بیماریاں اور وبائیں ارتقائی عمل کا حصہ ہیں

جیسا کہ معلوم ہے کہ دنیا حادث ہے۔ مجموعۂ اضداد ہے۔ اسی سے حیات ہے۔ اسی سے زندگی ہے۔ اسی سے حرکت ہے۔ اسی سے ارتقا ہے اور اسی سے ایجادات و اجتہادات ہیں۔ زندگی جمود نہیں حرکت کا نام ہے اور آگے کی طرف نہ ہو، تو ’’ریورس‘‘ آجاتی ہے، لیکن فطرت کا اصل تقاضا آگے کی طرف حرکت کرنا ہے۔
یہی ارتقا ہے!
اسی حکمت کے پیشِ نظر دنیا میں مصائب و آلام بھی آتے ہیں اور آرام و راحت بھی۔ بیماریاں اور امراض بھی آتے ہیں اور صحت و علاج بھی ہوتا ہے۔ چیزیں حملہ آور بھی ہوتی ہیں اورا ن کا تدارک بھی کیا جاتا ہے۔ مثبت اور منفی کا آپس میں ٹکرانا ہی زندگی ہے، توانائی ہے۔
البتہ انسان اگراس فطری عمل کو چینلائز کرجاتا ہے، تو اس سے فائدہ حاصل کرتا ہے۔ کبھی وہ اسے یا تو اس طرح چھوڑ دیتا ہے، تو پھر بغیر فائدہ کے گزر جاتا ہے، یا کبھی کبھار اذیت کا باعث بھی بن جاتا ہے۔ جب کہ کبھی کبھار وہ اسے چینلائز کرنے کی سعی کرتا ہے لیکن وہ اس سے بے قابو ہوجاتا ہے۔ یوں اس کا منفی اثر بہت خطرناک ہوجاتا ہے۔
قارئین، جیسا کہ اب تک کہا گیا یعنی ایک قسم کی رائے ہے کہ یہ وائرس (کورونا) بنایا گیا ہے۔ دوسری رائے نے اس کی نفی کی ہے۔ ہر دو رائے سائنس دانوں کی ہیں، لیکن تھیوریز ہیں، تاحال تو ان میں ایک کو بھی ثابت نہیں کیا گیا۔ سائنس اور سائنس دان تھیوریز کو زیرِ بحث تو لاتے ہیں، اگر ان کی تُک بنتی ہو، لیکن ان پر یقین تب کرتے ہیں جب تجربہ سے گزار کر کوئی بات ثابت کی جائے۔
یہ بھی اس وائرس کے حوالہ سے کہا جاتا ہے کہ یہ حیوانات سے نہیں پھیلا، چین میں اس پر تحقیق ہو رہی تھی، تو یہ کنٹرول سے باہر ہوگیا۔
اب نہ تو ساری چیزوں کو انسان جانتا ہے، نہ ہر چیز کی مدافعت یا تدارک ہی کرسکتا ہے۔ لہٰذا مصائب و آلام بھی آئیں گے اور بیماریاں اور ہلاکتیں بھی واقع ہونگیں۔ دنیا کا نظام ’’ایکو سسٹم‘‘ ہے یعنی ساری مخلوقات عرش سے لے کر فرش اور تحت الثریٰ تک، ان کا ہر ذرّہ چاہے ہمیں نظر آتا ہو یا نہ آتا ہو، اس نظام کا حصہ ہے، جن میں بعض مخلوقات وقت کے ساتھ ساتھ فنا بھی ہوجاتی ہیں۔ ان میں سے بہت ساروں کے فنا ہونے کے منفی اثرات بھی ظاہر ہوتے ہیں، مثلاً اگر حشرات الارض اور کیڑے مکوڑے نہ ہوں، اُڑنے والے چھوٹے چھوٹے بَگ نہ ہوں، تو زمین کے اندر زرخیزی کا عمل، پھل پھول، سبزیوں اور فصلوں کے حوالے سے ’’پالی نیشن‘‘ کا عمل کیسے ہوگا؟
بیکٹیریا اور وائرس بھی اسی ’’ایکو سسٹم‘‘ کا حصہ ہیں۔ البتہ ہمیں تو ان مخلوقات کے حوالے سے صرف ان کا مضر اثر نظر آتا ہے۔ اب فنگس کھانا یا بیکٹیریا کھانا اس کا تو کوئی تصور ہی نہیں کرسکتا، لیکن انٹی بائیوٹک تو کھاد اور مٹی کے فنگس اور بیکٹریا کو ساتھ ملانے سے وجود میں آتا ہے۔ پھر ہم ڈھیر سارے پیسے لگا کے اسی انٹی بائیوٹک کو کھاتے ہیں۔ کسی کو اس طرح کھاد یا فنگس کھانے کا کہیں تو پھر ردِ عمل دیکھیں۔
اب جو معدے کی بیماری ہے، گیس اور تیزابیت و السر وغیرہ، اس کے لیے دو قسم کے انٹی بائیوٹکس دوائیں ایک ساتھ دی جاتی ہیں، یا دیگر کئی ساری بیماریوں میں بھی ایسا کیا جاتا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اب بیکٹیریا اتنا سمارٹ ہوچکا ہے کہ ایک انٹی بائیوٹک کو وہ آسانی سے اپنے خوراک میں بدل دیتا ہے، سو وہ اس سے مرتا نہیں، تو یہ دوسرا اس پر وار کرے گا۔ اب تو اس پر کام مکمل ہوچکا کہ صحت مند معدہ والوں کے فضلے سے کچھ بیکٹیریا لے کر ان کو بیمار معدے کا تریاق بنا رہے ہیں۔ اب کسی سے کہیں کہ انسان کا فضلہ کھائیں، ٹھیک ہوجائیں گے تو پھر اپنا حشر نشر دیکھیں۔
روزِ اول سے بیماریاں ہوتی ہیں۔ کچھ عام سی، کچھ بیکٹیریا والی اور کچھ وائرس والی بیماریاں۔ انٹی بائیوٹک ادویہ، بیکٹیریا والی بیماریوں میں کام کرتی ہیں۔ وائرل بیماریاں تو انٹی بائیوٹک سے ختم نہیں ہوتیں۔ ہاں، ان پر تحقیق کرکے ان کے لیے ویکسین بنائی جاتی ہیں، تاکہ وہ لگا کے یا کھا کے متعلقہ وائرس کے انفیکشن کا راستہ روکا جاسکے۔
اب ایک سوال یہ بھی سر اٹھاتا ہے کہ علاج کے حوالے سے ’’پلازما‘‘ کیا کردار ادا کرتا ہے؟ تو احباب، صحت پانے والے انسان کے خون سے ’’انٹی باڈیز‘‘ لے کے مریض کے بدن میں داخل کیے جاتے ہیں۔ اب آپ کسی سے کہیں کہ فُلاں کا خون پئیں، وہ قطعاً ایسا نہیں کرے گا، لیکن پلازما تو خون ہی سے لیا گیا مائع ہے۔ سرجری میں مریض کو خون کی بوتل ہی چڑھائی جاتی ہے۔
کسی زمانے میں طاعون بھی وائرل بیماری تھی۔ چودھویں صدی میں اس نے سات کروڑ سے زیادہ انسانوں کو ہلاک کیا تھا۔ اس وقت بھی مختلف باتیں ہوئیں کہ یہ بیماری کہاں سے آئی،کیسے پھیلی حتی کہ یورپ میں تو پروپیگنڈا کیا گیا کہ یہود نے پانی میں زہر ملا کر اسے پیدا کیا ہے اور ان کی بستیوں کی بستیاں اجاڑ دی ہیں۔ بعد میں تحقیق ہوئی، تو پتا چلا کہ غالباً چوہوں اور پسوؤں سے یہ مرض پھیل گیا ہے۔
چیچک کی بیماری ہزاروں سال پرانی تھی، جس سے ہر سال لاکھوں لوگ مرتے تھے۔ اس کا علاج بھی مختلف طریقوں سے ہوا کرتا تھا۔ پھوڑوں پر ’’ٹالکم پاؤڈر‘‘ کئی بار لگایا جاتا، تاکہ سوکھ جائیں اور مزید نہ پھیلیں۔ ساتھ ساتھ مَیں نے خود دیکھا کہ مریض کے کمرے میں گدھوں کا فضلہ جلایا جاتا کہ اس دھوئیں سے یہ وائرس مر جاتا ہے۔ بعد میں ویکسین ایجاد ہوئی اور 1980ء میں اعلان ہوا کہ چیچک کا خاتمہ ہوگیا ہے۔
اس طرح سر الیگزینڈر فلیمنگ نے ’’پنسلین‘‘ ایجاد کرکے ڈھیر ساری بیماریوں کے علاج کا راستہ ہموار کیا۔ ملیریاکے لیے بھی ویکسین تیار ہوئی اور جہاں جہاں ہے، وہاں پر علاج بھی موجود ہے کہ یہ نمونیا پیدا کرتا ہے، تو اس کے علاج کے لیے کلوروکوین (جو اصلاً کونین)دیا جاتا ہے۔ ٹائیفائیڈ انٹی بائیوٹک سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔ البتہ اس کا غیر ضروری استعمال مضر اور مہلک ہے اور جسم اس کے لیے ’’ریزسٹنس‘‘ پیدا کرتا ہے، تو پھر انٹی بائیوٹک بے اثر ہوجاتا ہے۔ البتہ اب کہتے ہیں کہ ایک انٹی بائیوٹک ٹی ایکسویشن تیار کی گئی ہے۔ اس سے جسم میں مزاحمت پیدا نہیں ہوتی۔
قارئین، بہرصورت کورونا خلیے میں داخل ہوتا ہے اور اس کو اپنا ’’جنیوم‘‘ دے دیتا ہے۔ جہاں سے وہ خلیہ دیگر خلیات کو اطلاع دے دیتا ہے اور سب خلیے مل کر اس کی کاپیاں بنانا شروع کردیتے ہیں۔ یوں وہ خلیے بیکار ہوجاتے ہیں اور انفیکشن ہوجاتا ہے۔ یہ کاپیاں پروٹین سے بنائی جاتی ہیں۔ اب کام اُس دوا پر شروع ہے جو پروٹین پر حملہ آور ہو، تاکہ وہ کاپیاں تباہ ہوجائیں، یعنی مبادیات پر غو ر کرتے ہیں، تاکہ حقائق جانے جائیں اور پھر دوا یا ویکسین تیار ہو۔ پوری دنیا میں سائنس دان لگے ہوئے ہیں۔ خلوت میں بیٹھے ہیں۔ مراقبہ کرتے ہیں، تاکہ ان کو شفافیت حاصل ہو اور اللہ جو سب کا خالق ہے اور ’’خلق لکم مافی الارض جمیعا‘‘ کے مصداق یہ سب کچھ انسانوں کے لیے ہے، تو ان کو پھر القا والہام کرجاتا ہے کہ یہ فلاں چیز اس کا علاج ہے۔
البتہ ایسی مصیبتوں میں قنوطیت اور مایوسی غالب آجاتی ہے، تو قوتِ مدافعت کمزور پڑ جاتی ہے۔کچھ لوگوں کے ہاں زندگی بے معنی ہوجاتی ہے، تو وہ یا تو خودکشی کرجاتے ہیں یا ذہنی توازن کھو بیٹھتے ہیں یا پھر ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں۔کچھ ایسے ہیں جو حادثات کے ذریعے علاج کو درخور اعتنا نہ سمجھ کر صرف دعا اور وظائف پر تکیہ کرجاتے ہیں، لیکن کیا اس کا عقیدہ اور روحانی قوت حضرت خالدؓ کی طرح مضبوط ہے، جس نے میدانِ جنگ میں ایک جاسوس کو پکڑا۔پوچھ گچھ پر معلوم ہوا کہ وہ زہرِ قاتل کی ایک پڑیا مسلمانوں کی پانی کی ٹنکی میں ملانا چاہتا تھا، تاکہ سب کے سب مرجائیں۔ حضرت خالدؓ نے پوچھا کہ یہ اتنا مہلک ہے؟ اس نے کہا، ’’ہاں!‘‘ حضرت خالدؓ نے کہا مجھے دے دو اور ’’بسم اللہ‘‘ پڑھ کر اسے پھانکا۔ روایات میں ہے کہ حضرت خالدؓ کی پیشانی پر صرف پسینا آیا۔ اس بندے نے دیکھا، تو مسلمان ہوگیا اور واپس جاکر اپنے لوگوں کو ڈرایا کہ ان سے لڑنا ویسی حماقت ہے۔
قارئین، دعائیں اور وظائف ہوتے ہیں روحانی قوت حاصل کرنے کے لیے، تاکہ قوتِ مدافعت مضبوط ہوجائے۔ اصل قوت تو جسم کی نہیں بلکہ روح کی ہوتی ہے کہ وہی منبع ہے حیات کا بھی، حرکت کا بھی اور قوت کا بھی۔ البتہ ضروری ہے کہ یہ قرنطینہ یعنی سماجی دوری میں ہوں، تو ایسی ایک بات پر فوکس کرنے سے دماغی خلیات متاثر ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا اپنے آپ کو مصروف رکھیں کسی تعمیری کام میں، تاکہ یہ ارتکاز نہ ہو کہ نہ تو تم کسی ویکسین پر کام کررہے ہو کہ اس پر فوکس کروگے، اور نہ گیان اور نروان حاصل کرنے پر لگے ہو۔ بہتر یہی ہے کہ کوئی اچھی سی کتاب پڑھیں۔تلاوت کریں۔گھر میں کیاریاں بنائیں کہ ویسے بھی بہار ہے۔کچھ پودے لگائیں۔ یہ وائرس دنیا کا خاتمہ نہیں کرسکتا۔ یہ بھی اِن شاء اللہ گزر ہی جائے گا۔
بس یہی دعا ہے کہ خدا کرے جلد از جلد اس کا خاتمہ ہو اور خلقِ خدا کو سکون کا سانس لینے کی گھڑیاں میسر ہوں۔
……………………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔