وہ خواب چہرے، گلاب چہرے

د منگلور د چنار لاندی
دوستے نریٔ شملہ وہی کشمیر لہ زینہ
اس مختصر سے ٹپہ میں ایک پوری تاریخ سموئی گئی ہے۔ یہ ایک قد آور شخصیت کی یاد دلاتی ہے جو پختون قوم کے مجموعی خواص و عواقب کے نمائندہ تھے۔ ان کی چال ڈھال اور لباس سے ایک خوش گوار تمکنت اور دل کش جاذبیت کا اظہار ہوتا تھا۔ وہ منگلور گاؤں کے لیے چنار کی درخت کی طرح مہربان اور باعثِ تسکین تھے۔ ان کے قریبی حریف زرین خان بھی اپنے وابستگان کے لیے باعث تقویت اور پناہ گاہ تھے۔ یہ دونوں اس گاؤں کے لیے سرمایۂ افتخار تھے اور منگلور کے چناروں کی طرح شاندار اور انسان دوست۔ میں نے بچپن میں دوستے خان کو کئی دفعہ اپنے پڑوس میں رہنے والے مشیر سوات محمد مجید خان کے حجرہ میں دیکھا تھا۔ میرے والد مرحوم نے اُن کے بارے میں مجھے بتایا تھا اور ابتدا میں درج شدہ پشتو ٹپہ بھی انھوں نے مجھے سنایا تھا۔

والئی سوات خود کہتے ہیں کہ دوستی کے قتل کا مسئلہ میرے لیے ایک ’’ڈائیلما‘‘ تھا۔

پھر جب میں ذرا بڑا ہوگیا، تو اُن کو اکثر کالج کالونی میں پروفیسر شاہ دوران خان کے بنگلہ پر آتے جاتے دیکھا اور کچھ عرصہ بعد ایک دن اچانک یہ روح فرسا خبر ملی کہ دوستے خان اُسی چنار کے نیچے قتل کردیے گئے ہیں جس کے نیچے وہ ایک دن باریک شملہ باندھتے ہوئے کشمیر کو جہاد کے لیے جارہے تھے۔ قتل کا الزام زرین خان کے اوپر لگا اور وہ گرفتار ہوکر سنٹرل جیل سیدوشریف میں منتقل کردیے گئے اور یہیں سے وہ اعصاب شکن مراحل شروع ہوگئے جس نے والئی سوات جیسے مضبوط شخص کو بھی ہلا کر رکھ دیا۔ عام طور پر قتل کے مقدمات ریاستی دور میں ہفتہ دس دن میں ختم ہوجاتے اور قاتل کیفرِ کردار کو پہنچتا، مگر یہ مقدمہ معمول سے زیادہ طوالت اختیار کرگیا اور عام لوگوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات جنم لینے لگے کہ شاید حکومت نہیں چاہتی کہ زرین خان پر قصاص کی حد جاری کرے۔ والئی سوات خود کہتے ہیں کہ یہ مسئلہ میرے لیے ایک ’’ڈائیلما‘‘ تھا۔
دوسری طرف شاہ دوران خان اور ولئی عہد ریاست کے درمیان گہری دوستی تھی اور اُن پر بھی دوستی نبھانے کا امتحان آگیا تھا۔ والئی سوات نے اس کشمکش سے نکلنے کا راستہ ڈھونڈنے کے لیے اپنے صاحب بصیرت والد جناب بادشاہ صاحب سے رہنمائی طلب کی۔ انھوں نے ساری بات سن کر خاموشی اختیار کی تو والی صاحب نے جھنجھلا کر کہا: ’’اگر میں زرین خان پر قصاص کا حکم کردوں، تو آپ ناراض نہ ہوں گے؟” بادشاہ صاحب نے جواب دیا نہیں۔ والی صاحب نے کہا: "اور اگر میں زرین خان کو چھوڑ دوں تو آپ ناراض تو نہیں ہوں گے؟” بادشاہ صاحب نے جواب دیا: "نہیں۔” والئی سوات سمجھ گئے کہ اُن کے عظیم والد کا کیا مقصد ہے اور وہ ان کو کیا سمجھانا چاہتے ہیں۔ جمعہ کا دن تھا۔ میں اور اسفندیار اُن کے والد کیپٹن عبدالحنان کے ساتھ بیٹھے تھے کہ پروفیسر شاہ دوران خان، محمد مجید خان مشیر صاحب کے حجرہ میں داخل ہوئے۔ اُن کے ہاتھ میں ویبلی اینڈ سکاٹ کی بنی ہوئی بارہ بور کی ڈبل بیرل شاٹ گن تھی۔ کپتان صاحب نے کہا: ’’لڑکو، سنو! آخرِکار زرین کا فیصلہ ہوچکا۔” ہم نے پوچھا کہ آپ کو کیسے پتا لگا؟ کہنے لگے، دیکھتے نہیں شاہ دوران کے ہاتھ میں بندوق ہے۔ اگر ایسی بات نہ ہوتی، تو وہ یوں کھلے عام بندوق کے ساتھ نہ آتے۔ تم لوگ اگر دیکھنا چاہتے ہو، تو فوراً جیل کے پیچھواڑے کھائی میں جاکر انتظار کرو۔
ہم نے دیکھا کہ اگلے گھر سے بہروز خان مشیر ایک ڈاکٹر کے ساتھ آنکلے اور شاہ دوران خان کو اشارے سے ساتھ چلنے کو کہا۔ ہم لوگ بھاگ کر اُن کی آمد سے پہلے اُس کھائی کے کنارے پہنچے جہاں پر ہم نے کئی مجرموں کو مقتولین کے وارثوں کے ہاتھوں مرتے ہوئے دیکھا تھا۔ ہم نے چند لمحے انتظار کیا، تو شاہ دوران صاحب کو کھائی کے اس مخصوص مقام پر آکر بیٹھتے ہوئے دیکھا۔ پھر جیل کی جانب سے بہروز خان مشیر، ڈاکٹر اور جیلر کے ہمراہی میں زرین خان کو آتے ہوئے پایا۔ خلاف قاعدہ و قانون اُن کے ہاتھ پشت پر باندھے ہوئے نہیں تھے بلکہ اُن میں ہتھکڑی بھی نہیں لگی تھی۔ وہ ایک باوقار سنجیدگی کے ساتھ موت کی وادی میں اُترنے کے لیے قدم بڑھا رہے تھے۔ جب یہ سب گہرائی میں اُتر کر مطلوبہ مقام تک آگئے تو شاہ دوران خان بندوق اُٹھاتے ہوئے کہنے لگے کہ آپ نے میرے والد کو کیوں قتل کیا؟ زرین خان نے اُسی تحمل سے جواب دیا: ’”میں نے اُن کو نہیں مارا تھا۔” اور جواب میں پروفیسر صاحب نے بندوق کی دونوں نالیاں زرین کے چوڑے چکلے سینے میں خالی کر دیں۔ یہ بھی طے شدہ طریقۂ کار کے خلاف تھا۔ مجرم کو پشت کی جانب سے گولی مار دی جاتی اور اُس کے ہاتھ پشت پر بندھے ہوتے تھے۔ زرین خان گر گئے۔ دس منٹ بعد ڈیوٹی پر آئے ڈاکٹر نے اُن کا معائنہ کیا اور اُن کے مرنے کی تصدیق کردی۔
میں نے یہ ساری کہانی اس لیے لکھی کہ مدت ہوئی سوات کی مٹی سے ایسے گلاب چہرے اب کیوں پیدا نہیں ہوتے؟ مٹی تو اب بھی وہی ہے مگر نہ کوئی جمروز خان پیدا ہوتا ہے، نہ بہرام خان اور شاہ وزیر خان آتا ہے، نہ امیر خان اور جمشید خان ہیں، نہ حبیب خان عرف درامئی خان ملتا ہے نہ شاکرا للہ خان اور زمان خان ہیں۔

کہیں سوات کی مٹی بانجھ تو نہیں ہوگئی؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری اور نیچے ہونے والے بحث و مباحثہ سے متفق ہونا ضروری نہیں)