ہم مزید تجربات اور یُو ٹرن کے متحمل نہیں ہوسکتے

اقتدار میں آنے سے قبل تحریک انصاف کے رہنما اپنے دھرنوں، جلسے جلسوں اور ریلیوں میں ملک سے مہنگائی ، بے روزگاری اور کرپشن کا خاتمہ کرنے کی بات کرتے اور یہ کہتے نظر آتے تھے کہ ان کے دورِ حکومت میں غریبوں کو ریلیف ملے گا اور عوام خوش حال ہوں گے، مگر برسرِ اقدار آنے کے بعد موجودہ حکومت کا اگر کوئی طرۂ امتیاز رہا بھی ہے، تو وہ اس کی قلابازیاں یا ’’یوٹرن‘‘ ہیں۔ انتخابات میں جو خواب دکھائے گئے اور بلند بانگ دعوے کیے گئے، وہ سب دھرے کے دھرے رہ گئے۔ بس ایک احتساب باقی بچا ہے، جسے سیاسی مخالفین کے لیے صبح وشام استعمال کیا جارہا ہے، مگر ابھی تک کوئی چور، ڈاکو اپنے انجام تک پہنچتا دکھائی نہیں دے رہا۔ انتہائی افسوس ہوتا ہے کہ الیکشن مہم کے دوران میں عوام کو سبز باغ دِکھانے والی پاکستان تحریکِ انصاف نے ’’نیا پاکستان‘‘ کے نام پر عوام کو اس قدر مایوس کیا کہ اب ’’تبدیلی‘‘ کے لفظ سے بھی ڈر لگنے لگا ہے۔ وہ کاسۂ گدائی، جسے توڑنے کی بہت آس دلائی گئی تھی، کچھ اور بھی مضبوط ہوگیا ہے کہ قرضہ دو سال میں 11.35 کھرب روپے بڑھ گیا، جو کہ نواز شریف حکومت کے پانچ سالہ دور میں لیے گئے قرضہ جات سے بھی زیادہ ہے۔ یقینا ًروپے کی قدر کم ہونے اور شرحِ سود 13 فی صدسے زائد رکھنے کا بھی اس میں بڑا ہاتھ ہے۔
جس دن سے پاکستان تحریکِ انصاف برسرِ اقتدار آئی ہے، عوام کو میسر تمام ریلیف اور سبسڈیاں ختم کردی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ روز بروز بڑھتی مہنگائی کا سلسلہ بھی کہیں تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ غریب اور متوسط آمدن والے افرادکے لیے تو دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل ہو گیا ہے۔ مہنگائی کے اس بے قابو جن نے دکان دار کے لیے دکان چلانا، چھوٹے تاجروں کے لیے کاروبار کرنا اور کسانوں کے لیے کاشت کاری عذاب کر دیا ہے، تو بجلی، گیس، پٹرولیم مصنوعات، آٹا، گھی، چینی سمیت اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں اضافہ الگ ہے۔ نہ جانے کیوں آئے روز اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں دگنا، چوگنا اضافہ کرتے ہوئے غریب عوام کے بارے میں نہیں سوچا جاتا۔ انہیں بالکل ہی بے آسرا چھوڑ دیا گیاہے۔
چینی مافیا پر حملہ آور ہونے کے بعد چینی کی قیمت 68 روپے فی کلو مقرر کی گئی، لیکن اب بھی مارکیٹ میں یہ 90 اور 100 روپے سے اوپر میں فروخت ہو رہی ہے۔ اسی طرح آٹا مافیا کے خلاف بھی حکومت میدان میں اُتری، مگر سب بے سود ثابت ہوا۔ آٹا اور چینی مافیا کے آگے حکومتی بے بسی دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ شاید موجودہ حکومت میں اشیائے ضروریہ کے مافیاؤں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ اب تو یہ گمان ہونے لگا ہے کہ بہ حیثیتِ قوم ہم اس کشتی کے مسافرہیں، جو موجوں کے رحم و کرم پر ہے۔ ہمارے ملک کا المیہ ہی یہی ہے کہ ہر آنے والا حکمران، جانے والے کو ملک کی معاشی بدحالی و بربادی کا ذمے دار ٹھہراتا ہے۔ ملک و قوم پر قرضوں کے بوجھ اور خزانہ خالی ہونے کا قصور وار سابقہ حکمرانوں کو قرار دیا جاتا ہے، لیکن موجودہ حکمران نئے طریقوں اورانداز سے قوم کو بہلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سابقہ حکمرانوں کو چور کہنے والے موجودہ حکمرانوں کا کہنا ہے کہ وہ جاتے ہوئے سب لوٹ کر لے گئے۔ خزانہ ایسا خالی کیاکہ جب ہم نے اقتدار سنبھالا، تو خزانے میں کچھ بھی نہ تھا۔ سرکاری اداروں میں غیر قانونی بھرتیاں، کرپشن کا ایسا بازار لگا تھا کہ تین سال سے ہم سراغ لگاتے لگاتے تھک گئے، لیکن سابقہ حکمرانوں کی کرپشن کی داستانیں ختم نہیں ہو رہیں۔ الغرض اس طرح کی بے شمار باتیں کی جا رہی ہیں، لیکن حسبِ سابق قوم کی حالت کی تبدیلی اور بہتری کے لیے ایک قدم بھی نہیں اُٹھایا گیا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ بد عنوانی کو نا سور سمجھنے والی موجودہ حکومت کے دور میں میرٹ کی دھجیاں نہ اڑائی جاتیں، عوام خوش حال ہوتے، مہنگائی کم نہیں ہوتی، تو کم از کم بڑھتی بھی نا، پر افسوس کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔
سیکرٹری، چیف سیکرٹری، آئی جی، ڈی آئی جی سمیت اعلا سطح افسران کو آئے روز تبدیل کیا جا رہا ہے، مگر مطلوبہ نتائج پھر بھی برآمدنہیں ہورہے۔ موجودہ حکمران، جو کل تک کہتے تھے کہ پیٹرول کی قیمت عالمی مارکیٹ سے 45روپے لیٹر زیادہ ہے۔ اب عوام پر بلاجواز مہنگائی بم گراتے ہوئے ایک بار بھی نہیں سوچتے بلکہ نت نئے بہانے تراشتے، جواز گھڑتے نظر آتے ہیں۔ عوام بھی یہ کہنے پر مجبورہوگئے ہیں کہ ’’اگر غریب پاکستانیوں کے زخموں کا مداوا کرنے کی بجائے مہنگائی و گرانی کا سونامی ہی لانا تھا، تو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی حکومت میں کیا برائی تھی؟‘‘ پاکستانی قوم توگذشتہ 73 برس سے اسی مہنگائی، بے روزگاری، ظلم و زیادتی کی چکی میں پس رہی ہے، پھر یہ ’’تبدیلی‘‘ کا راج پاٹ کیوں؟ ہر الیکشن میں عوام کی قسمت بدلنے کے دعوے کیے جاتے ہیں، مگر عملاً حکمران ہی اپنی جیبیں بھر کے چلے جاتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ آج قوم کا ہر فرد لگ بھگ دولاکھ روپے سے زائد کا مقروض ہے۔ عمران خان کی حکومت جس طرز پر چل رہی ہے، اس میں کردار سے زیادہ گفتار سے کام لیا جا رہا ہے اور کچھ کر دکھانے کی بجائے ہر روز ایک نئی کمیٹی تشکیل دے دی جاتی ہے یا ایک نئی طفل تسلی کا اعلان ہو جاتا ہے۔ یوں دوسال کے حکومتی اقدامات محض ہاتھ باندھنے کی حکمت عملی سے زیادہ نہیں۔ خطے کے حالات اور حکومت کی پے در پے ناکامیاں یہ اشارہ دے رہی ہیں کہ اب ملک مزید تجربات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ طرزِ حکمرانی تبدیل کرتے ہوئے عوامی مسائل کو اوّلیت دی جائے اور معاشی اصلاحات لاکر ملک سے مہنگائی، بے روزگاری ختم کرنے کی صدقِ دل سے کوشش کی جائے۔
………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔