکے اور جستجو کر کے اس کی پہچان نہ کرسکے۔ اگر انسان اپنے وجود، مقصدِ تخلیق، فلسفۂ حیات، قضیۂ مکان و لامکاں، ہنگامۂ ہست و نیست اور اس طرح کے دیگر ڈھیر سارے گورکھ دھندے خدا سے ڈسکس نہ کرے، تو کیا اپنی ہی جیسی مخلوق سے ڈسکس کرے جو خود خدا کی تلاش میں در در کی ٹھوکریں کھا رہی ہے اور یا خدا کی غلط پہچان کرکے اسی پر اکتفا کر بیٹھی ہے؟
امر جلیل صاحب کے افسانے سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کے ساتھ ان کی اچھی خاصی بے تکلفی تھی۔ اس لیے ان کا اتنی جلدی مایوس ہوجانا سمجھ سے باہر ہے۔ وہ اگر اپنی تلاش جاری رکھ لیں، تو ایک نہ ایک دن ضرور خدا کو پا لیں گے۔ دوسروں کے تجربات، علم اور نتائج سے استفادہ ضرور کرنا چاہیے لیکن اس پر بس نہیں کرنا چاہیے۔ ہر دم اپنی ذاتی جستجو جاری رکھنی چاہیے۔ کیوں کہ ضروری نہیں کہ سب کو ایک سا جواب مل جائے۔ بقولِ شاعر
کیا فرض ہے کہ سب کو ملے ایک سا جواب
آؤ نہ ہم بھی سیر کریں کوہِ طور کی
…………………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔