16 فروری، دلشاد کلانچوی کا یومِ انتقال

وکی پیڈیا کے مطابق اردو شاعر اور سرائیکی زبان و ادب کے نامور محقق، نقاد، شاعر، ناول نگار، مترجم، ماہرِ اقبالیات اور شعبہ سرائیکی اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے پروفیسر دلشاد کلانچوی 16 فروری 1997ء کو بہاولپور میں انتقال کرگئے۔
24 مئی 1915ء کو ریاستِ بہاولپور متحدہ ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ ادبی زندگی کا آغاز زمانۂ طالب علمی میں ہی ہو گیا تھا۔ ابھی چھٹی یا ساتویں جماعت میں زیرِ تعلیم تھے کہ بچوں کے رسالوں کے لیے لکھنے لگ گئے۔ میٹرک پاس کرنے تک متعدد کاوشیں چھپ چکی تھیں۔ ایس ای کالج بہاولپور میں داخل ہوئے، تو کالج میگزین کے لیے لکھتے رہے ۔ اسی زمانے میں نظمیں بھی لکھیں۔ ایک نظمِ معریٰ ’’انتظار‘‘ زمانۂ طالب علمی کی یادگار ہے۔
دلشاد بنیادی طور پر معلم تھے۔ ساری زندگی درس و تدریس میں گزار دی۔ اسی زمانے میں طلبہ کی درسی ضروریات کے لیے چھے کتب لکھیں جن میں اصلاحاتِ معاشیات، رہبرِ معاشیاتِ پاک و ہند، نظریاتِ معاشیات وغیرہ نمایاں ہیں۔
پہلا سرائیکی افسانہ ’’روہی دا خواب‘‘ ماہنامہ سرائیکی بہاولپور میں شائع ہوا۔ چھوٹی بڑی 69 کتابیں تصنیف و تالیف کیں، جن میں 10 اُردو زبان میں، 3 انگریزی میں اور 56 سرائیکی زبان میں ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد خود کو سرائیکی زبان کے لیے وقف کر دیا۔ 23 مارچ 1971ء کو سرائیکی لائبریری بہاولپور قائم کی جہاں سے سرائیکی زبان و ادب پر کام کرنے والے محققین نے بہت فیض پایا۔ سرائیکی زبان و ادب کی ترقی کے لیے جنوری 1986ء میں چار صفحات پر مشتمل ایک ماہانہ خبرنامہ ’’سرائیکی زبان‘‘ جاری کیا جو 1989ء تک جاری رہا۔
’’کون فرید فقیر‘‘ پر اکادمی ادبیات پاکستان کی جانب سے 1983ء میں خواجہ فرید ایوارڈ دیا گیا۔ ’’سرائیکی زبان تے ادب‘‘ اکادمی ادبیات پاکستان کی جانب سے 1988ء میں خواجہ فرید ایوارڈ دیا گیا۔
’’بہاولپور دی تاریخ تے ثقافت‘‘ پر حکومت پاکستان کے محکمۂ اطلاعات و ثقافت جانب سے 1989ء میں ’’جام درک ایوارڈ‘‘ دیا گیا۔ 1998ء میں خواجہ غلام فرید کے صد سالہ جشن کے موقع پر اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کی جانب سے خواجہ فرید اور ان کے کلام کی تشریح و ترجمہ پر خواجہ فرید میڈل بعد از مرگ دیا گیا۔