پاکستان اور برطانیہ کے دولت مندوں میں فرق

ایک زمانے تک ان لوگوں کو دولت مند سمجھا جاتا تھا جن کے خزانے ہیروں، جواہرات، سونے چاندی اور دیگر قیمتی اشیا سے بھرے رہتے تھے۔ جاگیریں اور بادشاہتیں جن کا مقدر تھیں۔ ملکوں، علاقوں اور قبیلوں کی سربراہی جن کے پاس تھی لیکن آج کے دور میں دولت مند وہ ہے جس کے بینک اکاؤنٹ میں رقم کے ہندسے سب سے زیادہ ہیں اور جس کی قیمتی اشیا لاکرز میں محفوظ ہیں۔ آج کا دولت مند شخص یا تاجر اپنے بینک اکاؤنٹ کے ہندسوں کو ہی اپنا اثاثہ سمجھتا ہے اور ان میں کمی اور اضافہ کو ہی اپنا نقصان اور نفع تصور کرتا ہے۔ جو لوگ کسی کمپنی یا ادارے میں ملازمت یا جاب کرتے ہیں، ہر مہینے ان کے اکاؤنٹ میں کچھ ہندسے منتقل ہوجاتے ہیں اور پھر یہی ہندسے ماہانہ بلز کی ادائیگی، کرائے یا مارگیج اور خریداری کی مد میں مختلف کمپنیز کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر ہوجاتے ہیں۔ آج کے دور میں دولت مند ہونا صرف اعداد و شمار اور ہندسوں کا نام رہ گیا ہے۔
برطانیہ، یورپ اور دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ملکوں میں کرنسی نوٹوں کا استعمال رفتہ رفتہ کم ہو رہا ہے۔ برطانیہ میں تین سو برس پہلے کرنسی نوٹ متعارف ہوئے تھے اور آج کل یونائیٹڈ کنگڈم میں 70 بلین پونڈ مالیت کے کرنسی نوٹ سرکولیشن یعنی گردش میں ہیں جس کا مطلب ہے ہر برطانوی کے پاس اوسطاً صرف ایک ہزار پونڈ مالیت کے کرنسی نوٹ موجود ہیں۔ برطانیہ میں 2016ء میں کاغذ کے نوٹ متروک کرکے پلاسٹک (پولیمر) کی کرنسی متعارف کرانے کا سلسلہ شروع ہوا، تو اس ملک کے شہریوں اور تاجروں کو کسی خاص پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا، کیوں کہ یہاں لوگوں کے پاس جو کچھ ہے وہ بینکوں میں ہے۔ اس معاشرے میں اپنے پاس کرنسی نوٹوں کو جمع کرکے رکھنے کا رجحان بہت کم ہے۔ ویسے بھی اس ملک میں سب سے بڑا کرنسی نوٹ پچاس پونڈ کا ہے اور کسی کے بٹوے یا جیب میں پچاس پونڈ کا ہونا ایک غیرمعمولی بات ہوتی ہے۔ کیوں کہ لوگوں کی اکثریت معمولی رقم کی ادائیگی بھی کارڈ کے ذریعے کرتی ہے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہاں کسی کی آمدنی اور اخراجات خفیہ نہیں ہیں اور نہ خفیہ رہ سکتے ہیں۔ اسی لیے برطانیہ میں ڈیجیٹل پے منٹ (یعنی کارڈ کے ذریعے اور آن لائن ادائیگی) کا رجحان آئے دن بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ حالاں کہ پورے میں ملک میں نقدی کے حصول کے لیے 45 ہزار کیش مشینیں یعنی اے ٹی ایم موجود ہیں مگر اس کے باوجود لوگ ڈیجیٹل پے مٹ کو ترجیح دیتے ہیں۔ جہاں تک اپنے اثاثوں، آمدنی اور اخراجات کو خفیہ رکھنے کا معاملہ ہے، اب برطانیہ میں ایسا کرنا ممکن نہیں رہا۔ ویسے تو برطانیہ میں لوگوں کی اکثریت دولت کما کر اسے باقاعدہ ’’ڈی کلیئر‘‘ کرتی ہے بلکہ اپنے اثاثوں کا حساب دینا ان کی مجبوری بھی ہے، کیوں کہ آمدنی سے زیادہ اثاثوں یا وسائل سے زیادہ دولت کے حصول کی منی ٹریل فراہم نہ کرسکنے پر صاحبِ ثروت طبقے کو ٹیکس آفس کی انکوائری بھگتنی پڑتی ہے۔ برطانوی سیاست دان ہوں یا تاجر وہ اپنے اثاثے، جائیدادیں اور مال و دولت کو خفیہ یا چھپا کر نہیں رکھتے یا رکھ نہیں سکتے جب کہ پاکستان میں ہمارے تاجر اور سیاست دان اپنے اثاثوں اور دولت کو اس طرح خفیہ رکھتے اور چھپاتے ہیں جس طرح کنواری اپنا حمل چھپاتی ہے۔
ایک وقت تھا کہ برطانیہ میں سرمایہ کاری کرنے والے غیرملکی دولت مندوں سے ان کی منی ٹریل یا ’’سورس آف فنڈز‘‘کے بارے میں زیادہ بازپرس نہیں کی جاتی تھی یا جو برطانوی سرمایہ کار دیگر ممالک میں انوسٹمنٹ کرتے اور جائیدادیں خریدتے تھے، انہیں کسی قسم کی انکوائری کا خدشہ نہیں ہوتا تھا مگر مئی 2014ء سے ’’کامن رپورٹنگ سٹینڈرڈ‘‘ کے متعارف ہونے کے بعد پاکستان اور برطانیہ سمیت ایک سو سے زیادہ ممالک آٹومیٹک شیئر آف انفارمیشن کے اس رپورٹنگ سسٹم پر دستخط کرچکے ہیں۔ اس نیٹ ورک کے ذریعے مختلف ممالک اقتصادی معلومات اور ٹیکسوں کی وصولی کی تفصیلات کے تبادلے کر رہے ہیں۔ لندن میں میرے عزیز دوست چارٹرڈ ٹیکس ایڈوائزر خالد محمود جو کہ ٹیکس پلاننگ اور ٹیکس انوسٹی گیشن کے بھی ماہر ہیں، انہوں نے بہت پہلے مجھے یہ خبر سنائی تھی کہ ’’اب دنیا بھر میں حکومتیں ان ٹیکس چور سیاست دانوں اور تاجروں کی سرکوبی کے لیے منصوبہ بندی کر رہی ہیں جو اپنے ملکوں میں کرپشن کے ذریعے مال بناکر انہیں آف شور کمپنیز میں رکھ دیتے ہیں یا دوسرے ممالک میں سرمایہ کاری کرتے اور اثاثے بنالیتے ہیں۔ منی لانڈرنگ کے مرتکب ہونے یا آف شور کمپنیز کے ذریعے اپنے اثاثوں کو چھپانے یا خفیہ رکھنے والے ایسے سرمایہ داروں کے خلاف برطانیہ اور پاکستان میں مشترکہ طور پر تحقیقات ہو رہی ہیں اور ان لوگوں کے بینک اکاؤنٹس، ٹیکسوں کی ادائیگی اور جائیدادوں کو بھی مانیٹر کیا جا رہا ہے۔‘‘
برطانیہ میں تجارت اور سیاست دو الگ الگ شعبے ہیں۔ یہاں کے سیاست دانوں کو اپنے سیاسی امور سے اتنی فرصت نہیں ملتی کہ تجارت کے جھنجھٹ میں الجھیں جب کہ تاجروں کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ سیاست کی کھکھیڑ میں پھنسیں۔ برطانوی سرمایہ دار کاروبار کرتے ہیں، دولت کماتے ہیں، ٹیکس دیتے ہیں، اپنے ہر طرح کے اثاثوں کو ڈی کلیئر کرتے ہیں اور کمائی ہوئی دولت سے عیش و آرام کی زندگی گزارتے ہیں جب کہ تیسری دنیا میں ترقی پذیر ممالک کے تاجروں کی اکثریت بجلی اور گیس چوری کرنے، ٹیکس نہ دینے، ملاؤٹ کرنے اور جعل سازی کے نئے نئے طریقوں کی تلاش میں رہتی ہے۔
برطانیہ کے پرائیویٹ کاروباری سیکٹر میں بعض بڑی بڑی کمپنیز کے ملازموں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ یہ کمپنیز اس لیے کامیابی سے چل رہی ہیں کہ دیانت داری ان کا پہلا اصول ہے۔ یہ اپنے ملازمین کو معقول تنخواہیں دینے کے علاوہ ہر طرح کی سہولتیں بھی فراہم کرتی ہیں۔ اس لیے ان کے کارکن بھی لگن اور دیانت داری سے کام کرتے ہیں جس کے نتیجے میں آجر اور اجیر دونوں مزے سے زندگی گزارتے ہیں جب کہ ترقی پذیر ممالک میں تاجروں کی دولت پرستانہ نفسیات اپنے منافع میں سے ذرا سا حصہ بھی کارکنوں کو سہولت اور آسانی فراہم کرنے پر صرف نہیں کرنے دیتی۔ جس قوم کے تاجر دیانت داری سے ٹیکس کی ادائیگی اور کارکنوں کو معقول معاوضہ اور تنخواہ دینے کو اپنا کاروباری فرض نہ سمجھیں، تو پھر وہاں بھتے کی وصولی کا رواج پڑنے کی راہ ہموار ہونے لگتی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ تاجر اور سیاست دان کرپشن کے ذریعے مال بناکر اسے سویٹزرلینڈ کے بینکوں میں محفوظ کردیتے تھے اور کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی تھی، مگر اب ٹیکنالوجی کی ترقی اور کامن رپورٹنگ سٹینڈرڈ جیسے منصوبوں نے کسی چیز کو خفیہ نہیں رہنے دیا۔ وہ وقت دور نہیں جب کرپٹ سیاست دانوں اور ٹیکس چور تاجروں کا کچا چٹھا منظر عام پر آنے لگے گا اور ان کے اثاثوں اور جائیدادوں کی تمام تر تفصیل انٹرنیٹ پر دستیاب ہوگی۔ جو سرمایہ دار اپنی ناجائز کمائی کے خزانوں پر سانپ بن کر بیٹھے ہیں ان تک سپیروں کی رسائی ہونے لگی ہے۔
مغرب میں دولت کا تصور مشرق کے مقابلے میں ذرا سا مختلف ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں لوگ صحت، اطمینان اور سکون کو سب سے بڑی دولت سمجھتے ہیں۔ ضروری نہیں جو شخص دولت مند ہے، وہ امیر بھی ہو۔ اصل امیر تو وہ شخص ہے جو دل کا غنی ہو اور اپنے مال کو جمع کرنے کی بجائے خرچ کرنے پر یقین رکھتا ہو۔ صرف وہی دولت انسان کے کام کی ہوتی ہے جو وہ اپنے اور اپنے عزیزوں یا انسانیت کی فلاح و بہبود پر خرچ کرتا ہے۔ بہت سے سرمایہ دار جب اچانک اس دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں، تو ان کی دولت ایسے پس ماندگان کے حصے میں آتی ہے جن کو وہ اپنی زندگی میں ایک دھیلا بھی دینا نہیں چاہتے تھے۔ ایک لمحے کے لیے سوچیے کہ کیا بے نظیر بھٹو اپنا تمام تر سیاسی اثاثہ اور سرمایہ اپنی زندگی میں آصف زر داری کو سپرد کرنے کا سوچ سکتی تھیں؟ مگر ان کی اچانک وفات کے بعد ان کا سب کچھ آصف زرداری کے کام آیا۔
برطانیہ اور خاص طور پر لندن دنیا بھر کے سرمایہ داروں اور دولت مندوں کے لیے ایک خاص کشش رکھتا ہے۔ اپریل 2019ء تک یونائیٹڈ کنگڈم میں دو لاکھ پونڈ کی سرمایہ کاری کرنے والے غیرملکیوں کو انوسٹمنٹ ویزا مل جاتا تھا جس کی بنیاد پر انہیں بعد ازاں برطانوی شہریت مل جاتی تھی۔ اب اس انوسٹمنٹ ویزے کے لیے سرمایہ کاری کی رقم بڑھا کر دو ملین پونڈ کردی گئی ہے۔ اس کے باوجود پاکستان سمیت دنیا کے بہت سے غریب ملکوں کے ہزاروں سرمایہ دار اور سیاست دان اس ویزہ کے حصول کے لیے لگے ہوئے ہیں مگر سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں دو ملین پونڈ کی خطیر رقم کی سرمایہ کاری کرنے سے پہلے حکومت برطانیہ کو ثبوت دینا ہوگا کہ انہوں نے یہ رقم کہاں سے حاصل کی؟
برطانیہ ہو یا کوئی اور ترقی یافتہ ملک ان میں ایک قدر مشترک یہ ہے کہ یہاں سیاست دان امیر کبیر اور مال دار نہیں۔ ان کے معاشرے خوشحال اور اقتصادی طور پر مستحکم ہیں جب کہ نایجیریا سے بھارت اور افغانستان سے پاکستان تک ترقی پذیر ممالک کے سیاست دانوں اور حکمرانوں کی اکثریت بہت زیادہ مال دار ہے اور ان کے ممالک پس ماندہ اور بے چارے عوام غریب اور مفلوک الحال ہیں۔ ووٹ کو عزت دو کے دعویداروں، روٹی کپڑا اور مکان کے نعرہ سازوں اور تبدیلی کے ڈھکوسلے بازوں کے محل برقی قمقموں سے دن رات جگمگاتے رہتے ہیں اور عوام کی اکثریت کو مٹی کا دیا تک میسر نہیں۔ دولت کی غیرمساوی تقسیم کا سلسلہ دراز سے دراز تر ہوتا جا رہا ہے۔
معلوم نہیں غریب ملکوں کے پس ماندہ حال عوام کو اپنے حکمرانوں اور سیاست دانوں کی چال بازیوں کا ادراک کب ہوگا؟ اور وہ ان کی غلامی اور تابع فرمانی کا طوق کب گلے سے اتار پھینکیں گے ؟
احمد ندیم قاسمی نے کیا خوب کہا تھا:
بے وقار آزادی ہم غریب ملکوں کی
سر پہ تاج رکھا ہے، بیڑیاں ہیں پاؤں میں
…………………………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔