یہ سنہ چھیاسی ستاسی کی بات ہے جب میری عمر بمشکل سات سال ہی ہوتی ہوگی۔ ابھی میری خالہ کی شادی میں دو تین روز باقی تھے کہ ہمارے نانا جان (غلام احد، سابقہ ہیڈ ماسٹر پرائمری سکول شاہدرہ) ایک بڑی بس لے کر آئے جس میں میری خالہ سمیت گھر کی تمام خواتین اور خالہ کی سہیلیاں سوار ہوئیں۔ بس خراماں خراماں ’’میاں شیخ بابا‘‘ (منگلور تھانہ حدود) کی طرف روانہ ہوئی۔ میرے ذہن کے پردے پر اُس سفر کا ایک دھندلا سا نقش باقی ہے جس میں خالہ کی سہیلیاں تالیاں بجا کر غالباً ٹپے گارہی ہیں اور باقی ماندہ خواتین اس سے محظوظ ہو رہی ہیں۔ اس کے بعد ذہن پر زور دیتا ہوں، تو ایک اور دھندلا سا نقش ’’میاں شیخ بابا‘‘ کی ندی کا پاتا ہوں۔ جہاں تمام خواتین ٹولیوں کی شکل میں بیٹھ کر کھانا کھاتے ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔
اس وقت تو شائد میرا معصوم سا ذہن اس خاص پروگرام کو ایک عام سی سیر تصور کرتا ہوگا، مگر جب عمر کا سورج سر پر آگیا، تو پتا چلا کہ مذکورہ پروگرام کوئی عام پروگرام نہیں تھا بلکہ یہ تو ’’کوربن والے‘‘ تھا۔
ایک دفعہ میں یہی کوئی دسویں جماعت میں تھا کہ کوربن والی کے یہی مناظر میں نے رات کو خواب میں دیکھے تھے۔ شائد اس وجہ سے ذہن سے ’’کوربن والے‘‘ کے نقش ابھی تک مٹ نہیں پائے ہیں۔
’’کوربن والی‘‘ کے حوالہ سے دوستوں اور خاص کر بڑوں کو سننے کے بعد پتا چلا کہ مذکورہ روایت کی ضرورت آج پہلے سے زیادہ کہیں زیادہ ہے۔ آج اگر میاں بیوی کا رشتہ کمزور ہے، ان کے درمیان ’’کمیونی کیشن گیپ‘‘ ہے، تو اس کی ایک وجہ اس پختون روایت سے روگردانی کرنا بھی ہے۔ آج جب ہماری بہن یا بیٹی گھر سے رخصت ہورہی ہوتی ہے، تو اُس کا ذہن ’’سٹار پلس‘‘ اور اس قبیل کے دیگر ٹی وی چینلوں کے گھٹیا ڈرامے دیکھ دیکھ کر بنا ہوا ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آگے چل کر ان کی زندگی وہ ’’آئیڈیل‘‘ ماحول نہ پاکر سخت کٹھن مراحل سے گزرتی ہے۔ کئیوں کی تو اس وجہ سے طلاق بھی ہوجاتی ہے کہ کیوں ’’کاویا انجلی‘‘ ڈرامہ کی طرح ان کا میاں ’’کاویا‘‘ نہیں ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ لڑکی خود بھی ’’انجلی‘‘ کی طرح ’’خوبصورت‘‘ نہیں ہوتی ہوگی۔ وہ سوچتی ہے کہ کیوں اس کی ساس کو احساس نہیں ہوتا کہ وہ بھی کبھی بہو تھی (’’ساس بھی کبھی بہو تھی‘‘ ایک انڈین ڈرامے کا نام ہے)۔
’’کوربن والے‘‘ دراصل گھر سے بیاہ کر جانے والی لڑکی کے اعزاز میں اپنے والد کی طرف سے ایک طرح کا تفریحی دورہ ہوا کرتا تھا۔ اس پروگرام میں خاندان کی ہر عمر کی خواتین اور بیاہی جانے والی لڑکی کی سہیلیاں بطورِ خاص اپنی شرکت یقینی بناتی تھیں۔ مرد حضرات میں سے لڑکی کا بڑا بھائی مع چچا زاد یا ماموں زاد اس پروگرام میں شریک ہوا کرتے تھے، تاکہ بوقت ضرورت معاونت کرسکیں۔ بیاہی جانے والی لڑکی اور دیگر خواتین پورا دن گھر سے دور کسی پُرسکون جگہ پر بیٹھ کر ’’ٹپوں‘‘ یا ’’اولسی سندروں‘‘ سے ماحول کا لطف دوبالا کرتیں۔ ایک دوسرے کو سنتیں۔ یوں ہنسی مذاق میں پورا دن گزرتا اور واپس گھر لوٹتے ہوئے ایک اچھی خاصی تفریح ہوگئی ہوتی۔
اس حوالہ سے کئی کتب کے مصنف اور تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے حیدر علی اخوند خیل کا کہنا ہے: ’’اس پروگرام میں خاندان کی بڑی عمر کی خواتین کے ساتھ ساتھ چھوٹی عمر کی لڑکیاں بھی ہوتی تھیں۔ ان کے علاوہ بیاہی جانے والی لڑکی کی سہیلیوں اور خاص کر شادی شدہ سہیلیوں کو بطورِ خاص دعوت دی جاتی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ شادی شدہ خواتین اور سہیلیاں بیاہی جانے والی لڑکی کو پروگرام کے دوران میں اپنے اپنے تجربات کی روشنی میں سمجھائیں کہ میاں کا دل کیسے جیتنا ہے یا ساس اور سُسر کو کیسے رام کرنا ہے؟ آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ دورہ آنے والی زندگی کو بہتر بنانے کی غرض سے کافی سود مند ثابت ہوتا تھا۔ یوں لڑکی ذہنی طور پر تیار ہوجاتی تھی کہ آگے کن کن چیلنجوں سے نبرد آزما ہونا ہے۔ بیاہی جانے والی لڑکی کئی لڑکیوں یا خواتین کو سننے کے بعد اپنی غرض کی باتیں پلو سے باندھتی اور منزل مقصود تک پہنچنے کا قصد کرتی۔‘‘
میرے ناقص علم کے مطابق ’’کوربن والی‘‘ کا ایک فائدہ یہ بھی تھا کہ بیاہی جانے والی لڑکی کی ایک طرح سے آوٹنگ ہوجاتی تھی۔ دورانِ سفر اولسی سندرے اور ٹپے ایک الگ سماں باندھتے تھے۔ اُس روز بیاہی جانے والی لڑکی اپنی تمام سہیلیوں کے ساتھ گھل مل کر من کا بوجھ ہلکا کرتی تھی اور ایک نئے سفر پر نکلنے کا عزم کرلیتی تھی۔ وہ اپنے خوابوں کے شہزادے کا دل جیتنے کے گُر سیکھتی تھی اور اُس روز کی اچھی اور میٹھی یادوں کے ساتھ وہ پیا گھر سدھارتی تھی۔
کوربن والی کے لئے زیادہ تر ایسی جگہوں کا انتخاب کیا جاتا جہاں پر موسم خوشگوار ہواور ساتھ کسی ولی اللہ کے مزار کا احاطہ بھی ہو۔ ہم پختون چوں کہ اللہ کے برگزیدہ بندوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، تو شائد کوربن والی کے لئے جانے والے لوگ خوشگوار ماحول کے ساتھ ساتھ یہ سوچ کر کسی ولی اللہ کے مزار کا احاطہ چنتے تھے کہ آخر میں مذکورہ بابا کی برکت بھی بیاہی جانے والی لڑکی اپنی جھولی میں سمیٹ کر ایک نئے سفر پر روانہ ہو۔
ایک مشر کے بقول: ’’اس دور میں چوں کہ ایسی میڈیائی یلغار نہیں تھی، اس لئے اپنی گھر والی کے علاوہ ہر عورت ماں، بہن یا بیٹی تصور کی جاتی تھی۔ اس لئے اگر اس وقت کے مردحضرات کو پتا چلتا کہ فلاں جگہ خواتین اکھٹی ہوئی ہیں، تو اس طرف سے گزرنا وہ اپنی پختون روایات کے منافی گردانتے تھے۔ اب اگر خواتین کہیں پر اکھٹی ہو جائیں، تو میں نہیں مانتا کہ نسلِ نو ان کے ساتھ مذکورہ بالا رویہ روا رکھے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری اور نیچے ہونے والے بحث و مباحثہ سے متفق ہونا ضروری نہیں)