باغِ دوستاں کا پھول، تصدیق اقبال

اسے فراست کی فراست کہوں، خلوص کہوں یا مہربانی جس نے مجھے تصدیق اقبال جیسے ’’عاشقِ کتب‘‘ سے متعارف کروایا اور سال 2020ء (کورونا سال) قریب قریب سارے کا سارا تصدیق اقبال کے رُوحانی اور قلبی حصار میں گزرا۔ وہ میری ساری اُداسیاں کھا گیا لیکن جاتے جاتے بہت افسردہ بھی کرگیا۔ اللہ کی گھڑی ہم انسانوں کی گھڑی سے کبھی نہیں ملتی۔ قادرِ مطلق ہی جانتا ہے کہ اُس نے اپنے بندے کو اپنے پاس کس وقت بلانا ہے۔
تصدیق اقبال زندگی سے بھرپور تھا اور بہت سی خوبیوں سے مالا مال تھا۔ انسان خیر و شر کا پتلا ہے اور یہی انسانی معاملات تصدیق اقبال کے ساتھ بھی تھے، مگر بنیادی طور پر وہ محنتی، سیکھنے کی لگن رکھنے والا، ذمہ دار شوہر اور باپ تھا۔ میرے لیے وہ ’’زندہ کتاب‘‘ تھا جسے میں نے بصد شوق پڑھا۔ پسندیدہ کتاب تو بار بار پڑھی جاتی ہے، مگر میں اُسے صرف ایک سال ہی پڑھ سکا۔ جو کچھ میں اُس کے بارے میں پہلی ملاقات (جون 2020ء) میں جان پایا اور بعد ازاں دورۂ سوات (جولائی 2020ء) کے دوران مشاہدہ کیا اور پھر ہماری روزانہ ٹیلی فونک (صبح، دوپہر، شام) گفتگو سے اخذ کر پایا وہ قارئین سے ضرور شیئر کروں گا۔
تصدیق اقبال کے کالمی انتخاب کا نام: ’’ہم نے جو پھول چنے‘‘ مَیں نے تجویز کیا تھا اور اُس نے بہت پسند کیا تھا۔ اس کتاب کی ٹائٹل کلر سکیم بھی اُس نے ہارون الرشید ہارون کی کتاب ’’درِ یار پہ دستک‘‘ کے لیے پسند کی تھی۔ وہی مَیں نے اس کتاب کے ٹائٹل کے لیے بھی منتخب کرلی اُس کی پسند کا خیال کرتے ہوئے۔ یہاں تک کہ کتاب کی قیمت یعنی 500 پر بھی مَیں نے تصدیق اقبال کی پسندیدہ قیمت کا ہی اطلاق کیا۔ اس کتاب کی اشاعت سے متعلق تیاری اُس نے شروع کر رکھی تھی اور کتاب کا مسودہ پروفیسر شیر افگن کاکا کو اُن کے گھر جا کر دکھایا بھی تھا۔ میرے ذہن میں تھا کہ تصدیق اقبال میرے مرنے کے بعد میرا نام زندہ رکھے گا اور میری Extension ثابت ہوگا لیکن اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ اب اُس کا نام زندہ رکھنا اور اُس کی یادوں کو تازہ رکھنا صرف میرا ہی نہیں تصدیق اقبال کے تمام دوستوں کا فرض بنتا ہے۔
مَیں نے تصدیق اقبال کے حوالے سے جو کچھ سوچا ہے اُس میں اُس کے نام کا ’’کتاب میلہ‘‘ شروع کرنا اور پھر ’’تصدیق اقبال میموریل ریسرچ لائبریری‘‘ کا قیام ہے۔ لائبریری کے لیے ہمیں سوات، کالام مرکزی شاہراہ پر جگہ درکار ہوگی۔ قطعۂ اراضی کے حصول کے بعد اُس کے طول و عرض کی پیمائش کے مطابق اُس کا نقشہ کسی اعلا ماہرِ تعمیرات سے بنوایا جائے گا اور پھر عطیات کی مدد سے اُس کی تعمیر جاری رکھی جائے گی۔
’’ہم نے جو پھول چنے‘‘ تصدیق اقبال کے بہت سے دوست بھی پڑھیں گے۔ میری اُن سے بھی گذارش ہے کہ وہ اس منصوبے کو قابلِ عمل بنانے کے لیے مزید تجاویز دیں اور اس مقصد کے لیے قائم ہونے والی ’’کمیٹی‘‘ میں شامل ہو کر کام شروع کر دیں۔
کتاب میں صرف وہی کالم شامل کیے گئے ہیں جو تصدیق اقبال نے مشہور اُردو کتابوں پر بڑی عرق ریزی سے لکھے۔ وہ اپنے کالم پر کتنی محنت کرتا تھا اور اُن کی کمپوزنگ پر اپنی جیب سے پیسے لگاتا تھا۔ یہ بات میں جانتا ہوں۔ وہ عرصہ 11 سال سے روزنامہ ’’آزادی‘‘ سوات کے لیے کالم لکھ رہا تھا۔ سوات کے بہت سے شاعروں اور ادیبوں نے اُس سے مفت میں پروف ریڈنگ کروائی۔ پیسا دینا تو درکنار کتاب پر پروف ریڈنگ میں (کتاب کا دوسرا صفحہ یعنی کتاب کی ’’پرنٹ لائن‘‘) پر اُس کا نام تک نہ دیا اور جب مَیں نے اپنے ادارے "T&T Publishers” سے شائع ہونے والی کچھ کتابوں پر بہ طورِ پروف ریڈر اُس کا نام دیا، تو اُسے بہت حیرت ہوئی اور اُس نے مجھے محولہ بالا تفصیل بتائی۔
اپنے ہی گراتے ہیں نشیمن پہ بجلیاں
تصدیق اقبال کے ساتھ پیدائش (8 نومبر 1969ء) سے لے کر وفات (6 جنوری 2021ء) تک عجیب معاملہ رہا۔ اُس کی پیدائش نوشہرہ (خیبر پختونخوا) میں ہوئی۔ پرورش اور ابتدائی تعلیم مونا ڈپو، منڈی بہاؤ الدین (پنجاب) میں ہوئی۔ حادثاتی وفات پنجاب کے صوبائی دارالحکومت ’’لاہور‘‘ میں ہوئی اور تدفین اپنے گھر (عالم گنج، چار باغ، سوات) کے قریبی قبرستان میں۔ اُس کا جنازہ جس نے بڑی بڑی سیاسی شخصیات کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا، علاقے کا سب سے بڑا جنازہ ثابت ہوا۔ یہ سب خدائی معاملات ہیں جن کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔
تصدیق اقبال روزنامہ ’’آزادی‘‘ سوات میں پہلے ’’ادبیات‘‘ کے نام سے کالم لکھتا تھا۔ مَیں نے اُسے ’’تصدیق نامہ‘‘ کے نام سے کالم لکھنے کا مشورہ دیا جو اُس نے قبول کیا۔ مَیں نے ہی اُسے یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ اپنے نام کے ساتھ ’’بابو‘‘ نہ لکھا کرے یہ بچکانہ سا لگتا ہے۔ نام کا رُعب مارا جاتا ہے مگر میرا یہ مشورہ اُس نے نہیں مانا۔ وہ جون کی ایک تپتی دوپہر میں ہارون الرشید ہارون اور احسان یوسف زئی کے ہمراہ میرے گھر آیا۔ میرے لیے اپنے علاقے کی خاص خوبانیاں لے کر آیا، تو مَیں نے جوابی طور پر اُسی لمحے اُسے اپنے گھر میں رکھے ہوئے لاہور کے مشہور چاول دیے۔
میرے سواتی دوست افراتفری میں تھے۔ مَیں نے کھانا بنوا رکھا تھا مگر اُنھوں نے صرف چائے پی اور میرے گھر سے اُردو بازار چلے گئے۔ رات 9 بجے تصدیق اقبال نے مجھے فون کر کے نیشنل ہوٹل لکشمی چوک، لاہور بُلایا اور مجھے ہارون الرشید ہارون کے شعری مجموعے: ’’درِ یار پہ دستک‘‘ کا اشاعتی ایڈوانس 15 ہزار دلوایا۔ ہم سب نے ایک ساتھ ’’بٹ کڑاہی‘‘ میں شان دار ڈنر کیا اور پھر اگلے روز یہ سب مہمان واپس سوات چلے گئے۔
مَیں کتاب کی اشاعت میں مصروف ہوگیا اور پھر کتاب کی ڈمی (نمونہ) لے کر سوات روانہ ہوا۔ رات 10بجے فیصل موورز سے روانگی ہوئی اور صبح 5 بجے میں سوات میں تھا۔ تصدیق اقبال کی زیر ہدایت میں وین میں بیٹھ کر عالم گنج کے سٹاپ پر اُترا۔ تصدیق اقبال میرے استقبال کے لیے جانے کتنی دیر سے وہاں کھڑا تھا۔ بڑی گرم جوشی سے مجھے گلے ملا۔ میرا سوٹ کیس تھاما اور اپنے گھر کی بیٹھک میں لے گیا۔ گھر میرے اندازوں سے بہت بہتر تھا اور اُس کے اندر ایک خاص قسم کا سلیقہ بھی نظر آتا تھا۔ پتا چلتا تھا کہ یہ ایک پڑھے لکھے قلم کار کا گھر ہے۔ وہ میری مہمان نوازی میں بچھا جاتا تھا اور میری سادگی پر حیران تھا۔
اُس نے مجھے سوات کی جی بھر کر سیر کروانے کی غرض سے اپنے بہنوئی سے "Honda 125” لی اور واقعی ہم نے اُس کا خوب فائدہ اُٹھایا۔ لاہور میں میرے پاس بھی چوں کہ "Honda 125” ہے، اس لیے مجھے وہاں کسی دقت کا سامنا نہ ہوا۔ تصدیق اقبال، یاروں کا یار تھا۔ اس لیے ہم جہاں جہاں بھی گئے ہماری بہت خاطر تواضع ہوئی۔ کسی ایک دعوت کا ذکر کرنا ناانصافی ہوگی۔ تصدیق اقبال کے سبھی دوستوں نے مجھے اپنی توجہ اور محبت سے نوازا۔ ہمیں ایک رات ہارون الرشید ہارون نے فتح پور اپنے شان دار گھر میں ٹھہرایا۔ کالام کے لیے ہم وین میں گئے اور وہاں 2 راتیں گذاریں۔ سپوتِ کالام امیر مقام کے بنگلے (جو لبِ دریا واقع ہے) پر اُس روز اُن کی پارٹی (ن لیگ) کا کوئی تنظیمی فنکشن تھا۔ تصدیق اور میں بھی اُس میں شریک ہوئے۔ ہارون الرشید ہارون بھی وہاں آئے۔ گرمیوں کی خوبصورت بارش بھی ہو رہی تھی۔ کالام جانے کا مزا آگیا۔ مجھے وہاں بازار میں ’’ٹیڈی بکرے‘‘ ٹنگے دیکھ کر حیرت ہوئی جنہیں ’’مزید چھوٹا گوشت‘‘ کہنے کو دل جانے کیوں چاہ رہا تھا۔
فکشن رائٹر پائندہ خان سے میاندم میں ملاقات ہوئی۔ وہاں ٹراوٹ فش، ہوٹل کے کنارے پر واقع تالابوں میں زندہ سلامت، دوڑتی بھاگتی بھی دیکھی۔ احسان یوسف زئی کے شاگردِ رشید (جو افغانستان میں فارمیسی کی تعلیم حاصل کر رہا تھا) نے ہمیں اونچائی پر واقع اپنے گھر میں جو ظہرانہ دیا وہ لوکیشن کی وجہ سے اور بھی دل فریب تھا۔ تصدیق اقبال کے ہمراہی میں گذارے ہوئے دنوں میں مجھے اپنی فٹنس واضح طور پر بہت بہتر ہوتی محسوس ہوئی۔ بے فکری اور آوارہ گردی کی وجہ سے کھایا پیا بڑے احسن طریقے سے ہضم ہو رہا تھا اور جزو بدن بن رہا تھا۔
تصدیق اقبال کا سب سے عجیب معاملہ ، شعیب سنز بک سیلرز اینڈ پبلشرز کے مالک فضل ربی راہیؔ کے ساتھ تھا۔ جب وہ مجھے پہلی بار فضل ربی راہیؔ سے ملوانے اُن کے شو روم پر لے کر گئے، تو مجھے بریف کرتے ہوئے بتایا: ’’فضل ربی راہیؔ آپ سے ہاتھ بھی نہیں ملائے گا۔ چائے پانی پوچھنا تو دور کی بات ہے۔‘‘ مَیں نے تصدیق اقبال کو جواباً صرف اتنا کہا: ’’نصیب اپنا اپنا‘‘ اور پھر حیران ہونے کی باری تصدیق اقبال کی تھی جب فضل ربی راہیؔ نے نہ صرف مجھ سے پُرجوش انداز میں ہاتھ ملایا، پاس بٹھا کر گپ شپ لگائی اور پھر ہم دونوں کو ’’نیسلے‘‘ کا جوس منگوا کر پلایا۔ واپسی پر تصدیق اقبال نے اسے حیرت انگیز قرار دیا۔ مزید یہ کہ فضل ربی راہیؔ نے ہم دونوں کو اپنی کار پر لالہ زار سیر کروانے کی دعوت بھی دی۔ ہم نے بائیک پٹرول پمپ پر کھڑی کی اور فضل ربی راہی ہمیں اپنے ایک دوست ریاض کے ساتھ لالہ زار لے گئے اور شام کو واپسی پر بہت اچھی دُنبہ کڑاہی بھی کھلائی۔ تصدیق اقبال کے لیے یہ سب ناقابلِ یقین تھا مگر اب وہ اس کی تصدیق اپنے دوستوں کی موجودگی میں کرنے پر مجبور بھی تھا۔ اگر میں فضل ربی راہیؔ کو تصدیق اقبال ہی کی آنکھ سے دیکھتا، تو کبھی ملنے نہ جاتا مگر مجھے زندگی کے تجربے نے یہی بتایا تھا کہ ہر دن کسی نہ کسی لحاظ سے نیا ہوتا ہے اور ہر انسان کا نصیب اپنا اپنا ہوتا ہے۔ یوں مَیں نے فضل ربی راہیؔ کو ایک اچھا اور معقول انسان پایا اور بعد میں انہیں تحفے میں اُن کے پسندیدہ سفر نامہ نگار مستنصرحسین تارڑ کا فریم شدہ پورٹریٹ (طارق مرزا، ساہیوال) بدستِ تصدیق اقبال بھجوایا اور اُنھوں نے یہ تحفہ پوری عقیدت اور احترام کے ساتھ وصول کیا۔ سوات سے لاہور واپسی پر میرے پاس ہارون الرشید ہارون کے دیے ہوئے، اخروٹ بھی تھے۔
تصدیق اقبال سے رخصت لے کر مَیں نے سیدو شریف میں معروف سیاسی و سماجی شخصیت پروفیسر شیر افگن کاکا کے گھر قیام کیا اور اُنھوں نے مجھے اُسی کمرے میں ٹھہرایا جہاں کبھی وزیر اعظم عمران خان اپنی انتخابی مہم کے دوران ٹھہرے تھے۔
تصدیق اقبال بہت لالچی اور حریص بھی تھا مگر صرف اور صرف کتابوں کے معاملے میں، ورنہ باقی ہر جگہ وہ سادہ مزاج اور اپنے آپ میں مگن رہنے والا انسان تھا۔ مجھے اُس نے اپنی زندگی کا ایک اہم رومانوی اور پُرجوش قصہ بھی سنایا تھا جو مَیں آنے والے وقت میں ناولٹ کی صورت میں ’’سندر خانی‘‘ کے نام سے لکھوں گا۔
تصدیق اقبال محکمۂ تعلیم کا سرکاری ملازم ہونے کے ناتے کئی معاملات میں بزدلی بھی دکھانے پر مجبور تھا مگر اُس پر میری رفاقت بڑی تیزی سے اپنا اثر دکھانے لگی تھی۔ اُس کے کئی کالم اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ وہ میرے ’’ادبی اثرات‘‘ بڑی تیزی سے قبول کر رہا تھا۔
وہ اپنے بڑے بیٹے کامران اقبال سے بڑا خوش تھا کہ وہ تعلیم میں اچھا جا رہا ہے اور ’’سی ایس ایس‘‘ کا امتحان ضرور پاس کرے گا جسے وہ خود کئی کوششوں کے باوجود پاس نہ کرسکا تھا۔ وہ میٹرک میں زیرِ تعلیم اپنی بیٹی حاجرہ سے بھی بہت سی توقعات وابستہ کیے ہوئے تھا اور مجھے بڑے فخر سے بتاتا تھا کہ آپ کی بھیجی ہوئی بہت سی کتب میں سے کچھ وہ بھی بڑے ذوق و شوق سے پڑھتی ہے۔ یہ تھے اُس کے خواب :
سامان سو برس کا پل کی خبر نہیں
اُس نے دسمبر کی چھٹیوں میں ہمیشہ کی طرح پنجاب آنے کا قصد کیا۔ مَیں نے اُسے یہی کہا کہ یہ سال (2020ء) کرونا کے باعث منحوس جا رہا ہے۔ وہ اپنا ٹور ایک، دو مہینے آگے لے جائے اور یہ کہ میں "Jobless” ہوں، اس لیے حقِ میزبانی ٹھیک طرح سے ادا نہیں کر پاؤں گا۔ ہونی ہو کر رہتی ہے۔ تصدیق اقبال اپنے قریب ترین دوست پروفیسر سبحانی اور اپنے اُستادِ محترم رُوح الامین نایاب کے ساتھ 30 دسمبر (بدھ) 2020ء کی رات ساڑھے سات بجے لالہ حنیف کے مہمان خانے (شاہ کمال روڈ، آویاں چوک، علامہ اقبال ٹاؤن، لاہور) پہنچا۔ وہ میرے ساتھ دورانِ سفر ٹیلی فونک رابطے میں رہا۔ مَیں نے فوراً ملنے کی خواہش ظاہر کی، تو اُس نے بتایا کہ وہ سب بہت تھکے ہوئے ہیں۔ کل صبح (31 دسمبر 2020ء) سال کے آخری دن ملاقات ہوگی۔ اگلی صبح ایک ڈراؤنے خواب میں تبدیل ہوگئی۔ ناشتے سے پہلے ہی گیس سلنڈر دھماکا ہوگیا۔ تصدیق اقبال اور پروفیسر سبحانی کے کپڑے بھک سے اُڑ گئے۔ تصدیق اقبال پُکارا: ’’میرا پردہ کرواؤ!‘‘ خوف زدگی اور سراسیمگی کے عالم میں تصدیق اقبال اور پروفیسر سبحانی جس مکان میں ٹھہرے ہوئے تھے وہاں سے باہر نکل آئے۔ پنجاب حکومت کی سرکاری ایمبولینس سروس 1122 نے آنے میں ذرا دیر نہ کی۔ میزبان محمد حنیف رند (المعروف لالہ حنیف) نے ایمبولینس کے ساتھ اپنی Honda 125 بھگائی۔ برن وارڈ جناح ہسپتال میں فوری داخلہ ہوا۔ مجھے اگلے روز یکم جنوری (جمعہ) 2021ء کو دوپہر 3 بجے تصدیق اقبال کو دیکھنے کی بہ مشکل اجازت ملی۔ مجھے کمرے میں لگے شیشے سے تصدیق اقبال کو دیکھنے کا موقع ملا۔ چہرہ بُری طرح سوجا ہوا تھا اور وہ نشے کے انجکشنوں کے زیرِ اثر غنودگی میں تھا۔ مجھ سے یہ منظر دیکھا نہ گیا اور میں وہاں سے ہٹ گیا۔ پروفیسر سبحانی کو اتوار (3 جنوری2021ء) رات 9بجے وارڈ میں دیکھا۔ وہ ہوش میں تھے اور ڈاکٹر کی زیرِ ہدایت وارڈ ہی میں اپنے بھائی کا سہارا لے کر واک کر رہے تھے۔ تصدیق اقبال کی ڈریسنگ ہو چکی تھی۔ اب ہماری شیشے کے پیچھے سے ملاقات کروائی گئی۔ تصدیق اقبال ملاقاتیوں کو دیکھ کر مسکرایا اور ہاتھ کے اشارے سے ’’سلام‘‘ بھی کیا۔ ہماری انٹر کام پر تھوڑی بہت بات بھی ہوئی۔ مَیں نے اُسے تسلی دی کہ وہ بہت جلد ٹھیک ہو کر وارڈ میں ہو گا اور اللہ نے چاہا، تو اپنے گھر بھی چلا جائے گا۔
بدھ کی صبح مجھے اپنے اور تصدیق اقبال کے مشترکہ دوست فراست علی کا ’’ایس ایم ایس‘‘ ملا کہ تصدیق اقبال 6 جنوری 2021ء کی رات 3 بجے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے انتقال کرگئے۔ موت اٹل حقیقت ہے لیکن یہ واقعہ جانے کیوں ناقابلِ یقین سا لگتا ہے۔ سارا دن عجیب کیفیت میں گذرا۔ تصدیق اقبال اورپروفیسر سبحانی کی زندگی کے لیے دُعا حادثے والے دن سے ہی کر رہا تھا مگر علیم و بصیر تو اللہ ہے۔ وہ اپنے بندے تصدیق اقبال کی اذیت سے، ہم سب سے زیادہ واقف تھا۔ سو اُس نے تصدیق اقبال کو اپنے پاس بلا لیا اور جب جمعہ (8 جنوری 2021ء) کی صبح 7 بجے پروفیسر سبحانی کی وفات کی خبر آئی، تو میرے دل میں فوری طور پر یہ بات آئی کہ پروفیسر سبحانی نے کسی سے تصدیق اقبال کے انتقال کی خبر سن لی ہوگی اور وہ اُسی وقت دل چھوڑ بیٹھا، ورنہ وہ تو تیزی سے بہتری کی طرف گامزن تھا۔ دو جگری دوست، دو دن کے وقفے سے دُنیا چھوڑ گئے۔ یہ ایک ناقابلِ فراموش حادثہ اور صدمہ تھا جس نے سارا منظر نامہ بدل کے رکھ دیا۔ تصدیق اقبال تو لاہور کی اورنج ٹرین میں سفر کی خواہش لے کر آیا تھا مگر اُسے 1122 نصیب ہوئی۔ ڈاکٹر مرزا حامد بیگ کا گھر آویاں چوک سے نالے کے ساتھ ساتھ جانے والی سڑک کے ساتھ 2 کلومیٹر کے فاصلے پر تھا اور مَیں نے تصدیق اقبال کو سب سے پہلے اُنہی کی طرف لے کر جانا تھا۔ تصدیق اقبال، اُن کا ناول: ’’انار کلی‘‘ پڑھ چکا تھا اور ملاقات میں ’’انار کلی‘‘ ہی کے بارے میں سوالات کرنا چاہتا تھا۔
سوچتا ہوں عاشقِ کتب کی وفات سے وہ تمام کتابیں کس قدر اُداس اور توجہ سے محروم ہوگئی ہوں گی جو تصدیق اقبال کے سرہانے ہمہ وقت حاضر رہا کرتی تھیں۔ عاشق کے بغیر معشوق کی زندگی کیا ہوتی ہے؟ اس سوال کا جواب : ’’موت‘‘ ہے۔
……………………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔