جانوروں کے ساتھ مختلف معاشرتی رویے

ویسے تو یہ ایک معمولی سا واقعہ تھا، لیکن ابھی تک میرے ذہن پر نقش ہے۔ مَیں بہاول پور کے عباسیہ ہائی سکول میں ساتویں جماعت کا طالب علم تھا۔ ایک روز مَیں اپنے تین چار ہم جماعت لڑکوں کے ساتھ سکول سے چھٹی کے بعد گھر واپس آ رہا تھا۔ جون کا مہینا تھا۔ بلا کی گرمی پڑ رہی تھی۔ ہم سب کے گھر قریب قریب ہی تھے۔ اس لیے ہم عام طور پرچھٹی کے بعد اکٹھے پیدل گھر آتے تھے۔ راستے میں ایک سڑک کے کنارے برف بیچنے والے کی دکان (پھٹہ) تھا جس پر ترپال سے چھت بنا کر سایے کا انتظام کیا گیا تھا۔ پھٹے کے نیچے کی زمین برف پگھلنے کی وجہ سے گیلی اور ٹھنڈی رہتی تھی۔ اس ٹھنڈی زمین پر ایک کتااکثر اوقات ہمیں لیٹا ہوا نظر آتا تھا۔ ہمارے ایک ہم جماعت کی جب بھی اس کتے پر نظر پڑتی، وہ پتھر اُٹھا کر اسے دے مارتا اور بے چارہ کتا اس اچانک حملے پر حواس باختہ ہو کر سایہ دار ٹھنڈک سے کرلاتا ہوا نکلتا اور کسی بھی طرف بھاگ جاتا۔ پھر دور کھڑا ہو کر ہمارے وہاں سے گزر جانے کا انتظار کرتا۔ ایک دن مَیں نے اپنے ہم جماعت سے پوچھا کہ تمہیں اس کتے کو بے آرام کرکے کیا ملتا ہے؟ تو وہ ہنستے ہوئے کہنے لگا کہ ہم شدید گرمی میں پسینے سے نڈھال اور بے حال پیدل گھر جا رہے ہیں اور یہ کتا مزے سے برف کے پھٹے کے نیچے ٹھنڈی زمین پر آرام کرتا رہتا ہے۔ مجھ سے یہ برداشت نہیں ہوتا۔ ذرا اس کتے کو بھی تو پتا چلے کہ گرمی کیا ہوتی ہے؟
مَیں آج بھی جب اس واقعے کے بارے میں سوچتا ہوں، تو مجھ پر ملال کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ جانوروں اور خاص طور پر پرندوں سے محبت کا فطری جذبہ میرے اندر بچپن ہی سے موجود ہے۔ مَیں اب تک اس بات پر حیران ہوتا ہوں کہ ہمیں گھروں اور سکولوں میں بچپن ہی سے جانوروں اور پرندوں سے اپنائیت اور صلۂ رحمی کا درس اور تربیت کیوں نہیں دی جاتی؟ مگر پھر میں سوچتا ہوں کہ جس معاشرے میں عام انسانوں سے انسانوں والا سلوک روا نہ رکھا جاتا ہو، وہاں جانوروں اور پرندوں پر رحم اور اچھے سلوک کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟
بھاگتے کتے نے اپنے ساتھی کتے سے کہا
بھاگ ورنہ آدمی کی موت مارا جائے گا
مشتاق احمد یوسفی نے کہا تھا کہ مسلمان اس جانور سے محبت نہیں کرتے جس کو وہ ذبح کر کے نہ کھا سکیں۔
برطانیہ اور دیگر ترقی یافتہ ملکوں میں جانوروں، پرندوں، آبی حیات اور کیڑے مکوڑوں یعنی ’’حشرات الارض‘‘ کو بھی اس کائنات کا حصہ اور خالقِ کُل کی مخلوق سمجھا جاتا ہے، جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان ممالک میں بچوں کو پرائمری کلاس ہی میں جانوروں، پرندوں اور پودوں کے بارے میں بتایا اور ان کی اہمیت کا احساس دلایا جاتا ہے۔ پرائمری سکول کے بچوں کو ’’اینمل فارم‘‘ یا چڑیا گھر لے جایا جاتا ہے، تاکہ بچے انسانوں کے علاوہ اللہ کی دیگر مخلوقات سے بھی مانوس ہوجائیں۔ جانوروں سے اپنائیت کے اس جذبے اور احساس کی وجہ سے ہی یونائیٹڈ کنگڈم میں بلیاں، کتے، خرگوش اور دیگر جانور پالنے کا رجحان بہت عام ہے۔ برطانیہ میں کل 25 ملین گھر ہیں جن میں 90 لاکھ گھروں میں لوگوں نے کتے اور ساڑھے 80 لاکھ گھروں میں بلیاں پال رکھی ہیں۔ ان پالتو جانوروں کا گھر کے افراد کی طرح خیال رکھا جاتا ہے۔
برطانیہ میں ایک ادارہ آر ایس پی سی اے یعنی ’’رائل سوسائٹی فار پری وینشن آف کروویلٹی ٹو اینملز‘‘ کے نام سے قائم ہے جو جانوروں اور پرندوں کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے۔ اگر اس ادارے کو کسی پالتو جان دار پر ظلم یا ناروا سلوک کی شکایت ملے، تو وہ فوراً کارروائی کرتا ہے اور ظلم کرنے والے کو جرمانے اور سزاکا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جو لوگ گھروں میں کسی وجہ سے جانور نہیں پال سکتے لیکن ’’وائلڈ لائف‘‘ یعنی جنگلی حیات کی بہبود کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں، تو وہ برطانیہ کے مختلف چڑیا گھروں میں اپنی پسند کے جانوروں اور پرندوں کو سپانسر کرتے یعنی ان کی دیکھ بھال کے لیے ڈونیشن (عطیات) دیتے ہیں اور چڑیا گھروں کی انتظامیہ ان عطیات دینے والوں کو جانوروں اور پرندوں کی خیر خبر سے آگاہ رکھتی ہے۔ برطانوی دارالحکومت لندن کا چڑیا گھر دنیا کے قدیم ترین چڑیا گھروں میں سے ایک ہے جس کا افتتاح 27 اپریل 1828ء کو ہوا تھا۔ اس چڑیا گھر میں ہزاروں اقسام کے جانوروں، پرندوں اور دیگر جان داروں کو قدرتی ماحول میں رکھا گیا ہے۔ان جان داروں کی بڑی تعداد کو اللہ کی دیگر مخلوقات سے محبت کرنے والوں نے سپانسر کیا ہوا ہے۔
قارئین، ایک زمانہ میں میرے شہر بہاول پور کا چڑیا گھر بھی عام لوگوں کے لیے تفریح اور کشش کا بڑا مرکز تھا۔ یہ چڑیا گھر قیام پاکستان سے بھی پہلے 1942ء میں نواب (امیر) آف بہاول پور سر صادق محمد عباسی نے بنوایا تھا۔ اُس وقت یہ چڑیا گھر ’’شیر باغ‘‘ کہلاتا تھا۔ 25 ایکڑ رقبے پر مشتمل یہ چڑیا گھر لاہور اور کراچی کے چڑیا گھروں سے بہتر تھا، جہاں کبھی سیکڑوں نایاب اور خوبصورت جانوروں اور پرندوں کے علاوہ شیروں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی اور بچے بڑے ہاتھی کی سواری سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ اس چڑیا گھر میں مچھلی گھر (ایکوریم) اور عجائب گھر (میوزیم) بھی اس کی انفرادیت کی وجہ تھے، لیکن پھر رفتہ رفتہ اس چڑیا گھر کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوا جو ملک کے دیگر تفریحی مقامات کے ساتھ ہو رہا ہے۔ اس کے مکین (جانور اور پرندے) بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یا تو دنیا سے رخصت ہوگئے یا پھر انہوں نے بھی پاکستان کے بے بس عوام کی طرح حالات سے سمجھوتا کرکے اپنے ساتھ ہونے والے سلوک کو اپنا مقدر سمجھ لیا اور اپنے اپنے پنجروں میں نقل و حرکت کی آزادی کو غنیمت سمجھنے لگے۔
برطانیہ میں لوگوں کی بڑی تعداد پرندوں اور خاص طور پر ’’گارڈن برڈز‘‘ یعنی گھر کے باغیچے میں آنے جانے اور گھونسلے بنانے والے پرندوں سے گہرا لگاؤ رکھتی ہے۔ وہ ان پرندوں کو قید کرنے کی بجائے انہیں کھلی فضا میں اڑتے اور باغیچوں اور پارکوں میں چہچہاتے دیکھ کر خوش ہوتی ہے۔ مَیں نے بھی اپنے ’’بیک گارڈن‘‘ یعنی گھر کے پچھلے باغیچے میں ’’برڈ فیڈر‘‘ یعنی پرندوں کی خوراک کے لیے ایک ٹوکری لٹکا رکھی ہے جہاں سے دانہ دنکا کھانے کے لیے صبح سویرے طرح طرح کے پرندے (رنگ برنگی چڑیاں اور فاختائیں) جمع ہوتے ہیں، جنہیں چہچہاتے دیکھ کر میرا دل بھی باغ باغ ہو جاتا ہے۔ برطانیہ میں پرندوں کی اکثریت انسانوں سے خوف زدہ نہیں ہوتی، آپ انہیں دانہ یا باجرہ ڈالیں، تو وہ یوں آپ کے قریب آ کر اسے چگنے لگتے ہیں جیسے آپ کے پالتو پرندے ہوں۔ خاص طور پر تلیر اور جنگلی کبوتر تو برطانوی لوگوں سے بہت مانوس ہو چکے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ کوئی یہاں ان کا شکار نہیں کرتا۔
اسی طرح برطانیہ کے طول و عرض میں ہزاروں جھیلیں ہیں جہاں رنگ برنگی مرغابیاں، بطخیں اور راج ہنس کثرت سے نظر آتے ہیں اور یہ سب پرندے بلاخوف و خطر جھیلوں کی سیر کو آنے والے لوگوں کے قریب آکر ان کے ہاتھ سے ڈبل روٹی کے ٹکڑے اُچک کر کھانے لگتے ہیں جب کہ پاکستان میں پرندوں کی اکثریت اور خاص طور پر تلیر اور جنگلی کبوتر اور مرغابیاں انسانوں کے قریب نہیں پھٹکتیں۔ قدرت نے پرندوں کو بھی دوست اور دشمن میں تمیز کا ادراک دے رکھا ہے۔
مسلمان ملکوں میں جانوروں کے ساتھ جو ناروا سلوک روا رکھا جاتا ہے، اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ صرف دعا کی جاسکتی ہے کہ خالقِ کائنات ہم مسلمانوں کے دلوں میں دیگر مخلوقات کے لیے بھی رحم کے جذبے کو بیدار کر دے۔ ویسے تو ہم مسلمان ہونے کے دعوے دار ہیں لیکن ہم اس حقیقت پر غور نہیں کرتے کہ قرآنِ پاک میں اللہ رب العزت نے 21 جانوروں اور پرندوں کا ذکر کیا ہے۔ 6قرآنی سورتیں جانوروں اور حشرات الارض کے نام سے اُتاری گئیں جب کہ دو سو مختلف آیات میں جانوروں اور پرندوں کا تذکرہ اور حوالہ دیا گیا ہے۔ اسی طرح رسولِ کریمؐ نے جانوروں سے صلۂ رحمی کی تلقین کی ہے۔ آپؐ کا فرمان ہے کہ جس کسی نے اپنی زندگی میں ایک چڑیا پر بھی رحم کھایا، قیامت کے دن اسے اس رحم کا اجر ملے گا۔
کتنی عجیب بات ہے کہ اللہ اور اللہ کے رسولؐ کے جن احکامات اور ہدایات کی پیروی ہم مسلمانوں کو کرنی چاہیے، اس پر غیر مسلم عمل پیرا ہیں۔ رب العالمین ہم سب کے حال پر رحم فرمائے، آمین!
………………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔